ہمالیہ تک پہنچائی گئیں امیدیں لے ڈوبیں

حامی اگر انگشت بدندان ہیں، تو مخالفین بھی اتنی جلدی ہار ماننے کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ اور ہار بھی ایسے لمحے میں کہ جب ایک دن قبل ہی ہار کی خبریں زیر گردش ہوئیں، تو اس پہ اطلاعات کے سرخیل کے ذریعے سخت زبان میں جواب دیا گیا۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ کارروائی کی دھمکی بھی دی گئی، ایک نگران اتھارٹی کے ذریعے۔ لیکن یہ کیا ہوا کہ ایک دن بعد ہی صورتِ حال بدل گئی۔ صرف ایک دن ہی مؤقف پہ مضبوطی سے قائم رہنے کے بعد اپنا وہی فیصلہ سنانا پڑا جس کا یارانِ محفل تذکرہ کر چکے تھے کہ یہ انہونی یقینی طور پر ہونے جا رہی ہے۔ اس کے ہونے میں اب کس نے کیا کہا ، یہ یا تو کہنے والے جانتے ہیں، یا جن کو کہا گیا ہے، وہ بہتر جانتے ہیں۔ عوام بے چارے تو امید کے سہارے زندہ تھے اور زندہ رہیں گے، جب تک سہ سکتے ہیں، سہتے جائیں گے۔ امید ٹوٹنا کس قدر تکلیف دہ ہے، یہ وہی بتا سکتا ہے جس کی امیدیں کبھی ٹوٹی ہوں۔ پاکستانی عوام سے اس وقت کوئی ذرا یہ پوچھے کہ ان کی امیدیں کس بری طرح سے ٹوٹی ہیں؟ کیوں کہ انہیں تو امید دلائی گئی تھی، وہ اُمیدیں نہیں پالنا چاہتے تھے، لیکن انہیں امید رکھنے پہ نہ صرف مجبور کیا گیا، بلکہ زور اس بات پہ بھی دیا گیا کہ ہم یہ امیدیں دنوں میں پوری کریں گے، مگر مہینے ہو چکے امیدیں ہیں کہ دم توڑ رہی ہیں اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔
ایک ایم بی اے وزیرِ خزانہ یقینی طور پر برا نہیں تھا، لیکن امیدوں کا کیا کیجیے کہ جو ہمالیہ پہ پہنچا دی گئی تھیں۔ ہمیں تو انسان سے غرض تھی لیکن نہیں جی، بھلا حامی کہاں رُکنے والے تھے! انہوں نے ایک مہم چلا ڈالی کہ لاکھوں روپے تنخواہ چھوڑ کے آئے۔ اس وقت بھی عرض کی تھی اورآج بھی بات وہی ہے کہ جناب کوئی لاکھوں چھوڑ کے آئے یا سیکڑوں، قابلیت کا معیار سابقہ تنخواہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ ایچ ایس بی سی، ایکسن کیمیکل، اینگرو کا تجربہ سب اپنی جگہ،مگر ملک کی معیشت کیسے چلائی جاتی ہے، یہ ایک مکمل طو رپر الگ شعبہ تھا۔ ’’زمانۂ اپوزیشن‘‘ میں ہی اسد عمر کو عوام کے نجات دہندہ کے طور پہ پیش کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔ وہ بے چارے سیکڑوں دیگر کاروباری افراد کی طرح کے ایک فرد تھے۔ یقینی طور پر اچھے کاروباری اور لین دین کے معاملات کو سمجھنے والے ہوں گے، سرمایہ کاری کے اسرار و رموز سے بھی واقفیت رکھتے ہوں گے، لیکن کیا ضروری تھا کہ وہ ایک اچھے معیشت دان بھی ہوتے؟ کیا یہ لازم تھا کہ اگر انہوں نے آئی بی اے سے گریجویشن کرلی، تو وہ ہر فن مولا ہوگئے کہ ڈھولتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا ان کے علاوہ کسی کے بس میں نہیں تھا۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ وہ ہر ایک کے نعرے کے ضامن بن گئے۔ جس نے جہاں جو نعرہ لگایا، اس کے لیے نظریں اسد عمر کی طرف ہی اُٹھنے لگیں۔ کپتان نے کہا کہ بیرون ملک سے پاکستانی پیسے کی برسات کر دیں گے۔ اب یہ برسات کیسے ہوگی؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ امیدیں اسد عمر سے لگائی گئیں کہ وہ اس بارے میں پالیسی سامنے لائیں گے۔ کیا نعرہ لگانے سے پہلے کسی نے اسد عمر سے پوچھنا گوارا کیا کہ بھئی، بیرونِ ملک پاکستانیوں سے پیسے کیسے ملک میں لائے جا سکتے ہیں؟ ٹیکس اصلاحات سے ملک میں ایک انقلاب آ جائے گا۔ بڑھک ماری گئی۔ اب کسی کو کیا پتا تھا کہ یہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے، ٹیکس اصلاحات ہوں گی کیسے؟ نتیجتاً اسد عمر سے توقع کر لی گئی کہ اس معاملے میں بھی تانے بانے وہی بنیں گے۔ بھئی، آپ نے عوام کی امیدیں بلند کرتے وقت کیا اسد عمر سے پوچھا تھا؟ ایک جانب آپ کرپشن کا رونا روتے ہیں، تو آپ ایک عام سے ذہن والے کاروباری، سرمایہ کاری کا علم رکھنے والے کو پالیسی بھی اپنی مرضی کی بنانے دیتے نا، کہ اس کے سامنے توقعات کے ایسے مینار کھڑے کر دیتے کہ وہ ان میں دب کے رہ جاتا اور عوام کی لعن طعن سنتا۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے کوئی بھی پارٹی حکومتِ وقت کے خلاف جو بھی اعداد و شمار سامنے لاتی ہے، حکومت پاتے ہی اس پارٹی کے لیے انہی اعداد و شمار پہ عمل در آمد کرنا کم و بیش ناممکن ہی ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن میں ہو کے تو عوام کو بے وقوف بنانا (معاف کیجیے گا) عوام سے ووٹ لینا مقصد ہوتا ہے۔ اقتدار کی راہداریوں میں تو اعدادو شمار یکسر مختلف ہو جاتے ہیں۔ عالمی اداروں سے تال میل کیسے ملانا ہے، یہ دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ بجٹ میں کون سا ہندسہ کدھر لے جانا ہے، اس پہ توجہ مرکوز رکھنا پڑتی ہے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے تو اس سب سے گلو خلاصی ہوتی ہے اور صرف دعوے کرنے ہوتے ہیں، جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بھی کیے اور اب ناکامی کا منھ دیکھنا پڑ رہا ہے۔
اسد عمر کوئی پہلے وزیرِ خزانہ نہیں جو ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ دودھ اور شہد کی نہریں اسحاق ڈار، سرتاج عزیز، حفیظ شیخ، شوکت ترین، نوید قمر وغیرہ نے بھی نہیں بہائی تھیں، لیکن عوام نے بھی ان سے امیدیں وابستہ نہیں کی تھیں۔ لیکن اگر ڈار صاحب نے مصنوعی سہارا دیے رکھامعیشت کو، تو آپ بتائیے کہ یہ کیسے ممکن ہوا؟ کیا وہ معیشت بھی کوئی چائینہ میڈ تھی کہ پائیدار نہیں تھی؟
عمران خان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ خود "اپنا آپ” ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کرتے ہوئے دھرنے دیے، نعرے لگائے، چیخے چلائے، پارٹی ترانے گائے لیکن انہوں نے اس وقت میں عملاً کچھ نہیں کیا۔ وہ یورپ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے تھے، لیکن کیا یورپ کی شیڈو کیبنٹ جیسی کوئی چیز عملی طور پر اپنے ہاں نافذ نہیں کر سکتے تھے؟ کیوں وقت سے پہلے ہی اسد عمر کو وزیرِ خزانہ اور عوام کے نجات دہندہ کے طور پہ پیش کیا گیا؟ اور اگر پیش بھی کیا گیا، تو پھر تھوڑا حوصلہ رکھتے۔ مخالفین بھی یہ امید لگا بیٹھے کہ چلیں ایک دفعہ انہیں دیکھ لیتے ہیں، لیکن آپ مخالفین تو دور اپنے حامیوں کو بھی شرمندگی کا شکار کر رہے ہیں۔ ایک جانب آپ کے دعوے تھے، دوسری جانب آج کا عمل ہے۔ دونوں یکسر مختلف کیوں ہیں؟ اسد عمر ناکام نہیں ہوئے۔ حکومت ناکام ہوئی ہے کہ ایسے موقع پر جب آئی ایم ایف سے مذاکرات آخری مراحل میں ہیں، ٹیکس ایمنسٹی سکیم آیا چاہتی ہے، نئے بجٹ میں چند ماہ باقی ہیں، عید کے بعد بلدیاتی انتخابات کا نعرہ لگنے والا ہے (جس کے لیے سرمایہ مہیا کرنا پڑے گا) اور آپ نے اپنے سرخیل کو ہی نکال دیا۔ وہ بھی ایسے لمحے میں کہ ایک جانب اُسے اعتماد دے کے آئی ایم ایف سے مذاکرات کو بھیجا اور دوسری جانب قدموں کے نیچے سے سیڑھی ہی کھینچ لی۔ اسد عمر کا کوئی بھی وزارت لینے سے انکار شاید اسی بات کا غصہ ہے۔
کرکٹ ورلڈ کپ کیلئے ٹیم کے اعلان سے ایک روز قبل بورڈ آف گورنرز میں بغاوت پہ وزیر اعظم نے نوٹس لیا ہے۔ حالانکہ انہیں نوٹس واپس لے لینا چاہیے کہ انہوں نے بھی تو میچ شروع ہونے سے قبل اپنا اوپننگ بیٹسمین نکال دیا ہے۔