پشتو کے مشہور موسیقار و گلوکار استاد رفیق شنواری کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ سنہ 1926ء کو افغانستان کے ننگرہار شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ آپ کی بیوہ ماں آپ اور آپ کے بھائی کو اپنے ساتھ پشاور لے گئی، جہاں سب ایک ساتھ زندگی گزارنے لگے۔
ماں اپنے لختِ جگر رفیق شنواری کو لڑکپن میں ڈبگری بازار کے نزدیک عبدالستار شاہ باچا المعروف باچا جان کے دربار لے گئی اور انہیں باچا جان کے سپرد کرکے واپس گھر گئی۔ بابائے غزل (پشتو) امیر حمزہ خان شنواری اُس وقت دہلی میں تھے۔ وہ بھی باچا جان کے مریدوں میں سے تھے۔ حمزہ شنواری جب اپنے مرشد باچا جان کے حکم پر پشاور واپس چلے آئے، تو مرشد ہی کے کہنے پر رفیق شنواری کے سر پر دستِ شفقت رکھا۔ تربیت کے ساتھ ساتھ حمزہ بابا نے رفیق شنواری کی ایک حد تک لکھت پڑھت میں معاونت بھی کی۔ رفیق شنواری چوں کہ لڑکپن سے موسیقی کے ساتھ خصوصی رغبت رکھتے تھے، بدیں وجہ آپ اپنے مرشد باچا جان کے دربار میں محفلِ سماع میں بھرپور حصہ لیا کرتے تھے۔
پشاور کے مشہور موسیقار استاد نذیر گل جو رفیق شنواری کے ساتھ لمبے عرصہ تک ہارمونیم بجانے کے فرائض انجام دے چکے ہیں، آپ کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ آپ نے موسیقی کے اسرار و رموزسے آگاہی اپنے مرشد باچا جان کے ساتھ حاصل کی اور انہی کی رہنمائی اور دعا سے پشتو موسیقی کے میدان میں نہ صرف دھاک بٹھائی بلکہ نام بھی کمایا۔
استاد نذیر گل کے بقول: ’’باچا جان موسیقی کے اسرار و رموز سے آگاہ تھے۔ چوں کہ رفیق شنواری باچا جان کے بہت قریب رہ چکے تھے اور حضرت آپ کے پیر و مرشد بھی تھے۔ اس لیے موسیقی کے جن راگوں اور سُروں سے باچا جان آگاہ تھے، آپ کو بھی آگاہی دلائی۔ آپ بذاتِ خود موسیقی کا ایک بھی آلہ بجا نہ سکتے تھے، لیکن دھنیں کمال کی ترتیب دیا کرتے تھے۔ آپ باچا جان کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ سیدوں اور بزرگوں کے آستانوں پر پڑے رہتے اور انہی کی دعاؤں سے شہرتِ دوام پائی۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ رفیق شنواری شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ ایک گیت جو قبولِ عام کی سند حاصل کر چکا ہے، آپ نے اپنے مرشد سید عبدالستار شاہ باچا کی محبت میں لکھا تھا، ملاحظہ ہو:
ستا د سترگو بلا واخلمہ، جانانہ زما
وہ د زڑہ قرارہ راشہ، مہربانہ زما
استاد نذیر گل کا کہنا ہے کہ اُس نے رفیق شنواری کے ساتھ تقریباً 30 سال ہارمونیم بجایا ہے۔ اس دوران میں اُن سے بہت کچھ سیکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سدا بہار دھنوں میں پشتو موسیقی کے سامعین اور دھنیں ترتیب دینے والوں کو بہت کچھ دان کیا ہے۔
استاد نذیر گل کے بقول: ’’باچا جان کے دربار میں، مَیں ان کے ساتھ قوالی پیش کیا کرتا تھا۔ بعد میں وہ مجھے اپنے ساتھ ریڈیو لے گئے۔ ٹیلی وِژن اور فلموں میں بھی مَیں نے ان کے ساتھ ہی کام کیا ہے۔ لگ بھگ 30 سال ان کے ساتھ ہارمونیم بجایا ہے، جس پر مجھے بجا طور پر فخر ہے۔ اس بنا پر ببانگِ دہل یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ پشتو موسیقی میں رفیق لالا کا نعم البدل پیدا نہیں ہوسکتا۔‘‘
اس طرح استاد خیال محمد بھی نہ صرف رفیق شنواری کے قریب رِہ چکے ہیں بلکہ ان کی ترتیب شدہ دھنوں پر آواز کا جادو بھی جگا چکے ہیں۔ خاص کر جن فلمی دھنوں کو انہوں نے خیال محمد کے لیے ترتیب دیا تھا، وہ اب تک ہر دو ذکر شدہ شخصیات کو چاہنے والے بھلا نہیں پائے۔
مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق مشہور شاعر امیر غلام صادق کی ’’دیدن‘‘ فلم کے لیے تخلیق شدہ شہرہ آفاق رباعی اور ساتھ ٹپہ دونوں نذرِ قارئین ہیں، ملاحظہ کیجیے:
چی ہر وختی پہ یو حال وی
بیا ئے وگنڑہ چی خدائی دے
او کہ نہ چری انسان وی
کلہ سنگہ، کلہ سنگہ
سوک چی د یار کلی تہ لاڑ شی
او بے دیدنہ تری رازی نو مڑ دی شینہ
گلنار بیگم بھی اپنے وقت کی ان گلوکاراؤں میں سے ایک ہیں، جن کی آواز کا جادو کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے بھی رفیق شنواری کی ترتیب شدہ دھنوں پر اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ جیسے کہ ’’اُوربل‘‘ فلم کا یہ گیت لے لیں:
نن می چی راشی خکلی اشنا
زہ بہ کوومہ ناز او ادا
گوری بہ مینہ مینہ
ما تہ پہ خندا، ہو ہو ماتہ پہ خندا
پشتو کے ایک اور موسیقار اور گلوکار ماسٹر علی حیدر، رفیق شنواری کے فن کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ انہوں نے جتنی کمپوزنگ کی ہے، وہ آج کے گلوکاروں کے لیے کسی مکتب یا اکیڈمی سے کم نہیں۔’’مَیں آج بھی جب ہارمونیم بجانے کے لیے بیٹھتا ہوں اور کوئی دھن ترتیب دینے کی کوشش کرتا ہوں، تو اس پر رفیق لالا کا رنگ غالب دکھائی دیتا ہے۔‘‘
رفیق شنواری نے دوگانے بھی بنائے، جنہوں نے سامعین کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ نمونہ کے طور پر خیال محمد استاد اور ماہ جبین قزلباش کا یہ دوگانا ملاحظہ ہو:
ستا پہ جدائی کی تیر بہ شی وختونہ
مینی د ملنگ کڑم، غواڑمہ خیرونہ
وا ملنگہ یارہ، مہ کوہ غمونہ
سترگی دی کچکول کڑہ، واخلہ دیدنونہ
شاعر، لکھاری اور ریڈیو پاکستان پشاور برانچ کے افسر لائق زادہ لائقؔ اس حوالہ سے کہتے ہیں: ’’یہ پہلے دوگانا نہیں تھا۔ سنہ 1987ء کو مَیں نے اس گیت کو خیال محمد کی آواز میں ریکارڈ کرایا تھا۔ اس کے بول رفیق شنواری نے اس وقت لکھے تھے، جب اُن کے جوان بیٹے غلام علی نے زندگی سے منھ موڑ لیا۔ اپنے جگر گوشے کا غم گویا انہیں کھا گیا۔ بعد میں ٹیلی وژن کے ایک پروگرام کو جلا بخشنے کے لیے ذکر شدہ گانے کو ’’دو گانے‘‘ کا رنگ دیا گیا۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، غلام علی کے بعد رفیق شنواری کے ایک اور بیٹے شفیق شنواری اور پوتے نے بھی یکے بعد دیگرے خودکُشی کی۔‘‘
رفیق شنواری کا گھر ڈبگری سے متصل قبرستان کے ساتھ ہے، جہاں ان کی بیوہ اپنی بیٹی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
رفیق شنواری 19 جنوری 1991 ء کو زندگی کی قید سے آزاد ہوگئے، لیکن پشتو موسیقی سے لگاؤ رکھنے والوں کے نزدیک ان کا فن زندہ ہے۔ جب تک روئے زمین پر پشتو موسیقی کا نام و نشان رہے گا، رفیق شنواری کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
(مشال ریڈیو کی شائع کردہ ہارون باچا کی پشتوتصنیف ’’نہ ھیریگی نہ بہ ھیر شی‘‘سے ’’استاد رفیق شنواری‘‘ کا ترجمہ)
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔