وہ گاؤں میں ایک بدمزاج آدمی کے طور پر مشہور تھا۔ لوگ اس سے ڈرتے تھے۔ اس سے بات کرتے ہوئے انتہائی احتیاط برتتے تھے۔ اس کے کسی معاملے میں مداخلت سے پہلے ہزار بار سوچتے تھے۔ ہر کوئی اس کی شکایت ہی منھ میں لیے بیٹھا تھا۔ کسی نے اس سے بھلائی کی بات کبھی سنی نہیں۔ ہم تبلیغ کی غرض سے گاؤں میں مقررہ شیڈول کے مطابق گشت کرتے ہیں۔ کوشش ہوتی ہے کہ لوگ نماز کی طرف آئیں۔ اللہ کے دین کی طرف آئیں۔ ایماندار بنیں اور نیکی پھیلائیں۔

ہم تبلیغ کی غرض سے گاؤں میں مقررہ شیڈول کے مطابق گشت کرتے ہیں۔ کوشش ہوتی ہے کہ لوگ نماز کی طرف آئیں۔ اللہ کے دین کی طرف آئیں۔ ایماندار بنیں اور نیکی پھیلائیں۔ (فوٹو: دی نیشن)

ہم تبلیغ کی غرض سے گاؤں میں مقررہ شیڈول کے مطابق گشت کرتے ہیں۔ کوشش ہوتی ہے کہ لوگ نماز کی طرف آئیں۔ اللہ کے دین کی طرف آئیں۔ ایماندار بنیں اور نیکی پھیلائیں۔ (فوٹو: دی نیشن)

ہم کبھی کبھار اس کی گلی میں بھی جاتے تھے لیکن کہیں اس سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اس کے بیٹوں سے ملاقات ہوتی تھی اور ان کا رویہ باپ کے برعکس بالکل ہی الگ تھا۔ ملنسار اور شائستہ اخلاق والے۔ایک دن گشت کرتے ہوئے اس کے محلے میں گئے ۔ اسے حسن اتفاق کہیے کہ آج وہ اپنے بڑے بیٹے سمیت گھر کے باہر کھڑا تھا۔ ہم نے انہیں سلام کیا۔ ان سے دومنٹ کے لیے بات کرنے کی اجازت چاہی۔ جب وہ سننے پہ راضی ہوئے، تو ہم نے آخر میں اس سے اس کے بیٹے کو ایک چلّے پہ لے چلنے کا تقاضا کیا۔ بیٹا پہلے سے راضی تھا لیکن اسے باپ کی اجازت کی ضرورت تھی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ بس ایک ہی چلّہ کی بات ہے، چالیس دن بعد وہ گھر آجائے گا۔ باپ نے یہ کہہ کر اجازت دی کہ چلہ پورا ہوتے ہی اسے واپس بھیجنا ہے۔ اگر اسے واپس نہیں بھیجا، تو میں تم سے پوچھوں گا۔ میں نے کہا یہ مجھ پہ چھوڑ دو، میں اسے واپس بھیج دوں گا۔

بیٹے کی آنکھیں کھلتی گئیں۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ میں آج تک مذہب کی بنیادی تعلیمات سے محروم رہا۔ میری نمازیں قضا ہوگئیں اور مجھے پروا تک نہیں تھی۔ میں نے صلہ رحمی نہیں کی۔ میرا قرآن تجوید کے اصولوں کے مطابق نہیں تھا۔ میں تلاوت بھی نہیں کرتا تھا۔وہ راتوں کو اُٹھ کر آخر شب کی خاموشیوں میں گڑگڑاتا تھا۔ اپنی مغفرت کی دعائیں کرتا تھا۔ اپنی عاقبت کے لیے اور اپنے ایمان کے لیے ۔ اس کی عبادت اور تڑپ کو دیکھ کر ہمیں بھی رشک آتا تھا۔ (فوٹو بہ شکریہ www.breitbart.com)

بیٹے کی آنکھیں کھلتی گئیں۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ میں آج تک مذہب کی بنیادی تعلیمات سے محروم رہا۔ میری نمازیں قضا ہوگئیں اور مجھے پروا تک نہیں تھی۔ میں نے صلہ رحمی نہیں کی۔ میرا قرآن تجوید کے اصولوں کے مطابق نہیں تھا۔ میں تلاوت بھی نہیں کرتا تھا۔وہ راتوں کو اُٹھ کر آخر شب کی خاموشیوں میں گڑگڑاتا تھا۔ اپنی مغفرت کی دعائیں کرتا تھا۔ اپنی عاقبت کے لیے اور اپنے ایمان کے لیے ۔ اس کی عبادت اور تڑپ کو دیکھ کر ہمیں بھی رشک آتا تھا۔ (فوٹو بہ شکریہ www.breitbart.com)

ہم چلّے میں گئے۔ دن رات گزرتے گئے۔ اس کے بیٹے کی آنکھیں کھلتی گئیں۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ میں آج تک مذہب کی بنیادی تعلیمات سے محروم رہا۔ میری نمازیں قضا ہوگئیں اور مجھے پروا تک نہیں تھی۔ میں نے صلہ رحمی نہیں کی۔ میرا قرآن تجوید کے اصولوں کے مطابق نہیں تھا۔ میں تلاوت بھی نہیں کرتا تھا۔وہ راتوں کو اُٹھ کر آخر شب کی خاموشیوں میں گڑگڑاتا تھا۔ اپنی مغفرت کی دعائیں کرتا تھا۔ اپنی عاقبت کے لیے اور اپنے ایمان کے لیے ۔ اس کی عبادت اور تڑپ کو دیکھ کر ہمیں بھی رشک آتا تھا۔ چالیس دن یوں گزر گئے۔

جب چلّہ پورا ہوا، تو میں نے اسے کہا کہ اب گھر جاؤ۔ اس نے کہا ہرگز نہیں۔ میں چار مہینے پورے کرکے ہی گھر جاؤں گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ میں نے آپ کے والد سے وعدہ کیا ہے کہ چالیس دن بعد میں آپ کے بیٹے کو واپس لے آؤں گا۔ اب اس وعدے کی لاج رکھو اور میرے ساتھ گھر چلو۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ جب کچھ دن اس سمجھائی بجھائی میں گزر گئے اور لڑکا گھر واپس نہیں گیا، تو ادھر پاب کا پارہ چڑھ گیا۔ وہ میرے گھر آیا اور میرے بھائ سے کہا کہ اِسے کہہ دو میرا بیٹا واپس کردے ۔ میں نے بھائی سے کہا کہ میں نے اپنی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ چار مہینے پورے کیے بنا کبھی بھی واپس جانا نہیں چاہتا۔ میں گھر چلا آیا اور وہ چار مہینے کے لیے دوسرے سفر پر روانہ ہوا۔ ادھر اس کے باپ نے زمین آسمان ایک کر دیا تھا۔ کئی بار وہ میرے گھر آیا لیکن ملاقات نہ ہوسکی۔ وہ منھ سے واہیات بکتا تھا اور لوگوں سے کہتا تھا کہ اس نے میرے بیٹے کو بگاڑ دیا ہے۔ یہاں تک کہہ دیا کہ میں اسے گولی ماردوں گا۔ ایک دن اتفاقاً راستے میں ملاقات ہوگئی۔ میں نے سلام کیا۔ اس نے جواب دینے کی بجائے گالیوں اور طعنوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میں خاموش رہا یہ سوچتے ہوئے کہ دین کے معاملے میں انبیا کو بھی گالیاں پڑی ہیں، انہیں طعنے دئیے گئے ہیں۔ میں نے اس کے بیٹے کو روکا تو نہیں بلکہ اس پر ہر ممکن حربہ آزمایا کہ وہ گھر واپس آئے لیکن ہر کوئی اپنے آپ کا مالک ہے۔ میرا اتنا بس تو نہیں چلتا تھا کہ اسے زبردستی پکڑ کر گھر لاتا۔ اس کی گالیوں کے حوالہ سے میں سنی ان سنی کر گیا۔

ایک دن اتفاقاً راستے میں ملاقات ہوگئی۔ میں نے سلام کیا۔ اس نے جواب دینے کی بجائے گالیوں اور طعنوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میں خاموش رہا یہ سوچتے ہوئے کہ دین کے معاملے میں انبیا کو بھی گالیاں پڑی ہیں، انہیں طعنے دئیے گئے ہیں۔

ایک دن اتفاقاً راستے میں ملاقات ہوگئی۔ میں نے سلام کیا۔ اس نے جواب دینے کی بجائے گالیوں اور طعنوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میں خاموش رہا یہ سوچتے ہوئے کہ دین کے معاملے میں انبیا کو بھی گالیاں پڑی ہیں، انہیں طعنے دئیے گئے ہیں۔

ایک دن ساتھیوں نے کہا کہ بھئی یہ آدمی ناراض ہے، آئیے! ذرا اسے منانے چلتے ہیں۔ میں نے عذر کیا کہ وہ میرے اوپر غصہ ہے لیکن وہ نہ مانے اور مجھے ساتھ لے گئے ۔ جب اس کی بیٹھک میں گئے اور اس کی نظر مجھ پر پڑی، تو اس نے پھر وہی گالیوں کا گردان شروع کیا۔ اور طیش میں آکر مجھے دھکا دے کر بیٹھک سے باہر نکال دیا۔ میں نے انتہائی صبر سے کام لیا۔ ساتھیوں نے کہا کہ خدا کے لیے بددعا مت دینا۔ میں نے سوچا حضورؐ کو بھی لوگوں نے دھکے دئیے اور آپؐ کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا۔ میں نے سوچا اس سے بہتر اس سنت کو زندہ کرنے کا اور کون سا موقعہ ہوسکتا ہے کہ جب آنحضرتؐ نے ستم سہا اور صبر سے کام لیا۔ میں نے یہ سب برداشت کرلیا۔ ہر وقت نفل کیے۔ اس کے لیے دعا کی۔ خالص اللہ کے لیے اسے معاف کیا۔ اس ظالم نے اپنے بیٹے کو فون کرکے کہا کہ اب تبلیغ ہی کو چاٹتے رہنا۔ میرے گھر مت آنا۔ یہاں تمہاری کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس نے اپنی بہو کو بھی گھر سے نکال کر میکے بھیج دیا۔ غصہ تھا کہ ٹھنڈا ہی نہیں ہورہا تھا۔اس سمے آدمی سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ آخرِکار لوگ دین، مذہب اور ایمان سے اتنے دورکیسے چلے جاتے ہیں؟ انہیں اس بات کی اہمیت کا اندازہ کیوں نہیں ہوتا کہ اس دنیا کو ایک دن یوں ہی چھوڑ کر جانا ہے۔ وہاں خالق کائنات کے سامنے پیش ہونا ہے، جہاں ہر ایک گھڑی کا حساب دینا ہوگا۔ جہاں کوئی عذر نہیں چلے گا، کوئی بہانہ کارگر نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی سفارش کام آسکتی ہے۔

جب اس کا چلّہ پورا ہوا اور آنے میں ایک دن باقی رہ گیا، تو نہ جانے باپ کے دل میں کیا آیا۔ وہ سیدھا بازار گیا اور وہاں سے رنگ برنگے پھریرے گھر لے آیا۔ سارے راستے کو سجایا۔ گھر کے آنگن میں بھی پھریرے لہرائے۔ دیواروں پر چراغاں کیا اور لوگوں سے خوشی خوشی کہا کہ کل میرا بیٹا آرہا ہے ۔ وہ بہو کو بھی گھر لے آیا اور اپنے بیٹے کا انتظار کرنے لگا۔ بیٹا آیا اور گھر میں طمانیت اور خوشی کی بہار آئی۔ اس کا دل بدل چکا تھا۔ بیٹے سے کہا اگلے ہفتے میں جاؤں گا۔ اب میری باری ہے۔ (بہ شکریہ دی نیوز انٹرنیشنل)

جب اس کا چلّہ پورا ہوا اور آنے میں ایک دن باقی رہ گیا، تو نہ جانے باپ کے دل میں کیا آیا۔ وہ سیدھا بازار گیا اور وہاں سے رنگ برنگے پھریرے گھر لے آیا۔ سارے راستے کو سجایا۔ گھر کے آنگن میں بھی پھریرے لہرائے۔ دیواروں پر چراغاں کیا اور لوگوں سے خوشی خوشی کہا کہ کل میرا بیٹا آرہا ہے ۔ وہ بہو کو بھی گھر لے آیا اور اپنے بیٹے کا انتظار کرنے لگا۔ بیٹا آیا اور گھر میں طمانیت اور خوشی کی بہار آئی۔ اس کا دل بدل چکا تھا۔ بیٹے سے کہا اگلے ہفتے میں جاؤں گا۔ اب میری باری ہے۔ (بہ شکریہ دی نیوز انٹرنیشنل)

ہم مسلسل نوافل ادا کرتے۔ اسے دعا میں یاد رکھتے۔ اس کی ہدایت کی دعا کرتے۔ یہ تمنا کرتے کہ وہ اپنے بیٹے سے اچھا سلوک کرے۔ اس کے گھر کا ماحول بہتر ہو۔ اس کی بہو گھر لوٹ آئے اور یوں اس گھر میں دین کے ساتھ ساتھ خوشیوں کی بہار دیکھنے کو ملے۔ مجھے نہیں معلوم یہ ہماری دعاؤں کی قبولیت تھی یا اس کے بیٹے کی کرامت کہ جب اس کا چلّہ پورا ہوا اور آنے میں ایک دن باقی رہ گیا، تو نہ جانے باپ کے دل میں کیا آیا۔ وہ سیدھا بازار گیا اور وہاں سے رنگ برنگے پھریرے گھر لے آیا۔ سارے راستے کو سجایا۔ گھر کے آنگن میں بھی پھریرے لہرائے۔ دیواروں پر چراغاں کیا اور لوگوں سے خوشی خوشی کہا کہ کل میرا بیٹا آرہا ہے ۔ وہ بہو کو بھی گھر لے آیا اور اپنے بیٹے کا انتظار کرنے لگا۔ بیٹا آیا اور گھر میں طمانیت اور خوشی کی بہار آئی۔ اس کا دل بدل چکا تھا۔ بیٹے سے کہا اگلے ہفتے میں جاؤں گا۔ اب میری باری ہے۔ ان دنوں میں ایک اور سفر میں نکل چکا تھا اور رائے ونڈ مرکز میں موجود تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے اسے وہاں دیکھا۔ وہ مجھے گلے لگ کے رویا اور مجھ سے معافی مانگی۔ مجھے احساس ہوا کہ دعا اور نیکی سے کسی کی زندگی بدلنے میں دیر نہیں لگتی!