عام آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اور اس کے بچوں کو مفت صحت کی سہولیات سمیت مفت تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر ہوں اور اچھا روزگار ملے۔ پاکستان کے 70 سالوں میں عام آدمی کو کوئی ایسی قیادت نہیں ملی جو ان کی خواہشات کی تکمیل کے لیے اقدامات کو یقینی بنائے۔ عام پاکستانی ایک ایسی قیادت کی تلاش میں تھا اس کی زندگی کو سہل بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ چندسال قبل ایک نئی سیاسی قیادت اُبھر کر سامنے آنے کی امید پیدا ہوئی، تو ایک عام غریب پاکستانی،پڑھے لکھے نوجوان اور خاص کر وہ لوگ جو سیاست کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، اور سیاست کو محض ایک گندا کھیل سمجھتے تھے، وہ بھی سیاست کے میدان میں کود پڑے۔ بھولے بھالے لوگ نئی سیاسی قیادت کو ایوانِ اقتدار تک پہنچانے کے لیے جلسے جلسوں میں اپنے خرچے پر شرکت کرنے لگے۔ بسوں کی چھتوں پر چڑھ کر جلسوں اور دھرنوں میں گئے۔ وہ تو خود ایسی بات پر آمادہ تھے اور دوسروں کو بھی اس امرپر قائل کر رہے تھے کہ اگر اس ملک کی تقدیر بدلنی ہے، اور اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے، توموجودہ سیاسی قیادت کو مسترد کرکے نئی قیادت کو آگے لانے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ پاکستان کے عام آدمی اور تحریک انصاف کے ورکرز نے پارٹی قیادت کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے جدوجہد شروع کی۔ وقت کا دھارا دیکھ کر لوگ جوق در جوق پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے۔ ان شمولیتی پروگراموں میں روایتی مفاد پرست،اقتدار کے بھوکے اور چڑھتے سورج کے پجاری سیاست دان بھی تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے۔ پارٹی کے مخلص کارکنوں نے جب ان کی شمولیت پر تحفظات کا اظہار کیا، تونئی سیاسی قیادت نے مخلص ورکروں اور حمایتیوں کو یقین دلایا کہ پارٹی ان افراد کوٹکٹ نہیں دے گی بلکہ قابلِ بھروسا اور پڑھے لکھے لوگوں کو پارٹی ٹکٹ جاری کیے جائیں گے، مگر مخلص کارکنوں اور حمایتیوں کو اُس وقت دھچکا لگا جب پارٹی ٹکٹ ابن الوقت اور چڑھتے سورج کے پجاریوں میں تقسیم کیے گئے۔ ورکروں کے اعتراض پر پارٹی قیادت نے انہیں تسلی دی کہ اقتدار کو حاصل کرنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ جب اقتدار مل جائے، تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پرانی سیاسی قیادت سے تنگ عام آدمی اور پارٹی ورکروں کی محنت کے بعد جب الیکشن کے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے، تو انہیں انتہائی خوشی ہوئی کہ وہ نئی قیادت کو ایوانِ اقتدار تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ کامیابی کے اعلان کے ساتھ بھولے عوام اور پارٹی کے نظریاتی کارکن سڑکوں پر نکل آئے۔ شکرانے کے نوافل پڑھے اور جوش و خروش سے جیت کا جشن منایا۔ نئی قیادت نے کامیابی کے بعد اپنے مخلص ورکروں کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ نئی قیادت نے بائیس سال سے پارٹی کو زندہ رکھنے والے دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان لوگوں کو سامنے لایا،جنہیں ذاتی مفادات کی خاطر دن میں کئی بار پارٹیاں تبدیل کرنے پر شرم نہیں آتی، جن کا ایمان اقتدار اور کرسی پر ہوتا ہے، اور اقتدار کی خاطرکسی کو بھی پوجنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
قارئین، ملک کے دوسرے اضلاع کی طرح ضلع ملاکنڈ میں بھی پارٹی نے اپنے مخلص کارکن جنہوں نے بائیس سال پارٹی کو دیے اور اس کو زندہ رکھنے کے ساتھ مضبوط اور فعال بنانے والوں کے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ وہ کارکن جو پارٹی کے ساتھ پہاڑ کی طرح مضبوط کھڑے رہے اور کبھی پیچھے ہٹنے کا نام نہ لیا، جن کے بارے میں حبیب جالب نے بہت پہلے کہا تھا کہ
ہوتا اگر پہاڑ، تو لاتا نہ تابِ غم
جو رنج اس نگر میں یہ دل ہنس کے سہ گیا
قومی اور صوبائی ٹکٹوں کے بعد ملاکنڈ سے سینٹ کے ٹکٹ کے اجرا میں بھی ایسا طرزِ عمل اختیار کیا گیا۔ پارٹی کارکنوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹکٹ ایک ایسے کالا دھن رکھنے والے اور فصلی بٹیرے کو دیا گیا جو قومی وطن پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کی امیدوار ی کے مزے لینے کے بعد تحریکِ انصاف میں شامل ہوگیا تھا۔ پارٹی کی صوبائی قیادت کو یقین تھا کہ وہ جس کو ٹکٹ دے رہی ہے، اس کے پاس پیسا ہے اور سینٹ الیکشن میں گھوڑے خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہو، الیکشن میں گھوڑے خرید نے پر جو رقم وہ خرچ کرے گا، تو کیا وہ اس سے کئی گنا زیادہ وصول نہیں کرے گا؟ ایسے لوگوں کو کامیابی کے بعد کہتے ہوئے سنا ہے کہ پارٹی کا اُس پر کوئی احسان نہیں، کیوں کہ سینٹ ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے اس نے پارٹی فنڈز کے نام پر پارٹی کوکروڑوں روپے دیے ہیں، اور سینٹ کے الیکشن میں کامیابی کے لیے پارٹی کے صوبائی ارکان کو بھی کروڑوں ادا کیے ہیں۔
یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ کروڑوں خرچ کرنے والے کے دل میں عوام کی خدمت کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ وہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے کرتا ہے۔
تحریکِ انصاف ملاکنڈ کے کارکنوں کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب پارٹی کے موجودہ سینٹر کے بھائی نے مسلم لیگ نون سے مستعفی ہوکر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔شامل ہوتے ہی اسے ملاکنڈ پیڈو کا چیئرمین بنا دیا گیا، حالاں کہ اس سے زیادہ سینئر، محنتی اور نظریاتی کارکنوں کو حق بنتاتھا۔
تحریکِ انصاف ملاکنڈ کے کارکنوں کو ایک اور جھٹکا اس وقت لگا، جب پارٹی نے مخلص کارکنوں کو ایک بار پھر نظر انداز کرتے ہوئے ضلعی زکوٰۃ کمیٹی چیئرمین ایک ایسے فرد کو منتخب کیا گیا جو ایک بار پہلے ذاتی مفادات کی خاطر تحریک انصاف میں شامل ہوا تھا، مفادات پورا نہ ہونے پر عین الیکشن کے دوران میں پارٹی چھوڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوا اور پانچ سال پیپلز پارٹی سے مفادات کے حصول کے بعد جب اسے یقین ہوگیا کہ اب کی بار پیپلز پارٹی کی کامیابی ممکن نہیں، تو پارٹی چھوڑ کر ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوا۔ پارٹی قیادت میں اگر اتنی اہلیت نہیں کہ وہ اپنے مخلص اور دیرینہ کارکنوں کو انصاف دے سکے ،تو وہ اس ملک کے غریب عوام کو خاک انصاف دیں گے؟ القصہ، پارٹی نے اپنے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر کے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار دی ہے۔ ایسے ہی کارکنوں کے بارے میں میر تقی میرؔ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔