شریف ہوکر ذلیل کام اختیار کرنے اور بدقسمت ہنر مند یا صاحبِ کمال ہو کر ادنیٰ کام کرنے والے کے لیے یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔ جب کسی صاحبِ علم کی قسمت بگڑ جائے، اور وہ کسی ادنیٰ پیشے کو اپنا ذریعۂ معاش بنانے پر مجبور ہوجائے، تو حیرت سے کہتے ہیں۔
اس کہاوت سے متعلق یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے: ’’ایک شخص جہانگیر بادشاہ کے زمانے میں، تعلیم حاصل کرنے کے بعد تلاشِ معاش میں ایک مدت تک اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ جب اسے کہیں ملازمت نہ ملی، تو اس نے یہ سوچ کر کہ ’’روٹی تو کھائے کسی طور مچھندر‘‘ گھر گھر جاکر تیل بیچنے کا ارادہ کیا۔ چند پیسوں کا کسی طرح انتظام کرکے اس نے تھوڑا سا تیل خریدا۔ ہانڈی میں تیل اور ترازو لے کر بیچنے کے لیے گھر سے نکل پڑا۔ آواز لگاتے لگاتے اس کا گزر نور جہاں کے محل سے ہوا۔ نور جہاں کو تیل کی ضرورت تھی۔ اس نے نوجوان تیل بیچنے والے کو اپنے پاس بلایا۔ تیل کا بھاؤ پوچھنے پر نوجوان نے فارسی زبان میں جواب دیا۔ نورجہاں اس کی فارسی دانی پر دنگ رہ گئی اور اس سے کُل حالات دریافت کیے۔ اس کے بعد نورجہاں نے کہا، پڑھیں فارسی بیچیں تیل، یہ دیکھو قدرت کے کھیل۔ ‘‘
واضح ہو کہ اُس وقت سرکاری اور شرفا کی زبان فارسی تھی۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دار النور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 81 سے انتخاب)