دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جن کے نام سے ان کے خطہ کی پہچان ہوتی ہے۔ سوات میں یہ اعزاز ڈاکٹر دیدار یوسف زئی کو حاصل ہے۔ وہ یقینا سوات کی پہچان ہیں اور عالمی سطح پر دانشوروں اور ادبی، سماجی حلقوں میں سوات کے تعارف کے لیے ان کا نام سند کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میری نیاز مندی اور محبت کا رشتہ قدرتی طور پر ہے۔ آپ ایک سادہ لوح، خوش دل، منکسر المزاج اور نرم خو انسان ہیں۔ آپ کے سینے میں درد بھرا دل ہے، ا س لیے اپنے سے زیادہ دوسروں کے دکھوں اور پریشانیوں کا خیال رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر دیدار یوسف زئی کاشعری مجموعہ ’’شوکانڑے‘‘پڑھنے کو ملا۔ ’’شوکانڑے‘‘ مٹی کے پتھر کو کہتے ہیں۔ یہ شعری مجموعہ304 صفحات پرمشتمل ہے۔ اس کی پروف ریڈنگ ڈاکٹر جمال مراد نے کی ہے جب کہ ناشر سوات کے معروف ادیب، تجزیہ نگار اور سینئر صحافی فضل ربی راہی ؔہیں۔ کتاب کا دلچسپ ٹائٹل کامران ارمان کا بہترین کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر موصوف کی پانچ اورتصانیف بھی منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ ڈ اکٹر صاحب جدید دَور کے ماہر افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی ادبی حلقوں میں جانے جاتے ہیں۔
زبان اور اس کے استعمال کے حوالے سے ہم دو گروپ دیکھ سکتے ہیں۔ ایک وہ جو زبان کو محض اظہار کا ذریعہ سمجھتا ہے اور دوسرا وہ جو اس کو شعری تجربے کا حصہ گردانتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے عہد کے زوال، معاشرتی اور تہذیبی اقدار کے پائے مال ہو جانے کے حوالے سے جو شعر کہے، وہ ان کے معاشرتی شعورکی دلیل ہیں۔ شاعر، حق کا شیدائی ہے۔چوں کہ اس کے ہاں فکری نظام میں فنا کے تصور کو اہم مقام حاصل ہے، لیکن پھر بھی آپ فناہوتے ہوئے حق کا ساتھ دیتے ہیں، کہتے ہیں:
حق وئیل می کاروبار دے کہ ڈیر زڑہ چاؤدنے کار دے
بس پہ دے می زڑہ قرار دے، کہ ڈیر زڑہ چاؤدنے کار دے
اگرچہ ڈاکٹرصاحب بنیادی طور پر ایک عام انسان ہیں، وہ عام انسانوں کی طرح جیتے ہیں، عام انسانوں کی طرح گزر بسر کرتے ہیں، تاہم ان میں عشق کا رنگ معروف شاعر میر تقی میرؔ کے عشق کی طرح عیاں ہے۔ جمال، محبوب کی رعنائی اور دل کشی ان کے دل میں حسرتِ وصال و ہم آغوشی کی آگ بھڑکا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں وہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو کر خیالِ محبوب کے دامن میں پناہ لیتے ہیں۔
چی زہ گل نہ کڑمہ د حال اننگی
نو ثہ بہ خکل کڑمہ د خیال اننگی
ثومرہ خواگہ شو دَ دیدار ؔ پہ خُوَگو
راشہ کہ گورے دَ وصال اننگی
پاکستان سے جاکر کینیڈا میں آباد ہو نے والے ڈاکٹر دیدارؔ یوسف زئی وہاں نہ صرف ڈاکٹر ہیں بلکہ پختون جرگہ کینیڈا میں پشتو زبان کی آبیاری بھی کررہے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کی آنکھیں اور کان نہ صرف اپنے خطے کے لیے کھلے ہیں بلکہ پوری دنیا کی تکالیف کودیکھتے اور محسوس بھی کرتے ہیں۔ کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر دیدارؔ کو ذرائع ابلاغ و اطلاعات عام آدمی کے مقابلے میں زیادہ اور بہتر طور پر میسر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں سب کچھ صاف نظر آتا ہے۔ پشتون معاشرہ میں اسے امن تباہ نظر آتاہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں:
امن بانگ دَ خائستونو دَ جمات دے
ولے قات دَ پختنو پہ مضافات دے
امن سہ دے خو قبلہ دَ سل بتانو
سجدہ ریز پکے ہر بت دَ سومنات دے
امن زور دَ زورہ ورو دے دیدارہؔ
زور دَ برخی چا موندلے پہ خیرات دے
ڈاکٹر دیدار ؔ کی زندگی میں نشاط انگیز لمحات بہت کم آئے ہیں۔ ان کا قدم قدم پر درد و غم سے واسطہ پڑا ہے۔ دیدارؔکا غم بہروپ بدلنے کا ماہر ہے۔ کبھی ناکامیِ عشق کے نتیجے میں یہ اشکوں کی صورت میں پلکوں پر رقص کرنے لگتا ہے، تو کبھی حوادثِ زمانہ کا ردّ عمل بن کر آہوں کے دھوئیں میں ڈھل جاتا ہے۔ کبھی شبِ فراق کے سکوت میں چیخ بن کر گونجنے لگتاہے، جب کہ کبھی حزنیہ اشعار کا روپ دھار لیتا ہے۔
ان کے درج ذیل اشعار کے آئینے میں ان کے غم کے نقش ملاحظہ ہوں:
سہ یے کوؤم زہ کہ دنیا ورانہ شی
ورانہ بہ نورہ سہ پہ ما ورانہ شی
دیدارہؔ مالہ یے غم نوے نہ دے
دَ صبا ورانہ کہ بیگا ورانہ شی
یا یہ کہ
دَ بارودو اژدھا می گُل دَرے خوری
دا قیصے قیصے وطن رانہ قیصے خوری
دَ مرگونو سور سیلاب پہ مخہ یوڑل
پُختانہ پہ خپلو وینو کے غُوپے خوری
شاعری محض اپنا دکھڑا سنانے کا ذریعہ نہیں۔ اس کے ذریعے شاعر عوام میں تحریک پیدا کرتا ہے۔ یہ تحریک ایک طرف اگر عمل کاپیغام دیتی ہے، تو دوسری طرف لوگوں کوعمل کی طرف راغب بھی کرتی ہے۔دیدارؔ کی شاعری محبت کو عام کرنے کے لیے ہے۔ ان کے ہاں غم کے ساتھ خوشی کا پیغام بھی ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں نئی صبح کی نوید بھی سنائی دیتی ہے۔ ان کے ہاں اگر غم ہے، تو خوشی بھی ہے۔ آج غم ہے، تو کل خوشی ہے۔ ان کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ امن آئے گا اور ساتھ خوش حالی بھی لائے گا۔ کیوں کہ ظلم کی رات خواہ جتنی بھی لمبی ہو،صبح ضرور ہو جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
کہ مو لمحہ لمحہ پہ دار دَ ژوندانہ تیریگی
خو تورہ شپہ تیریگی سحر نزدے دے
گڑئی گڑئی کہ مو دَ سر پہ تاوانہ تیریگی
خو تورہ شپہ تیریگی سحر نزدے دے
ڈاکٹر صاحب اپنے غم کا تذکرہ اپنے اشعار میں کرتے ہیں۔ وہ سوات پر ڈھائے جانے والے مظالم نہیں بھولتے، ان کو یہاں کی تباہی و بربادی کے مناظر اب بھی ستاتے ہیں۔ انہیں لوگوں کے چہروں پر اداسیاں یاد ہیں ۔ جنتِ نظیر وادئی سوات پر جنگ کے منڈلاتے بادل انہیں اب بھی یاد ہیں۔ وقت کے فرعون کے مظالم تلے ظلم سہنے والے سوات کے بیچارے باسیوں کی بھیگی آنکھوں کا سماں اس کا دل پارہ پارہ کرتا ہے اور وہ اچانک چیخ اٹھتے ہیں:
مونگ چی پہ سرو سترگو ژڑل دَ وُریت وطن غمونہ
چا بہ مو زڑونہ ماتول چا بہ مو خلے ماتی کڑے
سحر پاٹک، غرمہ مورچے، ماخام سوکئی تہ ولاڑ
زنزیر زنزیر قدم زمونگہ دَ ژوند خپے ماتی کڑے
ورور می ٹوپک پلار می چاؤدنی زوئی خودکش وژلے
دے غبرگو غبرگو جنازو رالہ اوگے ماتی کڑے
دیدار ؔ ایک حساس دل رکھنے والے شاعر ہیں، جنہوں نے ایک طرف سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انصاف مانگا ہے، تو دوسری طرف امن اور خوشحالی کا پیغام بھی دیا ہے، کہ حالات ایک جیسے نہیں ہو تے۔ امن آئے گا، خوشحالی آئے گی۔ اپنے وطن کے لیے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، لیکن ان کے لہجے میں اب بھی زندگی باقی ہے۔وہ سسکیاں لیتے ہیں لیکن ان سسکیوں میں بھی وہ ’’دھرتی دھرتی‘‘ کی آواز سنائی دیتی ہے۔
قصہ مختصر ’’شوکانڑے‘‘ان کی بہترین کاوِش ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہو گی۔ شعیب سنز پبلشرزاینڈ بک سیلرز جی ٹی روڈ مینگورہ سوات سے بعوض 350 روپیہ دستیاب ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ انہیں ادب کی خدمت کے لیے ہمیشہ تروتازہ رکھے، آمین!
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔