جس گاؤں کا میں باسی ہوں

جس گاوں کا میں باسی ہوں

جس گاؤں کا میں باسی ہوں وہاں زیادہ تر لوگ روایتی تعلیم یافتہ ہیں۔ یہاں ہر بندے کا اولین کام، دوسروں کے معاملہ میں ٹانگ اڑانا ہے۔ لوگ مسجد جاتے تو جوق در جوق ہیں، لیکن اپنی نماز پہ کم اور دوسروں کے پائنچہ، داڑھی، کالر او ننگے سر پہ دھیان زیادہ دیتے ہیں۔ یہاں کا امام مسجد جمعہ کے خطبے میں استطاعت کو بالائے طاق رکھ کر حج کی فرضیت پہ خطبہ دیتا ہے۔ وہ زکوٰۃ پہ بھی بڑے جذبہ کے ساتھ خطبہ دیتا ہے ، لیکن ساتھ ہی اپنے آپ کو اس کا مستحق بھی گردانتا ہے۔ بے پردگی کو صرف عورتوں کے ساتھ جوڑتا ہے اور تعلیم کو صرف مردوں کے لئے مختص کرتا ہے۔
ہمارے گاؤں کی مسجدکا امام، گلیوں کی صفائی، ندی کنارے قصاب خانے، روڈ کنارے کوڑا کرکٹ پھینکنے، چودھری کی چودھراہٹ اور خان کے خان اِزم کے خلاف بات کرنا اپنے سیلبس سے باہر کا موضوع سمجھتا ہے۔ الغرض یہ وہ امام ہے، جو محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑا کرنے کے فسانے ’’بیانتا‘‘ ہے، لیکن پہلی صف میں نماز پڑھنے کی اجازت اہلِ مال کو دیتا ہے۔ یہاں دین دھرم ’’افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض‘‘ کی اعلیٰ مثال ہے ۔

لوگ مسجد تو جوق در جوق جاتے ہیں، لیکن اپنی نماز پہ کم اور دوسروں کے پائنچہ، داڑھی، کالر او ننگے سر پہ دھیان زیادہ دیتے ہیں۔ یہاں کا امام مسجد جمعہ کے خطبے میں استطاعت کو بالائے طاق رکھ کر حج کی فرضیت پہ خطبہ دیتا ہے۔ وہ زکوٰۃ پہ بھی بڑے جذبہ کے ساتھ خطبہ دیتا ہے ، لیکن ساتھ ہی اپنے آپ کو اس کا مستحق بھی گردانتا ہے۔
ہمارے گاؤں میں لوگ مسجد جاتے تو جوق در جوق ہیں، لیکن اپنی نماز پہ کم اور دوسروں کے پائنچہ، داڑھی، کالر او ننگے سر پہ دھیان زیادہ دیتے ہیں۔ یہاں کا امام مسجد جمعہ کے خطبے میں استطاعت کو بالائے طاق رکھ کر حج کی فرضیت پہ خطبہ دیتا ہے۔ وہ زکوٰۃ پہ بھی بڑے جذبہ کے ساتھ خطبہ دیتا ہے ، لیکن ساتھ ہی اپنے آپ کو اس کا مستحق بھی گردانتا ہے۔

یہاں کی اکثریت اتوار کے دن ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ میگزین کی شدت سے اس لیے انتظار کرتی ہے، تاکہ سب فائزہ مشتاق عظیمی کے خوابوں کی تعبیر والا صفحہ پڑھ سکیں۔ یہ خواب بھی عجیب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ’’روپیہ گم ہوگیا، کانٹے دار درخت، کمرے میں بچھو، نرگس کا پھول دیکھنا، ماں میرا صدقہ دیتی ہے، ٹھنڈے آم کھانا، کتے کا کاٹنا، ناخن کاٹنا، گھوڑے پر سواری کرنا، سرِارہ خوبصورت لڑکا ملنا، جنگل میں لومڑی، نیلا آسمان نظر آنا، ابو گائے خرید کر لائے، پاخانہ کرنا‘‘ اور اس جیسے بیشمار خواب جن کی تعبیر صرف ذہنی تناؤ اور گھٹن پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ بہرحال خوابوں پہ بات پھر کبھی کر لیں گے کہ یہ تو ہمارے معاشرے کے بناؤ سنگھار اوربگاڑ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
آمدم بر سر مطلب، ہمارے گاؤں میں اکثریت ان روایتی تعلیمی یافتہ لوگوں کی ہے، جو سرکاری سکولوں میں معلم کے مقدس رشتہ سے بندھے ہوتے ہیں۔ یہ معلمین حضرات دو قسم کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ صبح سے دوپہر تک سکول میں پڑھاتے ہیں اور دوپہر سے شام تک کسی سڑک کے کنارے بیٹھ کرہر دوسرے گزرنے والے کے خدو خال اور اس کا شجرۂ نسب تنقیدی زاویوں سے کچھ اس طرح پرکھتے ہیں، جیسا کہ یہ بھی ان کے سیلبس میں شامل ایک بہت ہی اہم باب ہو۔

ہمارے گاؤں میں ابھی تک لوگ بچی کی پیدائش پر ہی اس کی ازدواجی زندگی کا فیصلہ سناتے ہیں کہ یہ جو بچی پیدا ہوئی ہے، بڑی ہوکر ہمارے گھر بیاہی جائے گی۔ پھر کیا……! ساری زندگی اس معصوم بچی کے ’’تھرڈ ایمپائر‘‘ یعنی سسرال والوں کا فیصلہ حرفِ آخر ہوتا ہے۔ لفظ قسمت ان کے لئے دلیلِ کُل ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بچپن کا یہ رشتہ بھی ’’آسمانوں‘‘ پر بنا ہوتا ہے۔ ہے نا مزے کی بات……! یہاں شادی کا مطلب لڑکی کا گھر صرف سے نکلنا ہوتا ہے، پھر اگر وہ اللہ میاں کی گائے ثابت ہوئی اور دودھ دیتی رہی، تو زندگی خوشگوار…… ورنہ اس کی بلی چڑھانا کون سا مشکل کام ہے؟

ہمارے گاؤں میں ابھی تک لوگ بچی کی پیدائش پر ہی اس کی ازدواجی زندگی کا فیصلہ سناتے ہیں کہ یہ جو بچی پیدا ہوئی ہے، بڑی ہوکر ہمارے گھر بیاہی جائے گی۔ پھر کیا……! ساری زندگی اس معصوم بچی کے ’’تھرڈ ایمپائر‘‘ یعنی سسرال والوں کا فیصلہ حرفِ آخر ہوتا ہے۔ لفظ قسمت ان کے لئے دلیلِ کُل ہے۔
ہمارے گاؤں میں ابھی تک لوگ بچی کی پیدائش پر ہی اس کی ازدواجی زندگی کا فیصلہ سناتے ہیں کہ یہ جو بچی پیدا ہوئی ہے، بڑی ہوکر ہمارے گھر بیاہی جائے گی۔ پھر کیا……! ساری زندگی اس معصوم بچی کے ’’تھرڈ ایمپائر‘‘ یعنی سسرال والوں کا فیصلہ حرفِ آخر ہوتا ہے۔ لفظ قسمت ان کے لئے دلیلِ کُل ہے۔

ہمارے گاؤں میں دریائے سوات صرف پانی کا ایک نالہ ہے، جس میں دریا کنارے سارے ہوٹلز اپنی تمام تر گندگی انسانی فضلہ سمیت بڑی ڈھٹائی سے گراتے ہیں۔ یہاں کبھی صاف و شفاف چشمے ہوتے تھے، اب بھی ہوتے ہوں گے مگر ان کے کوئی معنی نہیں۔ اونچے اونچے پہاڑ صرف ’’پہاڑ‘‘ ہیں، یہ صرف اونچائی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ننگے پربت کہلاتے ہیں۔ ان کا لباس یعنی جنگلات کا صفایا بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہاں گھنے درختوں پہ پھل کم اُگتے ہیں، کیونکہ اس پہ کسی نہ کسی گل خان کا نام مع اک عدد دل تیر جس کے آر پار پیوست دکھائی دیتا ہے،کسی چاقو سے نقش ملتا ہے۔ اب تو ماشاء اللہ عمران خان نے مزید درخت لگوادئیے، جن پر مزید دل جلے ذکر شدہ انداز میں اپنے عشق کا اظہار فرمائیں گے۔ یہاں سڑکیں اس لئے بنی ہیں کہ ان پر بلند موسیقی سمیت تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نو دولتیے روزانہ کے حساب سے لقمہ اجل بنا کریں۔

یہاں کبھی صاف و شفاف چشمے ہوتے تھے، اب بھی ہوتے ہوں گے مگر ان کے کوئی معنی نہیں۔ اونچے اونچے پہاڑ صرف ’’پہاڑ‘‘ ہیں، یہ صرف اونچائی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ننگے پربت کہلاتے ہیں۔ ان کا لباس یعنی جنگلات کا صفایا بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کیا گیا ہے۔
یہاں کبھی صاف و شفاف چشمے ہوتے تھے، اب بھی ہوتے ہوں گے مگر ان کے کوئی معنی نہیں۔ اونچے اونچے پہاڑ صرف ’’پہاڑ‘‘ ہیں، یہ صرف اونچائی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ننگے پربت کہلاتے ہیں۔ ان کا لباس یعنی جنگلات کا صفایا بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کیا گیا ہے۔

ہمارے گاؤں میں عورت کے مقام کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ ان سے پوچھے جانے والے ہر سوال کے جواب میں وہ خاموش پائی جائے گی۔ کیونکہ یہ ناقص العقل ہے اور اگر وہ جواب دینے کی کوشش بھی کرتی ہے، تو اس کی زبان کھینچ لی جاتی ہے۔
اکیسوی صدی میں اگر کوئی اسے رسم و رواج بولتا ہے، تو بولنے دو اُسے…… میں تو اسے سماجی بدبختی بولتا ہوں اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بولتا ہوں۔

اور کوئی خدمت……!