آپ مسلمانوں کے زوال کا رونا رونے سے پہلے انقلابِ ثور کے بعد کا ایک معمولی سا واقعہ جب رُوسی بربریت کا آغاز ہوچکا تھا، ملاحظہ فرمائیے اور پھر دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے کہ ہم جو ’’رُوبہ زوال‘‘ ہیں، کیا اپنی غلطیوں کی وجہ سے نہیں؟
شہرِ کابل ایک ویران اور لٹے پٹے شہر کا منظر کچھ اس انداز سے پیش کر رہا تھا، گویا یہ اَصفہان یا انقرہ ہو اور ابھی ابھی امیر تیمور کے حیوان نما سپاہی سب کچھ تاراج کرکے جاچکے ہوں۔ کہر اور ویرانی کے گٹھ جوڑ سے چہار سو ڈر کے مہیب سائے پھیل چکے تھے۔ ڈر تھا تو صرف موت کا اور گھبراہٹ تھی، تو صرف زندگی کے کھو جانے کی۔ لیکن اس کے باوجود ایک ٹیکسی ڈرائیور چار سواریوں کے ساتھ منزل کی جانب عازمِ سفر تھا۔ کچھ دیر سفر کے بعد دُور اُس کو رُوسی فوج کا ایک قافلہ ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں سمیت نظر آیا۔ اس ڈر سے کہ کہیں اشتراکیت کی گود میں پلنے والے یہ بے لگام اور ظالم فوجی ان کو روند نہ ڈالیں، اُس نے اپنی ٹیکسی ایک سائیڈ پر کھڑی کر دی، تاکہ فوجی قافلہ گزر جائے، لیکن اُس کی یہ غلط فہمی جان لیوا ثابت ہوگی، اُس کو بالکل پتا نہ تھا۔ بجائے اس کے کہ فوجی قافلہ آرام سے گزر جاتا، ایک پاگل فوجی نے قصداً اپنے ٹینک کا رُخ اس کی گاڑی کی طرف موڑ دیا اور گاڑی سمیت اندر موجود پانچ انسانوں کو کچل کر رکھ دیا۔ وہاں پر موجود لوگوں نے سراسیمگی کی حالت میں گاڑی کی طرف دوڑ لگا دی اور یہ دیکھ کر اُن کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی کہ اندر صرف خون اور انسانی گوشت کے چیتھڑے پڑے ہوئے تھے۔ بپھرے ہجوم نے رُوسی فوجی سے احتجاج کیا جس پرمذکورہ فوجی ٹینک سے باہر آیا اورہتک آمیز قہقہہ لگا کر کہنے لگا: ’’ہمارے بیس تیس لوگ روزانہ مارے جاتے ہیں، ہم نے تو کبھی احتجاج نہیں کیا۔ ایسے میں اگر آپ کے چار پانچ آدمی مر گئے، تو کون سی قیامت آگئی؟‘‘ احتجاج کرنے والوں کو غصہ آگیا اور وہ سیدھا کابل کے مقامی پولیس سٹیشن میں پولیس افسر صمد اظہر کے پاس شکایت درج کرنے پہنچ گئے۔ انہوں نے جیسے ہی ہجوم کی زبانی اس ظلم کی داستان سنی، تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ کرسی پر براجمان ہوکر انتہائی پُرسکون انداز میں کہنے لگا: ’’دیکھئے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہاں روزانہ لوگ مرتے ہیں۔ آپ لوگ جذباتی نہ ہی بنیں، تو ٹھیک ہوگا۔ کیوں کہ اس سرزمین پر اگر ہمارا بھلا سوچنے والے ہمارے رُوسی دوست ہماری ہٹ دھرمی، جہالت اور شدت پسند رویے کی وجہ سے روزانہ مرتے ہیں، تو میرے خیال میں یہ اتنے اچھنبے کی بات نہیں۔ اگرآج آپ کے سامنے چند افغانی مرگئے، تو کون سی قیامت آگئی؟ ہماری ترقی کے لیے وہ لوگ اَربوں روپے خرچ کر رہے ہیں اور ہم ان کی اتنی معمولی سی غلطی بھی معاف نہیں کرسکتے؟ آپ لوگ نکل جائیے، اور دوبارہ میرے دفتر کا رُخ نہ کریں۔‘‘
قارئین، یہ اپنی نوعیت اور ایک مسلمان کی کم ظرفی کا ایک معمولی سا واقعہ تھا۔ ہم اگر افغانستان کی صرف بیسویں صدی کی تاریخ بھی پڑھ لیں، تو ہمیں دو انتہائی اہم سبق ملیں گے۔ پہلا، اس سرزمین پر امان اللہ خان سے لے کر ببرک کارمل تک جتنے بھی نام نہاد مسلمان حکمران آئے، انہوں نے اپنی سرزمین پر اپنے ہی لوگوں کا خون بہایا۔ سوویت یونین کبھی اتنی آسانی سے شائد افغانستان پر حملہ آور نہ ہوتا، اگر مسلمان حکمران ان سے غیر ضروری پینگیں نہ بڑھاتے۔ سوویت یونین اور برطانیہ دونوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایسے ایسے کھیل کھیلے گئے کہ جن کی وجہ سے اس ملک نے بھی شائد ہزار چیخیں ماری ہوں گی۔ ہم اگر ظاہر شاہ اور سردار داؤد کو چھوڑ کر مذکورہ ملک کے صرف تین کردار نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین اور ببرک کارمل کی زندگی کا تھوڑا سا بھی مطالعہ کرلیں، تو ہماری حیرانی بے جا نہ ہوگی۔ کیوں کہ ان تینوں نے سوویت یونین کی خواہش پر اپنے ملک کے معصوم لوگوں کا خون پانی کی طرح بہایا اور پھر جیسا کہ ہمیشہ سے غداروں کے ساتھ ہوتا آیا ہے، اُن کو بھی استعمال کرنے کے بعد ’’ٹشو پیپر‘‘ کی طرح پھینک دیا گیا۔
دوسرا سبق، مسلمان حکمرانوں نے ’’اَنارکی‘‘ کے دور میں کبھی ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کیا ہے اور نہ ایک دوسرے کی مدد ہی کی ہے۔ سردار داؤد ہمیشہ پاکستان کا مخالف رہا، لیکن جب اس کو اس بات کا یقینی پتا چلا کہ سویت یونین اور افغان تھنک ٹینکس اس کو مزید رکھنے پر تیار نہیں، تو پھر اس نے مجبوراً پاکستان کا دورہ کیا اور تعلقات صحیح ڈگر پر استوار کرنے کی ناکام کوششیں کیں۔
اسلامی تاریخ کا یہ نوحہ صرف افغانستان تک محدود نہیں، بلکہ جب بھی حکمرانوں نے ذاتی فائدے کو اجتماعی فائدے پر ترجیح دی ہے، تو تباہی مقدر بنی ہے۔ ہم اپنی آسانی کے لیے اسلامی تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک قرون اولی کا دور، دوسرا صلیبی جنگوں کا دور اور تیسرا یہ ہمارا دور۔ ان تین ادوار کا اگر ہم سرسری جائزہ لیں گے، تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ یونانیوں، یورپیوں اور ہندوؤں سے زیادہ مسلمانوں نے اقتدار کی خاطر دین و دنیا دونوں کو داؤ پر لگایا۔ کیا یہ ہماری تاریخ نہیں کہ جب بنو امیہ کے دور کا خاتمہ ہوا، تو بنو عباس نے ان کو قبروں سے نکال کر جلایا تھا؟ کیا بنو امیہ کے دور میں کربلا کا دل سوز واقعہ اقتدار کے لیے نہیں ہوا تھا؟ کیا اسی دور میں مدینہ منورہ کا محاصرہ اور بعد میں اس پر حملہ نہیں کیا گیا تھا؟ کیا جنگ صفین ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب نہیں؟
بنو عباس کے بعد خلافت جب ترکوں کے ہاتھ میں آگئی، تو عروج تو بہت ملا لیکن زوال کی تاریخ بھی اگر ہم پڑھ لیں، تو فکر کے بحرِ بیکراں میں پڑ جائیں گے کہ کس طرح ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ نے تن تنہا پوری خلافت (جس میں بایزید یلدرم، سلطان مراد اور سلطان محمد فاتح جیسے خلفا گزرے تھے) کا خاتمہ کردیا۔ ہم اگر غلطیاں نہ دہراتے، تو کیا چنگیز خان اور ہلاکو خان میں اتنی ہمت ہوسکتی تھی جتنی ہمت انہوں نے دکھائی؟ بغداد کی لائبریریوں سے اٹھنے والا دھواں کون بھلا سکتا ہے؟
جنگِ پلاسی میں انگریزوں کی جو فوج نواب سراج الدولہ کے مقابلے کے لیے نکلی تھی، اُس کی کل تعداد تین ہزار تھی جس میں صرف پانچ سو انگریز تھے جب کہ باقی ہندوستانی۔ اور اس میں بھی زیادہ تعداد مسلمانوں ہی کی تھی۔ ہم تاریخ کے ان صفحات میں میر جعفر کو کیسے بھلا سکتے ہیں؟ جس کی وجہ سے نواب کو شکست ہوئی۔ وہ میر جعفر کے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا اور پھر اسی غدار نے بنگال میں کلائیو کا استقبال کیا۔ ٹیپو سلطان بھی اسلامی تاریخ کے ماتھے کا جھومرتھا، لیکن 1799ء میں میر صادق کی غداری کی وجہ سے شکست کھا گیا اور اسی وجہ سے انگریزوں کے راستے سے ساری رکاؤٹیں ختم ہوگئی تھیں۔ مغل کا زوال کیا بہت بڑا المیہ نہیں تھا اور کیا اس وقت ساری غلطیاں مسلمانوں سے نہیں ہوئی تھیں؟
ہم بیسویں صدی میں لیبیا کے عمر مختار کا بھی جب مطالعہ کریں گے، تو پریشانی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ کیونکہ اُس نے تنِ تنہا اطالوی فوج کو اتنا تنگ کر رکھا تھا کہ اس کے دن کا چین اور رات کی نیند اُڑ گئی تھی، لیکن پوری دنیا کے مسلمان صرف اس کی بہادری پر واہ واہ کرتے رہے اور اس کے مجاہدین کٹ مرتے رہے۔
اگر تاریخ کے یہ سارے تلخ حقائق غلط ہیں، تو پھر چنگیز اور ہلاکو خان کے مظالم کے سامنے بندھ کیوں نہیں باندھا گیا؟ بغداد کی لائبریریاں کیوں جلائی گئیں؟ امیر تیمور جیسے برائے نام مسلمان نے کیوں مسلمان ہوکر لاکھوں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا؟ مغلوں پر زوال کیوں آیا؟ ایسٹ انڈیا کمپنی کیوں اپنے عزائم میں کامیاب رہی؟ ریڈ کلف خط کیوں جانب دار رہا؟ مجیب کے چھے نِکات، اگرتلہ سازش، سقوطِ ڈھاکہ اور ان جیسے بہت سارے واقعات کیوں پیش آئے؟ پاکستان کیوں روزِ اول سے مسائل میں گھرا ہوا ہے؟ عبرت کہاں کہاں مل سکتی ہے تاریخ کے ان صفحات میں؟ بس ڈھونڈتے رہیے! اگر ملے، تو صفحات سے اٹھا کر تاریخ کے کوڑادان میں پھینک دیجیے، کیوں کہ عبرت لینے والے کوچ کرگئے ہیں۔

………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔