جماعتِ اسلامی جو پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی اور انتہائی منظم جماعت ہے اور جس کا اپنا پروگرام اور اپنے اصول ہیں۔ ریاست کے کچھ باشندے اس سے متاثر ہوکر اس میں شامل ہوگئے۔ ایک بے لچک مطلق العنان حکمران کی حیثیت سے والی کسی قسم کی سیاسی سرگرمی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، حالاں کہ 1954ء میں ضمنی ضابطۂ الحاق پر دستخط کرنے کے بعد یہ سرگرمیاں اب شجرِ ممنوعہ نہیں رہیں۔ والی نے خود بیان کیا ہے کہ "سیاست دان یہاں احتجاج کرسکتے ہیں، بلکہ کچھ سیاسی جماعتوں نے ایسا کیا بھی۔” لیکن حقیقت یہ تھی کہ ریاست میں نہ تو اُس نے کبھی احتجاج کی اجازت دی اور نہ ہی سیاسی سرگرمیوں کی۔
جماعت کے بعض ارکان کو سخت تنگ کیا گیا، بلکہ 1952ء میں پنجاب میں آئے ہوئے سیلاب میں مدد دینے کے لیے جب اُس کے ارکان نے فنڈ اکٹھا کرنے کی کوشش کی، تو ان میں سے بعض کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ کچھ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ جماعت اسلامی نے ملک بھر میں مطلق العنانیت کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم چلائی جس نے والی کی پوزیشن کو بہت نقصان پہنچایا۔ جماعت کے گرفتار ارکان کو تو چھوڑ دیا گیا، لیکن عداوت برقرار رہی۔ جماعت اور اُس کے اخبارات نے والی اور ریاست مخالف اپنے پروپیگنڈا کو جاری رکھا حتیٰ کہ ریاست ختم ہوگئی۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 33-232 سے انتخاب)