روغانے اک منفرد ادیب

’’میرے پاس میری تمام مطبوعہ کتابیں ختم ہوگئی تھیں، ایک دن میں مراد آٹسٹ کے ساتھ ہم نشین تھا کہ میری نظر میز پر پڑی اپنی کتاب ’’نوی نغمہ‘‘ پر لگ گئی۔ اُس دن جب میں گھر لوٹا تو دل میں سوچنے لگا کہ میری تمام کتابیں دوسری طباعت تک تو ناپید ہوگئی ہیں، کیوں نہ اس وقت یہی کتاب ہی اپنے پاس رکھ لوں، اگلے دن میں مراد کے پاس اپنی کتاب چوری کرنے پہنچا تو میز پر کتاب نہیں تھی!‘‘
روغانے نے مزاح و ظرافت سے بھری ہوئی یہ بات اُس وقت کہی جب وہ اپنی کتابوں کی مانگ پہ بحث کر رہے تھے۔ جس طرح اس بات میں خالص مزاح کا رنگ جھلکتا ہے بعینہ اسی طرح اُن کی شاعری کی متنوع جہات میں سے ایک جہت مزاح و ظرافت کی بھی ہے۔ یہ مزاح و ظرافت کبھی ترش و تلخ انداز میں ظاہر ہوجاتی ہے تو کبھی محض خالصتاً مزاح کی صورت میں جہاں یہ قاری کے لطف و لذت کا سامنا کرتی ہے۔
ملنگی سہ دہ خو کچکول غواڑی
گندہ جامے گندہ پکول غواڑی

روغانےؔ عصری شعور سے خوب لیس ہے، وہ اپنی سوسائٹی کے کونوں کھدروں اور مد و جذر سے خوب واقف ہیں، اپنی سوسائٹی نظام کی کم زوریوں کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ ایسے فتور پر انگشت نمائی کرکے اپنے قاری کو جگانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اُن کی شاعری میں مزاح و ظرافت اس انداز سے رچی بسی ہے اور بعض اوقات تو اتنی بسیط اور کثیر ہوجاتی ہے کہ بعض بے خبر قاری اس مغالطے میں پڑ جاتے ہیں کہ روغانے صرف اور صرف مزاح و ظرافت ہی کے شاعر ہیں۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے، در حقیقت ایسے ہی مقامات پر روغانے بازی گر کی طرح دھوکا دیتے ہیں، لفظوں کی مدد سے معنوی پانسے پلٹاتے ہیں اور قاری کو آئینہ دکھا کر مشوش چھوڑ دیتے ہیں۔ جیسے
ملازم لگے تنخواہ داسے ناتوان کڑو
چی لہ پوزے مچ پہ ژبہ باندی شڑی
دَ وطن بچی بہ سنگہ زندہ دل کڑی
چی پہ خپلہ اُستاذان وی لکہ مڑی
شاعر کبھی اپنی شخصیت کو اپنی شاعری سے الگ نہیں کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ نقادانِ ادب کا خیال ہے کہ شاعر کی شخصیت یا شاعر کی شاعری کو سمجھنے کے لیے ایک دوسرے کا مطالعہ ضروری اور لازم و ملزوم ہے۔ یہی صورت حال روغانےؔ کی بھی ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اُن کی شاعری میں ہمیں فلسفیانہ مباحث ملتے ہیں بالکل اسی طرح جب آپ اُن سے ہم کلام ہوجائیں، تو آپ کو فکر و فلسفہ سے بھری گفتگو سننے کو ملے گی۔ کہتے ہیں:
’’ثقافت کا تحفظ اور دنیوی پسماندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دیہات عموماً اس لیے پس ماندہ ہوتے ہیں کہ وہاں ثقافت دیر تک زندہ ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ دیہاتوں میں ثقافت شہروں کی نسبت زیادہ دیر تک اس لیے زندہ ہوتی ہے کہ وہاں رجعت و پسماندگی زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ اسی طرح کہنے لگے: ’’مادی ترقی کے لیے شور اور روحانی ترقی کے لیے سکوت ضروری ہے اور یہ کہ سکوت بالآخر شور ہی پر منتج ہوتا ہے۔ مثلاً جب محمدؐ غارِ حرا کے استغراق و سکوت سے نکلے، تو پوری دنیا میں ایک پُرزور و پُرشور انقلاب کے مؤجب بنے۔‘‘
یقین کیجیے، روغانےؔ جب ایسے خیالات و افکار پر اظہار کرنے لگتے ہیں، تو بڑی بڑی بلندیوں پر کمند ڈال کر آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں، یہی افکار آپ کی شاعری میں لفظی جامہ اوڑھ کر جا بہ جا بکھرے پڑے ہیں، کہتے ہیں:
اشتراک د روح، مادہ د ژوند سبب دے
بے عملہ د دعا سوزی پہ اور لاس
وحدت، علم، ہنر ژوند دے روغانیہؔ
دا کلیہ دہ پکے او نہ وہی نور لاس
’’کوربانہ خیالونہ‘‘ (جو اُن کی نثری کتاب ہے) میں تو وہ اپنے سلسلہ افکار کو اتنا طول دیتے ہیں کہ وہ باقاعدہ ایک ہزار سال آگے مستقبل کی پہنائی میں جست لگا لیتے ہیں اور مزا یہ ہے کہ وہ اکیلے جست نہیں لگاتے بلکہ قاری کو اپنے تخیلات کے پروں پر بٹھا کر سائنسی ایجادات اور شستہ و شائستہ اخلاقیات کی رنگین دنیا کی ایسی سیاحت کراتے ہیں کہ گویا قاری کتاب نہیں پڑھ رہا بلکہ تھیٹر میں بنفس نفیس بیٹھ کر ڈرامہ دیکھ رہا ہو۔ اس کتاب میں روغانےؔ دوہری کامیابی حاصل کرتے ہیں یعنی ایک طرف وہ مصور کی طرح تصویریں بنائے جاتے ہیں اور دوسری طرف اپنے خیال کی نیرنگیاں بیان کرکے قاری کو معنوی لحاظ سے مسحور کر دیتے ہیں۔ نثر کی اس کتاب میں ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ محض تصورات اور مثبت اختراعات کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں روغانےؔ ہزار سال آگے سے ہزار سال پیچھے مڑ مڑ کر اپنی موجودہ سوسائٹی کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں اور تنقید و تنقیص کے ساتھ ساتھ طنز و تعریض بھی کرتے ہیں۔ اس روپ میں روغانےؔ یقیناً اپنے معاشرتی سسٹم کی جراحی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
روغانےؔ عصری شعور سے خوب لیس ہے، وہ اپنی سوسائٹی کے کونوں کھدروں اور مد و جذر سے خوب واقف ہیں، اپنی سوسائٹی نظام کی کم زوریوں کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ ایسے فتور پر انگشت نمائی کرکے اپنے قاری کو جگانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ جیسے
دا قانون دَ دی وطن دے چی قانون بہ ئے وی مات
حقداران پکے ہغہ وی چے طاقت وی دَ چا زیات
دَ طاقت حکمرانی دہ دَ زنگل قانون چلیگی
دلتہ ہرہ محکمہ دہ، محکمۂ جنگلات
وہ اپنے معاشرے کی سفید پوش منافقت اور باریش دو رنگی پر بھی بے دریغ وار کرتے ہیں کہتے ہیں:
سوچہ گیرہ، سپین لباس تسپے پہ لاس کے
دکان دار دے پہ بازار کے ئے دکان دے
دیانت او سڑیتوب ورپکے نشتہ
زما یار تش د مونزونو مسلمان دے
روغانےؔ کبھی کبھی حزن و یاس کا بھی شکار ہوجاتے ہیں لیکن وہ اپنے آپ پر اُداسی اور مایوسی کو حاوی ہونے نہیں دیتے اور دنیا کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔
ورکہ کڑہ جڑا ساقی
راولہ خندا ساقی
ڈکہ پیالہ را ساقی
جوڑہ کڑہ مستی مستی
معاشرتی نباضی سے لے کر کائناتی فکر و فلسفہ سمیت اُن کی شاعری میں موضوعاتی تنوع اس حد تک ہے کہ قریباً قریباً ہر سطح کے قاری کو اپنی ذہنی استعداد کے مواقف موضوع مل ہی جاتا ہے۔ اُن کی شاعرانہ اور فکری گہرائی عام قاری کے لیے راہ کا روڑا نہیں بنتی اور یہی وہ وصفِ خاص ہے کہ جو روغانے کی شاعری کو مکانی اور زمانی حدود سے نکال کر آفاقیت سے ہم کنار کر دیتا ہے۔
اگر چہ روغانےؔ کی شاعری کا کامل تجزیہ اور احاطہ اس مختصر سی تحریر میں ممکن نہیں پھر بھی ہم اجمالاً یہ کہیں گے کہ اُن کی شاعری لفظ اور معنی دونوں لحاظ سے پوری ادبی دنیا میں ایک ایسا منفرد تخلیقی گلدستہ ہے جس میں رنگ رنگ لوگوں کے لیے رنگ رنگ پھول ہیں۔