مولانا، جارج واشنگٹن بنیں گے یا کولمبس؟

انسان، ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کو اپنا غلام بنائے ۔
عزیزانِ من، اس تاریخی جملے سے آغاز کرکے ’’جارج واشنگٹن‘‘ نے امریکہ کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ یوں دنیا کی پہلی باقاعدہ ’’سیکولر ڈیمو کریسی‘‘ امریکی سرزمین پر قائم ہوئی۔ جمہوریت کے اس علم بردار ملک کی دریافت کیسی ہوئی؟ یہ بھی کافی دلچسپ داستان ہے جس کی شروعات سرزمینِ ہند سے ہوتی ہے اور جس کو زمانے کے اہلِ ثروت ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہتے تھے۔ اہلِ یورپ پر جب اسلام کی بدولت تہذیب و تمدن کا سورج طلوع ہوا، تو وہاں کے اہلِ ثروت اور تجارت پیشہ افراد ایشیائی ممالک خصوصاً ہندوستان کے ساتھ اپنی تجارت بڑھانا چاہتے تھے، لیکن وہاں تک پہنچنے کا سمندری راستہ انہیں معلوم نہیں تھا۔ خشکی کا راستہ انتہائی مشکلات سے بھرا ہوا تھا۔ اس سمندری راستے کو دریافت کرنے کے لیے بہت سی مہمات چلیں۔ جن میں بہت سی تو ناکام ہوئیں، لیکن دو آدمی تھے جن کی مہمات فی الجملہ کامیاب ہوئیں۔ ایک ’’واسکو ڈی گاما‘‘ جس نے جنوبی افریقہ کی جانب سے ہندوستان کا راستہ تلاش کیا، اور وہ افریقہ کے جنوبی سرے ’’ساؤتھ کیپ‘‘ سے ہندوستان پہنچا۔
دوسرا آدمی ’’کولمبس‘‘ تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کولمبس بھی اسی لیے چلا تھا کہ ہندوستان کا راستہ دریافت کرے۔ واسکو ڈی گاما تو ہندوستان پہنچ گیا، لیکن کولمبس جس کشتی کا ناخدا تھا، خدا نے اسے مغرب کی جانب چلتی لہروں کے حوالہ کرکے امریکی جزائر پہنچا دیا، جنہیں آج کل ’’ویسٹ انڈیز‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان جزائر کو دیکھ کر کولمبس یہ سمجھا کہ میں ہندوستان پہنچ گیا ہوں۔ حالاں کہ وہ ہندوستان نہیں تھا۔ اس لیے اُن جزیروں کا نام ویسٹ انڈیز پڑگیا، جسے اردو میں جزائر غرب الہند کہتے ہیں۔ پھر اس کے بعد کولمبس اور آگے بڑھا اور یوں براعظم امریکہ دریافت ہوا۔ امریکہ کے دریافت ہوتے ہی انگریزوں اور یورپی اقوام کو یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ تو آبادکاری اور تجارت کا بہت بڑا میدان مل گیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے وہاں سے اپنی تجارتی مہمات بھیجنی شروع کر دیں۔ اگر چہ ڈچ قوموں اور فرانس اور پرتگیزیوں نے وہاں اپنی کالونیاں بنا لی تھیں، لیکن اس عمل میں زیادہ حصہ انگریزوں کا رہا، جس کے نتیجے میں امریکہ کے زیادہ حصوں پر برطانیہ عظمیٰ نے اپنی حکومت قائم کی اور وہاں اپنی کالونیاں بنائیں۔ امریکہ کی ان بڑی بڑی ریاستوں پر برطانیہ عظمیٰ کا تسلط اور عرصہ دراز تک لندن سے ہی ان پر حکومت کی جاتی رہی۔ برطانیہ، امریکہ میں تجارت بھی کرتا تھا اور وہاں کے لوگوں سے ٹیکس بھی وصول کرتا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جمہوری فکر بھی امریکی شہریوں کے ذہنوں میں پروان چڑھتی رہی، اور جب وہ وقت آیا کہ برطانیہ نے ان کے اوپر ٹیکس میں اضافہ کا فرمان جاری کیا، تو اب امریکہ کے لوگوں نے علمِ بغاوت بلند کیا۔ اور صاف کہہ دیا کہ ہم ٹیکس نہیں دیں گے۔ یہ اعلان بھی کیا کہ ہم برطانیہ سے الگ اپنی خودمختار ریاستیں قائم کریں گے۔ اب ہم مزید برطانیہ کے زیرِ نگیں نہیں رہیں گے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے برطانیہ سے جنگ لڑی، اور اس جنگ میں جارج واشنگٹن کامیاب ہوا، جس نے امریکہ کی الگ حیثیت کا اعلان کردیا۔ اس اعلانِ آزادی کو انگریزی میں ’’ڈکلیئریشن آف انڈیپنڈینس‘‘ کہا جاتا ہے، جس میں انہوں نے تمام انسانوں کے جمہوری حقوق کا اعلان کیا۔ اس اعلان کا آغاز جارج واشنگٹن نے اس جملے کے ساتھ کیا تھا کہ ’’انسان، ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے، لہٰذا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ان کو اپنا غلام بنائے۔‘‘
یہ وہ دور تھا جس میں انسانیت اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی شہنشاہیت سے جمہوریت کی دنیا میں اپنا قدم رکھ رہی تھی۔ جمہوریت کا یہ سورج مغرب سے طلوع ہوکر پوری دنیا پر اپنی روشنی بکھیر رہا تھا، جس کی کرنیں جب فرانس پر پڑیں، تو کئی سو سالہ شہنشاہیت بھی اس کے سامنے کھڑی نہ رہ سکی اور جل کر خاکستر ہوگئی۔ نتیجتاً تختِ فرانس کے 16ویں تاج دار کا سرِ عام قلم کردیا گیا۔ یوں شہنشاہیت کا یہ بت کدہ اہلِ فرانس نے عظیم انقلاب کی بدولت مسمار کردیا۔ جس کو دیکھتے ہی پوری دنیا نے ڈیموکریسی یعنی جمہوریت کے معبد بنانے شروع کردیے۔ جہاں آج پوری آب و تاب کے ساتھ ’’ڈیموکریسی، ڈیموکریسی‘‘ کا ورد جاری ہے۔ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ ورد کب تک جاری رہے گی، کیوں کہ انسانیت اس سے پہلے شہنشاہیت، نسلی اشرافیہ، یہودی و عیسائی تھیوکریسیاں، کمیونزم اور فاشزم وغیرہ جیسے الفاظ کا ورد کرکے چلے اور مراقبے کاٹ چکی ہے۔ یہ ڈیموکریسی بھی اتنی لچک دار چیز ہے کہ ہر معاشرے میں ایڈجسٹ ہوجاتی ہے۔ اگر آپ امریکہ اور انڈیا جیسے ممالک کو دیکھیں، تو وہاں اس کو ’’سیکولر ڈیموکریسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور اس کے برخلاف پاکستان اور ایران جیسے ممالک میں یہ ’’اسلامک ڈیموکریسی‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یعنی پہلا لفظ معاشرے کے لحاظ سے تبدیل ہو سکتا ہے، لیکن ’’کریسی‘‘ ڈیموکریسی ہی رہے گی۔
عزیزانِ من، ہمارے ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ تو ہے، لیکن افسوس اس میں جمہوریت آمریت ہی کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ قائد اعظم اور نواب زادہ لیاقت علی خان کے دور کے بعد جتنی بھی جمہوریت کی گاڑیاں چلی ہیں، وہ سب آمریت ہی کی بنائی ہوئی پٹڑیوں پر چلی ہیں، جس کی وضاحت کرنا میں ضروری نہیں سمجھتا۔ کیوں کہ ہر ذی شعور پاکستانی یہ جانتا ہے ۔ لیکن آج میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت اس میں ملک اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ اب اس کی گاڑی اپنی بنائی ہوئی پٹڑی پر چل سکتی ہے۔ کیوں کہ آج اپوزیشن کی ساری جماعتیں اس کٹھ پتلی حکومت کے خلاف میدان میں صف آرا ہو گئی ہیں اور کسی بھی قسم کی سزا اور جیلوں کی پروا نہیں کر رہیں۔ آج اپوزیشن کی ساری جماعتیں اس حکومتی ٹولے کی حق حکمرانی تسلیم نہیں کررہیں اور اسی کا نام تو جمہوریت ہے، یہی تو جمہوریت کا حسن ہے کہ جب بھی نااہل لوگ ’’سلیکٹ‘‘ کر دیے جائیں، جو اس ملک کے اداروں کو تباہی کی طرف لے جاتے ہوں، تو اپوزیشن جماعتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ پُرامن طریقے سے سڑکوں پر نکل آئیں، اور بغیر کسی کا نقصان کیے اس وقت تک احتجاج کریں، جب تک اس نااہل حکمران کی حکومت کو ختم نہیں کردیتے۔ کیوں کہ اس ملک کے سارے ادارے ریاست کے ادارے ہیں۔ اس کے اداروں کو تباہ کرنا پوری ریاست کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ آج صرف ایک جماعت کے علاوہ پوری اپوزیشن متحد ہے۔ اور یہ وہ جماعت ہے جس نے ہمیشہ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کی آڑ میں حضراتِ صحابہ کے کردار کو تو نشانہ بنایا، لیکن آج جب ان کی اپنی مستعمل اصطلاح ’’ملوکیت‘‘ کے خلاف ساری اپوزیشن جماعتیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی ہیں، تو یہ ان سے اظہارِ برأت کر رہی ہے۔
کیا یہ کھلا تضاد نہیں!
تاریخ شاہد ہے کہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کے بعد انہوں نے ہمیشہ جمہوری قوتوں ہی کے خلاف دھرنے دیے ہیں۔ آج جب جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت آیا ہے، تو یہ جماعت حسبِ سابق کٹھ پتلی بن رہی ہے۔ بہرحال میرے نزدیک اس وقت انہیں اپوزیشن کے ساتھ ہونا چاہیے اور ایک گذارش یہ بھی ہے کہ ازراہِ کرم اس ’’لانگ مارچ‘‘ کو صرف مولانا فضل الرحمان کی پارٹی تک محدود نہ سمجھیں، یہ تو پوری اپوزیشن کی لانگ مارچ ہے۔ بظاہر تو اس مارچ کا علم مولانا ہی کی جماعت نے بلند کیا ہے، لیکن اس کے پیچھے پوری اپوزیشن کھڑی ہے۔ اور مولانا کی جماعت تو وہ جماعت ہے، جس کے اکابرین نے دربارِ اکبری میں کھڑے ہو کر آئینِ اکبری کو پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔
مولانا کی جماعت تو ولی اللہی تحریک کی لڑی ہے۔ مولانا کی جماعت تو وہ جماعت ہے کہ جس کے اکابرین کبھی انگریزوں کے سامنے نہیں جھکے، جیلوں میں گئے، لیکن اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ مولانا کی جماعت کے اکابرین کے کارناموں پر تو کئی جلدوں میں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ بہرحال مولانا کے بعض سیاسی فیصلوں سے اختلاف ہوسکتا ہے اور مجھے بھی ہے، لیکن اس مارچ کا فیصلہ بالکل بروقت اور صحیح ہے۔ کیوں کہ آج یہ ہر پاکستانی کی آواز ہے۔ لوگ اس حکومت سے تنگ آچکے ہیں۔ اس ’’لانگ مارچ‘‘ سے کوئی بھی محب وطن پاکستانی اختلاف نہیں کرسکتا۔ بہ شرط یہ کہ یہ مارچ پُرامن ہو۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ اپوزیشن کا یہ مارچ پُرامن ہی ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ پھر حکومت اتنی خوفز دہ کیوں ہے؟ کیا مولانا صاحب جارج واشنگٹن کی طرح حکومت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں؟ یا مولانا کوئی ’’انقلابِ فرانس‘‘ کی طرح انقلاب برپا کرکے آمریت کا سر قلم کر رہے ہیں ؟ اور کیا ایسا تو نہیں ہوگا کہ مولانا، کولمبس کی طرح نکلیں گے ہندوستان کے لیے، اور پہنچیں گے امریکہ؟

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔