سماجی و فکری تبدیلی درکار

گذشتہ ہفتے دنیا بھر میں عورتوں کا دن منایا گیا۔ عورتوں کی عظمت، جد و جہد اور قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے نت نئے منصوبے شروع کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس کے برعکس پاکستان میں اس موضوع پر بہت ہی منفی انداز میں لے دے ہو رہی ہے۔ دنیا جہاں کے مسائل اور موضوعات چھوڑ کر لکھاری، خطیب اور صحافی سارا زورِ بیان یہ ثابت کرنے پر صرف کر رہے ہیں کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ ہماری معاشرتی اور مذہبی اقدار سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ اس سے جنسی تلاذ نظر آتا ہے، یا پھر عورتوں کے اختیار کی بات ہورہی ہے۔
عورتوں کے حقوق اور فرائض کے حوالے سے جاری بحث و مباحثے نے اس موضوع پر ازسرِ نو غور و فکر اور مذہبی اقدار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نئی راہیں تلاش کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کیا ہے۔ افراط و تفریط کا شکار سماج عمومی طور پر انتہاپسندی کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ زمینی حقائق تسلیم نہیں کرتا۔ یہی حال ہمارا بھی ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمار ی پڑھی لکھی اور بالغ نظر خواتین جو عہدِ حاضر کی ٹیکنالوجی اور عصری علوم سے بھی ہم آہنگ ہیں،کو زبردست معاشرتی گھٹن کا سامنا ہے۔ وہ تعلیم یافتہ اور ہنرمند ہیں، لیکن انہیں روزگار کے معقول مواقع دستیاب ہیں، نہ باوقار زندگی گزارنے کے امکانات ہی ہیں۔
حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پکڑے گئے جو طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرتے تھے۔ اگرچہ ان سے استعفا لے لیا گیا اور میڈیا نے اس واقعے کی خوب تشہیر کی۔ اتفاق سے پروفیسر صاحب دھرلیے گئے، لیکن ہزاروں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جنہیں ڈر اور خوف کے باعث رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ دفاتر ہوں، بس سٹاپ ہو، بازار ہوں ہر جگہ عورتو ں کے تحفظ کے لیے ان کے اہلِ خانہ کو حفاظتی دیواریں چننا پڑتی ہیں۔ یہ رویہ ایک بیمار معاشرے اور اس کے پست ذہنیت شہریوں کی علامت ہے۔
دنیا ایسے مسائل سے دوچار رہی ہے، لیکن انہوں نے ان مسائل کا حل تلاش کیا۔ قانون کی پکڑ اس قدر سخت بنائی گئی کہ عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کرنا دور کی بات، اس کا تصور بھی بھیانک خواب بن گیا۔ ادارے بنائے گئے جو دفاتر میں کام کرنے والے لوگوں کی تربیت کرتے ہیں کہ وہ کس طرح ساتھی خواتین کا احترام کریں، اور ذہنی یا جسمانی ایذا پہنچانے سے گریز کریں۔ بصورتِ دیگر قانون حرکت میں آجاتاہے۔ دور دیہاتوں کی خواتین جنہوں نے زندگی بھر گھر سے باہر قدم نہیں رکھا ہوتا، مغربی معاشروں میں جا بستی ہیں، تو رفتہ رفتہ وہ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیتی ہیں۔ آخرکیوں؟ انہیں کوئی خوف اور پریشانی لاحق نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کی جاسکتی ہے ۔
کئی ایک ممالک میں پاکستان کے دیہی علاقوں سے نقلِ مکانی کرنے والے خاندانوں کی عورتیں اپنی محنت اور ذہانت کے طفیل پارلیمنٹ جیسے بڑے بڑے ایوان کا حصہ بنی ہیں۔
برسبیلِ تذکرہ، ازبکستان کے شہر سمر قند گذشتہ کچھ برسوں میں دوبار جانا ہوا۔ وہاں خواتین کاروبار اور تجارت میں مردوں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ رات گئے ایک ریسٹورنٹ میں مردوں کے ہجوم میں ایک خاتون کام کرتی دکھائی دی۔ منیجر کی اجازت سے اس خاتون سے کچھ گفتگو ہوئی۔ خاتون نے بتایا کہ وہ رات بارہ بجے چھٹی کرتی ہے، اور بارہ میل کی مسافت پر اس کا فلیٹ ہے۔ بس پکڑ کر گھر چلی جاتی ہے۔ معذرت سے پوچھا کہ تمہیں خوف نہیں آتا اتنی رات گئے سفر کرنے سے؟ مسکرائی اور کہنے لگی کہ خوف کس بات کا؟ مردوں میں کوئی میرے ساتھ بدتمیزی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
ریاست نے ایسے قوانین وضع کر رکھے ہیں کہ یہ عشروں تک سورج کی شکل نہ دیکھ پائیں، اگر کسی خاتون کو چھیڑ لیں تو۔ ترکی، اردن، ملائیشیا اور درجنوں اور مسلم معاشروں اور ممالک میں عورتوں کو پورے وقار اور عزت کے ساتھ معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنایاجاتاہے ۔
اسلامی اقدار کا بھی یہ ممالک پورا خیال رکھتے ہیں، اور عورتوں کو تعلیم، صحت اور روزمرہ کے کاموں میں ان کی صلاحیتوں اور استعداد کے مطابق حصہ ڈالنے کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔
اکثرعورت کو ایک علاحدہ ذات کے طور پر دیکھنے کے بجائے اسے مرد کے دست نگر ایک شے یا جسم تصور کیا جاتاہے۔ عورت کے تشخص اور سوچ کو تسلیم نہیں کیا جاتا، بلکہ اسے مردوں کی فکر اور شناخت کے ایک جزو کے طور پر برتا جاتا ہے۔ اس رویہ نے عورتوں کی ایک قابل ذکر تعداد میں ٹکراؤ، مقابلہ اور مسابقت کا ماحول پیدا کیا ہے۔ عورتوں کے تحفظ، ملازمت میں ترجیح دینے اور انہیں جائیداد میں حصہ دینے کے حوالے سے پاکستان میں حالیہ برسوں میں مؤثر قانون سازی ہوئی، لیکن ان قوانین پر عمل درآمد ان کی رو ح کے مطابق ابھی تک ہونا باقی ہے۔
خاص طور پر چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہاتوں میں ان قوانین کی پروا کی جاتی ہے اور نہ خواتین میں یہ حوصلہ اور استعداد ہی ہے کہ وہ عدالتوں کے ذریعے اپنے جائز حقوق حاصل کرسکیں۔
قوانین سازی سے زیادہ عورتوں کی بہتری، معاشرے کا فعال حصہ بنانے اور معاشی سرگرمیوں میں انہیں شراکت داربنانے کے لیے سماجی رویوں اور فکر میں جوہری تبدیلی درکار ہے۔
علامہ جاوید غامدی نے پردے کے حوالے سے بہت ساری اشکال کا خوبصورتی سے ازالہ کیا۔ دیگر علما کو بھی عصرحاضر کے مسائل اور ضروریات کے مطابق اجتہاد کرنا چاہیے، اور عوام الناس کو بتانا چاہیے کہ وہ عورتوں کے حوالے سے اپنی موجودہ روش کو کیسے بہتر بناسکتے ہیں۔ انہیں معاشرے، معیشت اور سیاست میں کس طرح شراکت دار بنایاجاسکتاہے؟ ترکی اور ملائیشیا کے تجربات بھی ہمارے سامنے موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔
قارئین، البتہ ایک بات طے ہے کہ معاصر پاکستان میں خواتین کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک اسلامی ہے اور نہ مہذب۔ اسے بدلنا ہوگا۔ عورتوں کو ایک جیتاجاگتا انسان تصور کرناہوگا جو اپنا ’’جدا گانہ تشخص‘‘ رکھتی ہیں۔ الگ وجود، شناخت اور تعارف منوانا چاہتی ہیں۔ سماج کی علمی، ادبی، سائنسی اور کاروباری ترقی میں حصہ بقدرِ جثہ ڈالنا چاہتی ہیں۔ یہ ان کا حق ہے نہ کہ کوئی رعایت یا عنایت۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔