جون کے انتہائی گرم موسم اور ظالمانہ لوڈشیڈنگ کے باوجود روزہ بخیر و عافیت گزرنے پر خوشی کا سماں تھا۔ لوگ فجر کی نماز سے فارغ ہوکر سورج کی کرنوں کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے تاکہ عید کی باضابطہ ابتدا کرکے اس کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوا جاسکے۔ بچیاں اپنے رنگ بہ رنگ کپڑے اور جوتے پہننے کے لیے صبح سویرے اُٹھ کر عید کے پُرمسرت لمحوں کی آمد کے لیے بے قرار تھے۔ خواتین عید کے روایتی کھانوں کی تیاریوں میں پورے ذوق و شوق سے مصروف تھیں کہ اچانک ایک افسوس ناک خبر نے ملاکنڈ ایجنسی کے گاؤں ڈھیری جولگرام اور اس کے مضافات کی فضاؤں کو سوگوار کر دیا۔ افسوس ناک خبر یہ تھی کہ ’’ڈاکٹر زبیر وفات پاگئے ہیں۔‘‘
سڑے چی مڑ شی کور پرے وران شی
پہ بعضے خلکو باندے وران شی وطنونہ
علاقے کے لوگوں پر ایک سکتہ سا طاری ہوگیا۔ اکثر لوگ اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے اور بے اختیار رو نے لگے۔ سب پریشان تھے۔ بعض سوچ رہے تھے کہ گلی کوچوں میں آسانی سے ملنے والا ڈاکٹر ہمیں پھرکہاں نصیب ہوگا؟ غریب چھپکے چھپکے آنسو بہاتے تھے کہ زبیر تو ہمارے بچوں کا علاج مفت میں کرتا تھا، انھوں نے ہم سے کبھی فیس نہیں لی تھی جب کہ دوسرے ڈاکٹر پہلے فیس لیتے ہیں اور اس کے بعد علاج کرتے ہیں۔ علاقے کے مردوں کے چہروں پر غم کے بادل چھائے ہوئے تھے، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں وہ بلاتکلف جاتے اور اپنی بیماریوں کا حال سناتے۔ خواتین دھاڑیں مار کر رو رہی تھیں کہ ڈاکٹر زبیر تو کسی خاتون کے لئے بھائی تھے تو کسی کے لئے بیٹے اور چھوٹے بچوں اور بچیوں کے مشفق بھائی کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ تو غریب مریضوں کا نہ صرف مفت معائنہ کرتے بلکہ اکثر دوائیں بھی اپنی طرف سے دیتے۔ ایسے انسان کی اچانک وفات نے سب لوگوں کو جیسے سکتے میں مبتلا کردیا تھا۔
ڈاکٹر زبیر کون تھے اور کیوں لوگوں کو اتنا عزیزتھے؟ اس کے لئے ہمیں ماضی میں جاکر ذرا پختون تاریخ کے اوراق پلٹنا پڑیں گے۔
انیسوی صدی میں جندول (دیر) کاحکمران قبیلہ مست خیل نوابِ دیر اور انگریزوں کے ساتھ برسرِپیکار تھا۔ اس مزاحمت اور جنگ و جدل کے دوران قبیلے کا شیرازہ بکھر گیا اور نتیجتاً وہ ہجرت پر مجبور ہوگیا۔ اس قبیلے کا ایک خاندان ملاکنڈ ایجنسی کے گاؤں جولگرام میں ٓاکر آباد ہوگیا۔ اس گھرانے کے ایک فرد عزت گل نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور روزگار کے سلسلہ میں شعبہ تعلیم سے منسلک ہوگئے۔ ان کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ان کے بڑے بیٹے مشتاق احمد اپنے والد کے پیشہ سے وابستہ ہوگئے اور اپنی قابلیت سے محکمہ تعلیم میں ایک اعلیٰ عہدے تک پہنچ گئے۔ وہ ایک تخلیقی ذہن کے مالک انسان ہیں۔ جہاں ان کی تعیناتی ہوتی ہے، وہاں اپنی جدت پسندی اور تخیلاتی بصیرت کی بنا پر مثبت تبدیلیوں میں جت جاتے ہیں۔ چوں کہ ہمارا معاشرہ بحیثیت مجموعی کرپٹ اور دقیانوسی مزاج کا حامل ہے، اس لئے مشتاق کی مثبت تبدیلیوں کو محکمہ کے بعض حکام کے لئے ہضم کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے، اس لئے بہ طور سزا ان کی وہاں سے کسی دوسری جگہ تبادلہ کیا جاتا ہے۔
عزت گل کے دوسرے بیٹے زبیر احمد نے طب کی ڈگری حاصل کرلی اور ڈاکٹر کی حیثیت سے ان کی تعیناتی ایک میڈیکل آفیسر کے طور پر ہوگئی۔ طب کے شعبہ میں ایسے ڈاکٹرز بہت کم ملتے ہیں جو دولت کے لالچ اور دنیاوی نمود و نمائش سے ماورا ہوں۔ ایسے ہی ڈاکٹروں میں ڈاکٹر زبیر کا نام سرفہرست تھا۔ ان کا فقیرانہ مزاج اور جاہ و جلال سے بے نیاز طبیعت ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے ٓاغاز سے ان کی زندگی کے ٓاخری لمحوں تک برقرار رہی۔ ہسپتال ہو یا گھر، کلینک ہو یا گلی محلہ، ہر جگہ انسانیت کی پاسداری کرتے ہوئے وہ بے لوث طریقے سے دکھی انسانیت کی خدمت کرتے تھے۔ ہر گلی ان کا کلینک اور ہر بازار ان کا ہسپتال بن چکا تھا۔ کسی نے انھیں گلی میں روکا اور کسی نے انھیں بازار میں روک کر اپنی بیماری کا دکھڑا بیان کیا، تو انھوں نے اسی وقت معائنہ کرکے علاج تجویز کیا۔ کبھی کسی کو اپنی بلند سماجی حیثیت کا تاثر نہیں دیا۔ علاقہ کی پسماندگی اور غربت کا خیال کرتے ہوئے کبھی کسی سے فیس طلب نہیں کی۔ وہ علاقے کے مسیحا اور ایک انتہائی قابل احترام شخصیت بن چکے تھے۔ یہی وجہ تھی جب ان کی موت کی خبر علاقے میں پھیل گئی، تو سب لوگ عید کی سر گرمیاں چھوڑ ان کی تجہیز و تکفین کی آخری رسومات میں شریک ہوگئے ۔ ان کاجنازہ کیا تھا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ ہجوم کی وجہ سے تمام راستے بند تھے، اس لئے زیادہ تر لوگ جنازگاہ نہیں پہنچ سکے اور راستوں میں ہی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے لگے ۔
کوئی لکھاری جب کتاب لکھتا ہے، کالم رقم کرتا ہے یا اپنے قلم کے ذریعے حالات کا جائزہ لیتا ہے، تو اسے کبھی کبھار مبالغہ کرنا پڑتا ہے لیکن جب معاشرہ اور اس میں رہنے والے عام لوگ کسی کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں اور اس کے بارے میں عملی کتاب تخلیق کرتے ہیں، تو اس کے ہر لفظ اور ہر سطر سے سچ ٹپکتا ہے۔ اس کتاب کا ہر باب لازوال اور ہر عنوان حقیقت سے لبریز ہوتا ہے۔ اس کا آغاز اور اختتام دونوں میں انسانیت کا درس پنہاں ہوتا ہے اور اس کتاب کی تخلیق سے دوسروں میں انسانیت کی خدمت کے لئے تحریک پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسی ہی ایک کتاب مذکورہ علاقے کے لوگوں نے ڈاکٹر زبیر پر اپنے دل کے نہاں خانوں میں لکھی تھی۔ اس کی رونمائی ڈاکٹر صاحب کی نماز جنازہ کے دوران ہوئی تھی اور اس کا تذکرہ ان کی موت پر تین دن تک سوگ منانے کے دوران ہوتا رہا۔ اس کتاب میں جو کچھ درج تھا، وہ لوگ تعزیت کے دوران رو رو کر بیان کرتے اور ان کے لئے دعاؤں میں اسے دہراتے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کچھ حیثیت دے رکھی ہے یا انھیں کوئی نمایاں مقام دے دیا ہے، وہ اس کا فائدہ اپنی ذات اور خاندان کے لئے اٹھاتے ہیں لیکن معاشرے کے ستم رسیدہ لوگوں کو اس فائدے سے محروم رکھتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں کتنے ڈاکٹر ہیں، ان میں بہت سے ایسے ہیں جن کا اپنے شعبہ میں ایک نام بن چکا ہے لیکن وہ اپنی قابلیت پر فخر اور غرور کرتے ہیں اور اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور بعض تو پیسہ کمانے کی ہوس میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ اس دنیاوی مقصد کے لئے اپنے علاقہ اور گھر تک کو خیر باد کہہ کر بڑے شہروں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر زبیر جیسے انسان جب دنیا سے پردہ کر جاتے ہیں، تو وہ اپنی خدمت خلق کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ لوگ ان کو مرنے کے بعد بھی احترام دیتے ہیں اور دوسرے ڈاکٹر ان پر رشک کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر زبیر نے اپنے عمل سے دوسرے ڈاکٹروں کے لئے ایک راہِ عمل متعین کردی ہے اور ان کو جینے کا صحیح راستا دکھا دیا ہے۔
ایک دوست مجھے بتا رہے تھے کہ ڈاکٹر زبیر ایک بڑے ڈاکٹر ہوتے ہوئے غریب تھے، ان کے پاس پیسے نہیں تھے، میں نے جواب دیا کہ وہ غریب ہوتے ہوئے امیر لوگوں سے زیادہ امیر تھے۔ وہ لوگوں کے دلوں میں رہتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ قبر میں جو اثاثہ لے کر گئے ہیں، اگر ان کے پاس اربوں روپے ہوتے، تو بھی اس کے مقابلہ میں کم پڑتے۔ مالدار لوگ دنیا میں اربوں روپے کماکر اس دنیا سے خالی ہاتھ چلے جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر زبیر کچھ نہ کما کر بھی اربوں سے زیادہ اثاثہ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
اگر مرنے کے بعد بھی زندہ رہنا چاہتے ہو، تو ڈاکٹر زبیر کا فلسفہ اپناؤ۔ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر زبیر کو زندگی میں بھی عزت اور وقار کی دولت دے رکھی تھی اور مرنے کے بعد بھی وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی زندگی بھی عزت سے بھرپور تھی اور ان کی موت بھی قابل رشک تھی۔ اللہ تعالیٰ ایسی زندگی اور ایسی موت ہر کسی کو نہیں دیتا۔ اس کے لئے انسان کو انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوکر زندگی گزارنا پڑتی ہے۔