ریاست سوات دن بہ دن غیرمذہبیت کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ یہ بات کم اہمیت کی حامل نہیں کہ عبدالودود کے اقتدار میں آتے ہی ان کے پہلے اقدامات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اُس نے سارے مذہبی فقیر ریاست سے نکال دیے۔ دیر کے برعکس سوات کے حکمران خاندان نے (جو کہ ایک صوفی بزرگ کی نسل سے تھا) برطانوی حکومت کی زیرِ سرپرستی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہی ریاست کو غیر مذہبی اور مغربی رنگ میں رنگنا شروع کر دیا۔
اِیان اسٹیفنز جب 1946ء میں سوات آیا، تو وہ دیگر علاقوں میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر علاقائی کھانا کھانے کا منتظر تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ کتنا عمدہ ہوگا، لیکن کوئی ایسا کھانا سامنے نہیں آیا۔ بعد میں اپنے ایک اور دورہ کے دوران میں اُس نے اس قسم کے کھانے کے لیے باقاعدہ استدعا کی۔ اس لیے کہ اُسے یقین تھا کہ والی تنہا ہونے کی صورت میں یقیناً مغربی انداز کے کھانے نہیں کھاتا ہوگا۔ شاید ہم کسی دن خالصتاً وہ کھانا کھا سکیں گے جو پٹھان باالعموم کھاتے ہیں۔ تاہم وہ کہتا ہے کہ والی کی خوب صورت پیشانی پر بل آگئے۔ میرے اس انوکھے سوال پر وہ کچھ سٹپٹایا اور احتجاجاً کہا: "لیکن کوئی انگریز، انگریزی کھانے ہی کھانا چاہے گا۔ ہم ان کے لیے باقاعدہ اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ میرے خیال میں تو میرا باورچی انہیں بہترین انداز میں تیار کرتا ہے۔”
عبدالودود کے عہدِ حکومت میں سوات میں سینما کا وجود نہیں تھا۔ ایلیزیبتھ بالنیوز سے کہا گیا کہ والی (باچا صاحب) نے سینما گھر بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ بالنیوز کے مطابق "اُسے اس بات پر کیسے یقین آئے گا کہ وہاں دکھائی جانے والی فلموں سے لوگوں کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟” بالنیوز اس پر اضافہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ "جدید پردۂ سیمیں کے غیر فطری اور مصنوعی ڈرامے اس پُرسکون دور دراز علاقے میں کیوں متعارف کرائے جائیں؟ آدمی ایک جانب اس سخت گیر پالیسی کی تعریف کیے بنا نہیں رہ سکتا کہ کم از کم یہاں تو مقصد سے دیانت دارانہ لگاؤ اور مدبرانہ اخلاقی بلندی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حیرت بھی دامن گیر رہتی ہے کہ یہ مقامی قدیم ثقافت کب تک زندہ رہ سکے گی؟ کیا سوات کے نوجوان مرد و خواتین باہر کی دنیا دیکھ کر واپس آنے کے بعد یہاں کی سست رفتار بے لطف دیہاتی زندگی سے اکتاہٹ کا شکار نہ ہوجائیں گے اور ہمارے اپنے جزیرے کے باسیوں کی طرح پُرتعیش زندگی کی آرزوئیں نہیں کریں گے۔ اور زندگی کی یہ رفتار اُن کے لیے نا قابلِ برداشت نہیں ہوجائے گی؟”
لیکن یہ پابندی برقرار نہیں رکھی جاسکی۔ اپنے باپ کے برعکس میاں گل جہان زیب مغربی طرزِ زندگی، اقدار اور تفریح کا شوقین تھا۔ اُس نے سینما گھروں کی تعمیر کی اجازت دے دی، اس لیے کہ وہ سوات کو پیرس بنانا چاہتا تھا۔ 1965ء تک یہاں دو سینما گھر بن چکے تھے۔ ایک سوات سینما اور دوسرا طارق سینما۔
باچا صاحب کے زمانہ میں کھلے عام شراب پینا ممکن نہیں تھا، لیکن اُس کے اقتدار سے دست بردار ہونے کے بعد حالات بدل گئے۔ حالاں کہ میاں گل جہان زیب نے مقامی طور پر شراب بنانے والوں سے تحریری ضمانتیں لے لی ہیں، کہ وہ آئندہ شراب نہیں بنائیں گے لیکن باہر سے درآمد شدہ شراب کی رسد کھلے عام ہوتی تھی۔ اس کے باقاعدہ ٹھیکے دیے جاتے تھے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سرکاری خزانہ میں اضافہ کا باعث تھی۔ اس تغیر کی تصدیق کے لیے پیٹر مائن کی کتاب دی نیرو سمائل سے مدد لی جاسکتی ہے، جہاں وہ بتاتا ہے کہ اُن کے ساتھ کیا پیش آیا جب باچا صاحب کے دورِ حکومت میں وہ اسمگل شدہ وہسکی کی ایک چسکی لے کر خود کو ڈنر کے لیے بالکل مستعد کرنا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس والی صاحب کے عہد میں اپنی آمد پر اُسے بتایا گیا کہ اُسے ہوٹل میں وہسکی مل سکتی ہے، اگر وہ چاہے، لیکن اُس کی قیمت اُسے خود دینی پڑے گی۔ اس لیے کہ محکمہ مال کی فائل میں وہسکی کے گوشوارہ کا ہونا بہت برا لگے گا۔ جس پر اُس نے ہنستے ہوئے کہا کہ اُس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُسے شراب مل بھی سکے گی۔
عید کا تہوار عورتیں اپنے متعلقہ علاقہ کی زیارت میں مناتی تھیں، لیکن مردوں کے لیے کوئی ایسی جگہ جہاں وہ یہ تہوار منا سکیں، نہیں تھی۔ ریاست کی جانب سے دریائے سوات کے بائیں کنارے پر موجودہ پولیس لائن کے مقام پر ایوب پل کے قریب اس موقع پر ایک میلہ کا اہتمام کیا جانے لگا۔ ریاست کی ہر جگہ سے بلکہ باہر سے بھی لوگ اس میں حصہ لینے کے لیے آتے تھے جہاں ناچ گانے والی لڑکیاں مکمل سرکاری تحفظ کے ماحول میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھی۔
میاں گل جہان زیب نے ناچ گانے کی سرپرستی کرکے اسے باضابطہ بنایا۔ اس پیشہ سے منسلک لوگ کچھ قواعد و ضوابط کے پابند تھے۔ اگر انہیں اپنے فن کے مظاہرہ کے لیے ریاست سے باہر لے جایا جاتا، تو ان کے میزبانوں سے تحریری ضمانتیں لی جاتیں کہ وہ اُن کے ذاتی، مالی اور عزت و وقار کے تحفظ کے ذمہ دار ہوں گے۔ وہ لوگ خود بھی مقررہ قانون نہیں توڑ سکتے تھے۔ ناچ گانے کا یہی شوق تھا جو کہ والی صاحب کی ایک رقاصہ سے شادی پر منتج ہوا۔ اس شادی کے اثرات اور نتائج کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کے کچھ اور ممتاز حیثیت کے حامل لوگ بھی رقاصاؤں کی ناوک اندازی کا شکار ہو کر والی صاحب کی پیروی کرتے ہوئے ان سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔
یہاں پہلے باریش لوگوں کی عزت کی جاتی تھی اور قبائل کے اکثر و بیشتر سربراہ باریش ہوتے تھے۔ والی صاحب ڈاڑھی اور مونچھوں سے نفرت کرتے تھے اور اس کی حوصلہ شکنی کرتے تھے۔ کئی باریش ریاستی ملازمین نے والی کو خوش کرنے کے لیے ڈاڑھیاں اور مونچھیں صاف کرلیں۔ بہت ہی کم استثنائی صورتوں کے علاوہ باریش لوگوں کو سرکاری ملازمت نہیں دی جاتی تھی۔ "پاکستان ٹائمز” میں شائع شدہ یہ بیان مکمل طور غلط نہیں کہ والی کی اجازت کے بغیر کوئی سرکاری ملازم ڈاڑھی مونچھ نہیں رکھ سکتا تھا۔ والی صاحب مغربی طرزِ لباس کے خوگر تھے، اس لیے سارے سرکاری حکام اور طبقۂ خواص میں اسے پذیرائی ملی۔ تاہم فریڈرک بارتھ اس کا بہ نظرِ غائر جائزہ لیتے ہوئے کہتا ہے: "ریاست کے دوران میں سوات میں آنے والے سماجی تغیر کی اٹھان بغیر کسی منصوبہ کے بیرونی اور اندرونی عوامل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی اور یہ جزوی طور پر ریاستی عمل کے ذریعہ سے غیر مطلوبہ نتائج اپنے ساتھ لائی۔” (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 214 تا 215 انتخاب)