کیا واقعی کسی بڑے ڈیم کی ضرورت ہے؟

وطنِ عزیز میں پچھلے کئی دہائیوں سے پانی اور بجلی کی کمی کا رونا رویا جا رہا ہے ۔ تقریباً ہر فورم پر پانی کے ضیاع اور بجلی کی کمی کے لیے بڑے ڈیم بنانے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ تب طول پکڑ گیا، جب پچھلے سال سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈیم بنانے کے لیے عوام سے چندہ وصولی مہم شروع کر دی۔ ہزاروں لوگوں نے دل کھول کر رقم دی، اربوں روپے جمع ہوئے، میڈیا پر ایسی خبریں اور اشتہارات چلائے گئے کہ خدانخواستہ پاکستان کے پاس صرف 35 دنوں کے لیے پانی کے ذخائر موجود ہیں، اور اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا، تو پانی پر جنگیں شروع ہوں گی، لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
اصل صورتحال مگر یہ ہے کہ پاکستان میں پانی بہت زیادہ ہے۔ بین لاقوامی معیار کے مطابق ہر فرد کے لیے پچاس لیٹر پانی کی روزانہ ضروت ہوتی ہے، مگر پاکستان میں یہ دستیابی تین گنا زیادہ ہے۔ یہ سروے پاکستان کے سرکاری ادارے کرچکے ہیں۔ پاکستان کی "منسٹری آف واٹر ریسورس” یعنی پانی کے وسائل کے ادارے کے چیئرمین احمد کمال کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں سالانہ 25 ہزار ملین مکعب تازہ پانی ضائع ہوتا ہے، یعنی سمندروں میں چلا جاتا ہے۔ اس میں سے سمندر کی آبی حیات کی ضروریات کے لیے آٹھ فی صد پانی جانا ضروری ہے۔ گویا پھر بھی پاکستان کا 20 ہزار ملین مکعب پانی ہر سال ضائع ہوتا ہے۔ اس میں اگر دس ملین مکعب پانی کو استعمال میں لایا جائے، تو 25 ہزار ایکٹر زمین کاشت کاری کے قابل بنائی جاسکتی ہے۔
ان کے اور دیگر ماہرین کے مطابق ایک ڈیم کو بنانے کے لیے 10 بیلن ڈالرز کی ضروت ہوتی ہے۔ گویا پاکستانی کرنسی کے مطابق یہ تین سو ارب روپیہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ڈیم بنانے کے لیے کم از کم دس سال کا عرصہ درکار ہے۔ اس طرح ڈیم کے لیے زمین کے حصول میں بے پناہ مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑے ڈیم کے لیے چھوٹے صوبوں کو بھی اعتماد میں لینا پڑتا ہے، جب کہ عوام کی طرف سے زمین لینے پر شدید ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان میں ضائع ہونے والے پانی کے استعمال کے لیے منصوبہ بندی کی ضروت ہے، اور اس کے لیے نہروں اور کنال کا جال بچھایا جاسکتا ہے، جس پر ڈیم کے مقابلے میں بہت ہی کم خرچ آتا ہے۔ ماہرین کے مطابق دو سے تین ارب ڈالرز کے عوض ضائع ہونے والے تمام پانی کا پچاس فی صد حصہ بچایا جاسکتا ہے، یعنی دس ہزار ملین پانی کو کام میں لایا جاسکتا ہے، جس سے پاکستان کے زیریں علاقوں میں معاشی انقلاب پیدا ہوسکتا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اور نوے فی صد تک زرِمبادلہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بالکل غلط معلومات ہیں کہ پاکستان کے پاس 35 دنوں کے لیے پانی کا ذخیرہ موجود ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت جتنے ڈیم یا پانی کے ذخائر دستیاب ہیں، ان میں 35 دن تک پانی جمع کرنے کی صلاحیت موجود ہے، یعنی اگر مسلسل 35 دن تک پانی ان میں جمع ہونا شروع ہوتا ہے، تو 36ویں دن پانی سرپلس ہوجاتا ہے اور وہ ضائع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
اس طرح ماہرین کے مطابق اگر پانی کی تقسیم یعنی اس کے لیے نہریں اور کنال بنا دیے جائیں، تو زیرِ زمین پانی میں بھی اضافہ ہوگا، جسے عرفِ عام میں واٹر ٹیبل کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں زیرِ زمین پانی مسلسل نیچے جا رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ذخیرہ ہونے والا پانی مسلسل ضائع ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف نہریں موجود نہیں ہیں، سیلاب میں پانی زیادہ بہہ جاتا ہے، پانی کی تقسیم نہ ہونے سے زیادہ تر پانی سمندروں میں جاکر ضائع ہوجاتا ہے اور زیرِ زمین پانی کے ذخائر کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ جہاں جہاں سے نہریں اور کنال گزرتے ہیں، تو اس میں سے ڈھیر سارا پانی زیرِ زمیں ذخیرے میں چلا جاتا ہے، جس سے زیرِ زمین پانی کی سطح بڑھ جاتی ہے اور وہاں کے مقامی لوگ ٹیوب وہیل، کنوؤں یا چشموں کی صورت میں صاف اور تازہ پانی استعمال میں لاتے ہیں۔
پانی کے ماہرین کے تجزیوں اور تجربوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی کا واویلا صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ تھا۔ ایک سرکاری جج نے قوم کو کسی اور سمت لگایا اور حکومتِ وقت کو بدنام کرنے یا قوم کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ شوشا چھوڑا تھا۔ کیوں کہ ڈیم عوام کے چندوں سے نہیں بن سکتے، نہ ایک حکومت ہی اس کو بناسکتی ہے۔ اس کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے سرمایہ کاری کرتے ہیں جب کہ بدقسمتی سے پاکستان کی معاشی حالت ایسی ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی اب دور بھاگ رہے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کی تقسیم کے لیے منصوبے بنائے جائیں۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا رہے ہیں، جس سے پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم یورپی یونین کے تعاون سے بن چکے ہیں اور کامیاب بھی ہیں۔ ان کے لیے مناسب منصوبہ بندی اور پرائیویٹ کمپنیوں کو ٹھیکا دینے کی اجازت کی ضروت ہے، جس سے مقابلے کا رجحان پیدا ہوگا اور توانائی کی کمی پر قابو پایا جاسکے گا۔
بدقسمتی سے بجلی کی پیداوار پر صرف حکومتی اجارہ داری ہے جس کی وجہ سے واپڈا خسارے میں جا رہا ہے۔ پاکستان کو اس وقت ایسے ماہرین کی ضروت ہے جو معروضی حالات کے مطابق منصوبہ بندی کریں اور یہ جس کا کام ہے، ان کے حوالہ کیا جائے۔ ملکِ عزیز میں اس وقت ایسے لوگ اور ادارے موجود ہیں جن کا انتہائی نازک اور عوامی مسائل کو حل کرنے میں کوئی تجربہ نہیں، مگر پھر بھی سستی شہرت کے لیے ان کاموں میں ہاتھ ڈالتے ہیں جن کا ان کے پروفیشن سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ خدارا، یہ ریت ختم کریں اور "جس کاکام اس کو ساجھے” والی کہاوت پر عمل فرمائیں۔

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔