عہدِ سلاطین میں ہمیں جاسوسی اداروں کا اُس عہد کی تاریخوں سے پتا چلتا ہے۔ کیوں کہ اکثر حکمران خود سازش کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے۔ اس لیے وہ بڑے حساس تھے کہ ان کے خلاف بھی سازش نہ ہوجائے۔
غیاث الدین بلبن، حکمران کو زہر دے کر حکومت پر قابض ہوا۔ لہٰذا اپنے خلاف سازشوں کو روکنے کے لیے سلطنت کے ہر صوبے میں کئی واقعے نویس مقرر کیے تھے، جو اسے صوبے میں ہونے والے ہر واقعے کی اطلاع دیتے تھے۔ ایک دفعہ بدایوں کے واقعہ نویس نے گورنر کے خلاف خبر کو چُھپایا، مگر تلقین کو دوسرے ذرائع سے یہ خبر مل گئی جس پر اس نے واقعے نویس کو پھانسی دے دی۔
مخبری کا سب سے مؤثر نظام علاؤ الدین خلجی نے قائم کیا تھا۔ چوں کہ وہ بھی ایک سازش کے ذریعے اقتدار میں آیا تھا، اس لیے اس کے خلاف پے درپے کئی سازشیں ہوئیں، تاکہ اسے اقتدار سے الگ کر دیا جائے۔ اس پر علاؤ الدین نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ان سازشوں کی وجوہات کو معلوم کرے۔ اس مقصد کے لیے اس نے مخبروں کا ایک جال پھیلا دیا۔ ان کے ذریعے اسے جو اطلاعات ملیں، وہ یہ تھیں کہ امرا جب آپس میں ملتے ہیں، دعوتیں ہوتی ہیں، شرابیں پی جاتی ہیں، تو اس حال میں سازشیں تیار ہوتی ہیں۔ اس کے مخبر اسے ہر مجلس میں ہونے والی گفتگو اور بات چیت سے آگاہ کرتے تھے۔
ضیاء الدین برنی جو تاریخِ فیروز شاہی کا مصنف ہے، لکھتا ہے کہ صبح ہوتے ہوتے بادشاہ کو ہر واقعے کی خبر ہوجاتی تھی۔ اس پر امرا میں اس قدر خوف و ہراس ہوا کہ وہ آپس میں بات چیت سے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں ان کا ساتھی ہی مخبر نہ ہو اور پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ اشاروں اور کنایوں میں گفتگو کرنے لگے۔ مخبری کے اس نظام نے علاؤ الدین خلجی کے خلاف سازشوں کا خاتمہ کردیا۔
سلطان محمد تغلق کے زمانے میں مشہور سیاح ابنِ بطوطہ ہندوستان آیا۔ اس نے لکھا ہے کہ پوری سلطنت میں خبر رسانی کا بہترین نظام تھا۔ شاہراہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر خبر رسانی کے مراکز ہوا کرتے تھے۔ ایک مرکز سے دوسرے مرکز پر خبر لانے والے دوڑنے میں مہارت رکھتے تھے۔ انہیں بچپن ہی سے بھاری جوتے پہنا کر دوڑایا جاتا تھا۔ لہٰذا یہ دوڑتے ہوئے آتے اور سربمہر خطوط کو اگلے مرکز کے حوالے کردیتے تھے۔ اس کو دھاوا کہا جاتا تھا۔ اس نظام کی وجہ سے بادشاہ کو ملک کے کونے کونے کی خبریں مل جاتی تھیں۔
(’’تاریخ کی خوشبو‘‘ از ’’ڈاکٹر مبارک علی‘‘، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، پہلی اشاعت، 2019ء، صفحہ نمبر 101 اور 102 سے انتخاب)
