حضرتِ جون ایلیا

حضرت جون ایلیا

چودہ دسمبر 1931ء کو برصغیر کے امروہہ (اتر پردیش) کے نامور خاندان میں ایک بچے نے جنم لیا۔ عمر کے لحاظ سے یہ اپنے گھرانے میں سب سے چھوٹا تھا، ساتھ ساتھ سب سے مختلف بھی۔ جی ہاں، بات ہورہی ہے حضرت جون ایلیا صاحب کی۔ آپ بچپن سے بہت حساس اور مختلف مزاج کے تھے۔ آپ پیدائشی شاعر تھے۔

آپ خود اپنی کتاب ’’شاید‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو اہم حادثے پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا
آپ خود اپنی کتاب ’’شاید‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو اہم حادثے پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا

جون صاحب کے والد صاحب علامہ شفیق حسن ایلیا ادب اور فن سے لگاؤ رکھتے تھے۔ آپ اپنے زمانے کے اچھے شاعر اور نجومی بھی تھے۔ علمی ماحول کا جون صاحب پر گہرا اثر ہوا۔ لڑکپن سے ہی آپ کو شاعری سے بڑا لگاؤ تھا۔ آٹھ سال کی عمر میں آپ نے اپنا پہلا شعر تخلیق کیا۔ آپ خود اپنی کتاب ’’شاید‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو اہم حادثے پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا
چاہ میں اُس کی تمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی میرے رخسار کی
اس شعر سے آپ اندازہ لگائیں کہ جون صاحب کتنے حساس تھے! دیکھا جائے، تو آپ کی زندگی غموں سے خالی نہ تھی۔ کیوں کہ آپ خود اپنے ہی ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
جو گزاری نہ جاسکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
کچھ شاعر اور عالم یہ بھی کہتے ہیں کہ جون صاحب ایک فرد نہیں بلکہ اُن کے اندر کئی افراد چھپے بیٹھے تھے۔آپ کو بدبختو کا شاعر مانا جاتا ہے۔ آپ1957ء کو ہجرت کرکے کراچی میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔
جون صاحب ایک شاعر نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ وہ ایک اچھے شاعرہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی، سوانح نگار اور اعلیٰ پائے کے عالم بھی تھے۔

جون صاحب ایک شاعر نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ وہ ایک اچھے شاعرہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی، سوانح نگار اور اعلیٰ پائے کے عالم بھی تھے۔
جون صاحب ایک شاعر نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ وہ ایک اچھے شاعرہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی، سوانح نگار اور اعلیٰ پائے کے عالم بھی تھے۔

آپ جون صاحب کی خواہش دیکھیں۔ آپ چاہتے تھے کہ ایک حسین لڑکی آپ کے عشق میں خودکشی کرلے۔ آپ نے مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے ساتھ شادی کی جو بعد میں طلاق پر منتج ہوئی۔
جون صاحب کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ فارسی، عربی، سنسکرت اور عبرانی زبان پر عبور حاصل تھا۔ مذہبی طور پر جون صاحب شیعہ کہلاتے تھے۔ آپ کی اولاد میں زریون ایلیا، فائنانہ فرنام اور سوہانیہ ایلیا تھی۔
آج کل جون صاحب کے مداحوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر دیکھا جائے، تو نوجوان نسل سوشل میڈیا پر جون صاحب کی شاعری کو بے حد پسند کرتی ہے۔ جون صاحب کے نام کے کتنے ہی پیجز ایکٹیو ہیں۔ آپ کے ایک ایک شعر پر نسل نو سر دھنتی رہ جاتی ہے۔
محترمہ زاہدہ حنا سے جون صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں ان کے درمیان علاحدگی ہوئی۔ اس کے بعد جون صاحب نے تنہا رہنے کو ترجیح دی۔ تنہائی کی وجہ سے جون صاحب کی حالت روز بہ روز خراب ہوتی گئی،بالآخر شراب نوشی کا عمل شروع کیا۔ شراب نوشی سے جون صاحب کی حالت مزید بگڑگئی۔ پھر طویل علالت کے بعد آٹھ نومبر 2002ء کو جون صاحب کراچی میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

محترمہ زاہدہ حنا سے جون صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں ان کے درمیان علاحدگی ہوئی۔ اس کے بعد جون صاحب نے تنہا رہنے کو ترجیح دی۔
محترمہ زاہدہ حنا سے جون صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں ان کے درمیان علاحدگی ہوئی۔ اس کے بعد جون صاحب نے تنہا رہنے کو ترجیح دی۔

آپ کے شعری مجموعوں کی فہرست یہ ہے:
1:۔ شاید، 1991ء
2:۔ یعنی، 2003ء
3:۔ گمان، 2004ء
4:۔ لیکن، 2006ء
5:۔ گویا، 2008ء
6:۔ فرنود، 2012ء
7:۔ راموز، 2016ء
آپ کو آٹھ نومبر 2000ء کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔