کہتے ہیں کہ شیر، بھیڑیا اور لومڑی دوست بن گئے اور شکار کے لیے نکلے۔ انہوں نے گدھے، ہرن اور خرگوش کا شکار کیا۔ شیر نے بھیڑیے سے کہا کہ شکار کی تقسیم تم کرو۔ اس پر بھیڑیے نے کہا کہ یہ تو واضح ہے، گدھا تیرا، خرگوش لومڑی کا اور ہرن میرا۔ شیر نے یہ سنتے ہی پنجہ مار کر اس بھیڑیے کا سر تن سے جدا کردیا۔ پھر لومڑی کی طرف متوجہ ہو کر بولا، خدا اسے ہلاک کرے، تقسیم کے بارے میں یہ کس قدر جاہل واقع ہوا۔ پھر کہا یہ تقسیم تو کرلے۔ لومڑی انتہائی ادب کے ساتھ شیر سے مخاطب ہوئی کہ اے جنگل کے بادشاہ یہ تو بالکل واضح بات ہے کہ گدھا آپ کے ناشتے کے لیے ہے اور ہرن رات کے کھانے کے لیے اور خرگوش کو تو آپ درمیان میں کسی بھی وقت انجوائے کرسکتے ہیں۔ شیر نے کہا، ارے کم بخت! کتنا اچھا فیصلہ تو نے کیا۔ یہ فیصلہ تجھے کس نے سکھایا؟ لومڑی نے کہا، میرے آقا بے انصاف بھیڑیے کا سر میرے سامنے ہے۔ اسی نے سکھایا۔
عزیزانِ من، المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آئے دن شیر اور بھیڑیے کی دوستی ہوجاتی ہے اور جب شکار کی تقسیم کا وقت آتا ہے، تو شیر دن کے اُجالے میں بھیڑیے کو ظالم اور بے انصاف قرار دے کر اسے اپنے انجام تک پہنچا دیتا ہے۔ عوام بیچاری لومڑی کی طرح بھیڑیے کا انجام دیکھ کر سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے جانشینوں سے دوستی کرلی تھی اور سقوطِ ڈھاکہ میں برابر کا حصہ دار تھا، لیکن ابھی وہ حصہ بھٹو صاحب کے حلق سے نیچے بھی نہیں اترا تھا کہ بھٹو صاحب کے گلے میں رسی ڈال کر اُسے لٹکا دیا گیا۔
پھر ضیاء الحق صاحب اور نواز شریف صاحب کے دوستی کے چرچے ہونے لگے۔ نواز شریف صاحب بڑے مطمئن ہوکر پیپلز پارٹی کو شکار کرتے چلے گئے۔ پھر کیا ہوا؟ دنیا نے دیکھ لیا۔ شاید یہ ضیاء الحق صاحب کی وہ دعا ہے جو نواز شریف صاحب کو زندہ رکھے ہوئے ہے، ورنہ پرویز مشرف تو بات یہاں تک پہنچا رہا تھا کہ جس طرح ہرسال رائے ونڈ میں تبلیغی اجتماع ہوتا ہے، اسی طرح مسلم لیگ ن ہر سال رائے ونڈ میں آنجناب شریف کی برسی منائیں۔
بات کی جائے آصف زرداری صاحب کی، تو وہ تو کئی ’’سنجرانیوں‘‘ کی حمایت کرکے دوستی کا ثبوت بھی پیش کرتے رہے، لیکن انجام ان کا بھی جیل کے سوا کچھ نہ ہوا۔ درمیان میں تو کئی جونیجو، شوکت عزیز اور ایم ایم اے وغیرہ والوں نے جمہوریت کے نام پر دوستیاں قائم کیں، لیکن ان کے بھی ہاتھ کچھ نہیں آیا سوائے لومڑی بننے کے اور یہ ان کی خوش قسمتی بھی تھی کہ بھیڑیے کے انجام سے تو بچ گئے۔
عزیزانِ من، اس قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے جملہ سیاست دان ماضی کے واقعات بیان تو کرتے ہیں، لیکن اس پر غور نہیں کرتے اور نہ اس سے کچھ سبق حاصل کرتے ہیں۔ آج کپتان نیازی کے سامنے سے تو مکمل فیلڈنگ ہٹا دی گئی ہے اور وہ جارہانہ انداز میں کھیل رہے ہیں۔ ایمپائر کی حمایت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے سنگل رن کو چوکا اور اپنے چوکے کو چھکا شمار کر رہے ہیں۔ نو بال پر بھی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے انہیں پویلین واپس بھیج رہے ہیں۔ ان کے ’’ریویو‘‘ لینے پر ایمپائر کے اوپر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے کروا رہے ہیں۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال جج صاحب کی ویڈیو کی صورت میں پوری دنیا ملاحظہ کرچکی ہے۔
عزیزانِ من، کپتان نیازی کیا سمجھتے ہیں کہ میچ کے اختتام پر ایک بار پھر ٹرافی ہاتھوں میں اٹھا کر پھر کسی شوکت خانم بنانے کا ارادہ فرمائیں گے؟ نہیں، کپتان صاحب اس مرتبہ آپ کے دوست میچ تو دور آپ کو یہ اننگز بھی پوری کرنے نہیں دیں گے۔ یہ وہ میچ نہیں ہے۔ آپ اس ملک کی 70 سالہ تاریخ کا بنظرِ غائر مطالعہ کریں۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ آج آپ جس گراؤنڈ میں کھیل رہے ہیں، یہ وہ گراؤنڈ نہیں ہے جس میں آپ کسی زمانے میں کھیلا کرتے تھے۔
کپتان نیازی صاحب، آپ ہوش کے ناخن لیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کا انجام بھی لیاقت علی خان مرحوم جیسا ہو، جس کے قاتل کو بعد میں ذہنی مریض ڈکلیئر کردیا گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ فائل ہمیشہ کے لیے بند کردی گئی۔
کپتان صاحب، اگر آپ کا انجام نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسا ہوا، تو آپ عوام کو کیا دلیل دیں گے کہ اب کی بار مجھے کیوں نکالا؟ میرا خیال ہے کہ اس وقت آپ پر پنکج اداس کا یہ گانا سوٹ کرے گا جس کے بول کچھ یوں ہیں
یاروں مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
عزیزانِ من، ہم کب تک شیر، بھیڑیے اور لومڑی کا یہ تماشا دیکھتے رہیں گے، اور کب تک ہمارے سیاست دان اس کہانی کے بھیڑیے بن کر شیروں سے دوستی کریں گے؟ جس میں ان کے لیے ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
کب تک ہم بحیثیتِ مجموعی لومڑی کی طرح بھیڑیے کے انجام سے ڈر کر اپنے ملک کی دولت کو ان کے ناشتے اور کھانے کے لیے چھوڑ دیا کریں گے؟ ان شیروں اور بھیڑیوں کی آئے دن کی فلمیں تب ختم ہوں گی؟ تاکہ اس ملک میں سیاسی استحکام آجائے۔ اور سیاسی استحکام تبھی آئے گا، جب شیر اور بھیڑیے عوام کو شکار کرنے کی غرض سے آپس میں دوستیاں بنانا چھوڑ دیں گے۔ آپ انڈیا اور چین کو دیکھیں، آپ بنگلہ دیش کو دیکھ لیں، ان کی ترقی کی وجہ ان کے ممالک میں سیاسی استحکام ہے۔ ان کے فیصلے عوامی مینڈیٹ پر ہوتے ہیں۔ ان کی پارلیمنٹ میں کٹھ پتلیاں نہیں ہوتیں، سب ادارے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔وہاں سیاست دان عوامی مینڈیٹ کے خلاف دھرنے نہیں دیا کرتے کہ جس کا فائدہ کسی اور کو ہو۔
عزیزانِ من! بڑے افسوس کے ساتھ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہمارے ملک کی تباہی کی اصل وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ کیا اس پر ہمیں اور ہمارے سیاست دانوں کو غور نہیں کرنا چاہیے؟
…………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔