ملم جبہ اراضی کیس، اصل معاملہ کیا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کی گذشتہ صوبائی حکومت کی جانب سے سوات کے سیاحتی مقام ملم جبہ کے ماتھے کا جھومر جسے عرف عام میں ’’ملم جبہ ٹاپ‘‘ کہا جاتا ہے، کی 275 ایکڑ محکمۂ جنگلات کی اراضی سیمسنز گروپ آف کمپنیز لاہور کو گذشتہ حکومت میں تینتیس سال کے عرصے کے لیے لیز پر دی گئی۔ قانون کے مطابق سیمسنز کمپنی کو ہوٹل، چیئر لفٹ اور سکینگ کے لیے محکمۂ جنگلات کی مجموعی طور پر سترہ ایکڑ زمین دینا تھا۔ اس میں پانچ ایکڑ ہوٹل اور باقی ماندہ سکینگ اور چیئر لفٹس کی تنصیب کے لیے مختص تھی۔ قانون کے مطابق اس معاہدہ کی میعاد پندرہ سال طے تھی۔ یہاں خیبر پختونخوا کی اُس وقت کی حکومت نے دو بڑی خلاف ورزیاں کیں۔ پہلی یہ کہ 17 ایکڑ کی بجائے 275 ایکڑ زمین لیز پر دی گئی، حالاں کہ محکمہ ٔجنگلات کی اراضی کسی صورت دیگر استعمال کے لیے نہیں دی جاسکتی۔
دوسری، اس وقت کی حکومت نے معاہدہ کی میعاد 15 سال سے بڑھاکر 33 سال اور پھر اس میں 20 سال توسیع کی منظوری دی۔ اس حوالہ سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ معاہدے سے پہلے دیگر کمپنیوں نے بھی بولی میں حصہ لیا تھا جن میں بعض کمپنیز سیمسنز گروپ سے بہتر بتائی جا رہی تھیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ سیمسنز گروپ کے پاس مطلوبہ اہلیت اور تجربہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود کمپنی کو نوازا گیا۔ مذکورہ معاہدے کے حوالے سے احتساب کمیشن کے سخت ایکشن اور تحفظات سامنے آنے کے بعد اس وقت کی وزیر اعلیٰ انسپکشن ٹیم نے بھی اسے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ جنگ اخبار کی ایک خبرکے مطابق محکمۂ ماحولیات، جنگلات اور وائلڈ لائف کے معاہدے پر اعتراضات کے باوجود حکومت نے کسی بھی محکمے کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ خطیر رقم کے ضیاع کے بعد احتساب کمیشن پہلے عملی طور پر غیر فعال اور اَب مکمل طور بند ہوچکا ہے اور وزیر اعلیٰ انسپکشن ٹیم کی رپورٹ بھی ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگئی ہے۔
اب خبروں کے مطابق قومی احتساب بیورو نے موجودہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا جو اس وقت وزیرِ سیاحت تھے، کے ساتھ صوبائی وزیر عاطف خان اور سنیٹر محسن عزیز کو اسی ماہ طلب کیا ہے۔ اس سے پہلے نیب نے سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو بھی اسی کیس میں طلب کیا تھا۔ نیز سیکرٹری سیاحت کے پی اعظم خان بھی اس کیس میں طلب کیے جاچکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے اُس وقت نیب کی جانب سے دیے گئے سوالنامے کا باقاعدہ جواب دیا تھا۔ تب سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا مؤ قف تھا کہ’’ ملم جبہ اراضی والئی سوات نے گفٹ کی تھی جو وفاق سے محکمۂ سیاحت کو ملی ہے۔‘‘
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ والئی سوات نے اگر اتنی قیمتی اور اہمیت کی حامل اراضی تحفے میں دی تھی، تو کیا اس تحفہ کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیا جانا چاہیے؟ دنیا کے کئی ممالک کا انحصار سیاحت کی انڈسٹری پر ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں نہ سیاحت کی قدر کی جارہی ہے اور نہ اتنی قیمتی اراضی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کرپشن کے سب سے بڑے مخالف اور اس پر سیاست کرنے والے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین وزیر اعظم عمران خان اس معاملے پر روزِ اول سے ہی چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔

نیب نے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو بھی اسی کیس میں طلب کیا تھا۔

ملم جبہ ایک ایسے علاقے کا سیاحتی مقام ہے جسے طالبانائزیشن اور قدرتی آفات نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ وادی آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑے ہونے کی راہ پر ہے، لیکن اب سوات ہی کے اُس وقت کے وزیرِ سیاحت محمود خان کے متعلق خبریں سامنے آنے کے بعد یقینا یہاں کے لوگوں میں مایوسی کی لہر دوڑ چکی ہے۔ ملم جبہ کی سیاحت ایک طرح سے تباہ ہوچکی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ حکومت میں اس کی سڑک کی تعمیر کا ٹھیکا امیر مقام کو ملا تھا، جس میں کئی مسائل نے جنم لیا۔ حکومت نے بعض تحفظات کا اظہار کرکے امیر مقام کی کمپنی کو فنڈز دینا بند کردیا اور یوں سڑک کی تعمیر کا معاملہ لٹک گیا۔ اِس حوالہ سے اُس وقت کے وزیرِ کھیل و ثقافت محمود خان کا کہنا تھا کہ ’’صوبائی حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے ملم جبہ سڑک کے تعمیراتی کام کی خاطر 63 کروڑ روپے کا فنڈز منظور کیا ہے اور ملم جبہ سڑک پر کام شروع کردیا گیا ہے، لیکن بد قسمتی سے تعمیراتی کام کا ٹھیکا انجینئر امیر مقام اینڈ کمپنی نے حاصل کرلیا ۔چوں کہ ہماری حکومت میرٹ پر ٹھیکے دیتی ہے، اس لیے بولی میں امیر مقام کو یہ ٹھیکا مل گیا۔ اُنہوں نے پہاڑی کی غیر ضروری کٹائی کی اور بعد میں کام بھی بند کردیا،جس پر ہم نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ہمیں بعد میں پتا چلا کہ ٹھیکیدار نے غیر قانونی کام کیا ہے۔‘‘
سڑک کی تعمیر اور سیمنز گروپ اراضی کیس کے علاوہ یہاں کی اکثر اراضی سیکورٹی فورسز کے زیرِ استعمال ہے۔سیمسنز گروپ نے کاروباری مقاصد کے لیے پہلے سے ہی ملم جبہ ٹاپ کو عام فرد کی دسترس سے دور کردیا ہے۔ مذکورہ کمپنی نے یہاں مقامی افراد کے روزگار پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مقامی افراد کے داخلے پر بھی ’’انٹری‘‘ کے نام سے ’’ٹیکس‘‘ لگایا جا چکا ہے۔ اتنی اہمیت کے حامل سیاحتی مقام کو لے کر حکومت کی غیر سنجیدگی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی کو مسلسل دو انتخابات میں بھاری اکثریت دلانے والے سوات کو خصوصی توجہ دی جاتی۔ وزیر اعلیٰ سوات سے ہیں، اس وقت کے وزیر سیاحت سوات سے تھے، لیکن سوات کی محرومی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ وزیر اعظم، سابق اور موجودہ وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ وہ اہلِ سوات کو جواب دیں کہ آخر سوات کو لے کر کیوں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا؟ آخر کیوں سوات کے جنگلات ایک دوسرے کو خوش کرنے کی نذر کیے جا رہے ہیں، کیوں یہاں سیاحت کی صنعت کو تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے؟

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔