پوائنٹ آف نُو ریٹرن اور یُوٹرن

جمہوریت کا خاصا ہی یہی ہے کہ تمام معاملات باہمی افہام و تفہیم سے چلائے جاتے ہیں۔ اس نظام کی خوبصورتی دیکھئے کہ اس میں مختلف اہم تعیناتیوں کے لیے اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے جیسے ’’پبلک اکاؤنٹس کمیٹی‘‘ کی چیئرمین شپ کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ اس میں حکومت واضح طور پر اپنی منوا تو سکتی ہے اور اگر اکڑ برقرار رہے، تو یقینی طور پر تعیناتی بھی حکومت کی مرضی سے ہی ہوگی، لیکن اس کمیٹی کا انتظا م و انصرام سنبھالنے کے لیے شخصیت کا انتخاب آج تک باہمی گفت و شنید کے بعد ہی کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت پورے ملک میں جس ادارے کا توتی بول رہا ہے وہ ہے نیب۔ ملاحظہ کیجیے کہ نیب چیئرمین کی تعیناتی کسی بھی طور پر حکومت اور اپوزیشن کی باہمی رضامندی کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اور اگر باہمی رضامندی نہ ہو، تو معاملات مزید پیچیدگی کی طرف جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال دیگر اہم اداروں کا ہے۔ جمہوریت میں مؤقف میں لچک یا نرمی اسی طرح لازم ہے جس طرح پیاسے کے لیے تپتے صحرا میں پانی۔ اور مؤقف میں لچک نہ دکھانے پہ معاملات ایسے نہج پہ پہنچ جاتے ہیں، جہاں سے ان کو واپس لانا قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔ جمہوریت میں ہم اکثر سنتے آئے تھے کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پہ پہنچ گئے، یعنی جہاں سے واپسی کی امید باقی نہ رہی، لیکن اب کچھ عرصے سے اس سے ملتا جلتا ایک اور لفظ یا اصطلاح کا سیاسی ڈکشنری میں اضافہ ہو گیا ہے جو ’’یوٹرن‘‘ کہلاتا ہے۔
عمران خان سے ہزار اختلافات سہی، لیکن کوئی شک نہیں کہ ان کو وقت یقینا دینا چاہیے اور دیا بھی گیا۔ اخبارات کا مطالعہ مستقل بنیادوں پر کرنے والے جانتے ہیں کہ ان کے شدید ترین ناقدین نے بھی پہلے سو دنوں میں ان پہ ہاتھ ذرا ہولا ہی رکھا ہے، لیکن صورت حال اس کے باوجود خرابی کی طرف کیوں جا رہی ہے؟ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ عمران خان نے پوری انتخابی مہم میں دعوے ایسے کیے کہ جن سے ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ کا تاثر عوام کے ذہنوں میں پختہ ہوتا چلا گیا۔ کرپشن کے خلاف جنگ بنا کسی وابستگی کے ہوگی، قرض لینے کے بجائے ہم قرض واپس کریں گے، عالمی پاکستانی ماہرین کو وطن لائیں گے اور ان کی خدمات سے استفادہ کیا جائے گا، کسی دوستی یا رشتہ داری کی بنیاد پہ تعیناتیاں نہیں کی جائیں گی۔ یہ تمام معاملات ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ کی نشان دہی کرتے تھے کہ کسی قسم کا کوئی سمجھوتا ایسے دیگر معاملات میں بھی نہیں کیا جائے گا۔ ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ عام فہم میں یہی ہے کہ جس پہ سمجھوتا نہ کیا جائے۔ ماضی میں انتخابی اصلاحات اور چیئرمین نیب کی تعیناتی کے وقت عام پاکستانی کو بھی یاد ہوگا کہ اپوزیشن کی بڑی پارٹی نہ ہونے کے باوجود تحریک انصاف سے مشاورت کی گئی تھی۔ جب کہ اس دفعہ معاملات مزید گھمبیر اس لیے ہوتے جا رہے ہیں کہ وفاق میں پاکستان مسلم لیگ نواز اس وقت اپوزیشن کی کرسی پہ براجمان ہے جب کہ جو مؤقف عمران خان ’’پبلک اکاؤنٹس کمیٹی‘‘ کی چیئرمین شپ پہ اختیار کر چکے ہیں، اس میں ان کے حواری آئے دن کی پریس کانفرنسز سے یہ تاثر دے چکے ہیں کہ اس حوالے سے معاملات ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پہ پہنچ چکے ہیں کہ کسی صورت شہباز شریف کی تعیناتی نہیں کی جائے گی۔ کیوں کہ ن لیگ کے ساتھ تحریک انصاف کا بیر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، جیسا کہ ماضی میں خورشید شاہ اور چوہدری نثار بطورِ اپوزیشن لیڈر سربراہی کر چکے ہیں، لیکن معاملات ’’نو ریٹرن‘‘ پہ لے جانے کے بجائے اپوزیشن جماعت سے کسی ایسے نام پہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی بھی کوشش کی جا سکتی تھی، جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ بجائے اس کے کہ شہباز شریف کے نام کو ہی ’’میں نہ مانوں‘‘ کی عملی تفسیر بنا دیا جاتا۔ جمہوریت مثبت ’’یو ٹرن‘‘ کو اپنا حسن بنا لیتی ہے اور معاملات کو ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پے لے جانا جمہوریت کا خاصا نہیں، لیکن حکمران جماعت شاید اپنی مرضی کے معاملات پہ ’’یوٹرن‘‘ اور جو پسند نہیں وہاں معاملات ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پہ لے جا کر اپنی طاقت دکھانا چاہتی ہے کہ ہم یہ بھی کرسکتے ہیں، لیکن حیرت اس بات پہ ہے کہ جس طرح ہٹلراور نپولین بونا پارٹ کو یو ٹرن نہ لینے پہ طعنے دیے جا رہے ہیں،، تو خود نہ جانے کون سے بوٹی کھا بیٹھے ہیں کہ معاملات کو ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پہ لے جا رہے ہیں۔ صرف جہاں مفادات وابستہ ہیں، وہاں تو آپ ’’یوٹرن‘‘ لے رہے ہیں، لیکن جہاں بات تبدیلی کی ہے، وہاں مستقلاً ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیوں؟
کابینہ کا سائز کم، عہدوں کی بندر بانٹ نہ ہونا، عزیز و اقارب کی تعیناتیاں نہ ہونا، قرض کا مزید تقاضا نہ کرنا، پاکستانی ماہرین کی دنیا سے پاکستان آمد، واضح معاشی ایجنڈا، بڑھتی ہوئی غربت کا خاتمہ، کم آمدنی والے افراد کا معاشی تحفظ، سرکاری ملازمین کا معیارِ زندگی بلند کرنا، نجی شعبے میں مواقع پیدا کرنے کے لیے اقدامات، کاروباری افراد کو پاکستان میں سرمایہ کاری پہ قائل کرنا، عوام دوست بجٹ کی تیاری، مفت علاج کی سہولت، مفت تعلیم کی فراہمی، نچلی سطح سے لے کر اوپری سطح سے کرپشن کا خاتمہ، کرپشن کے خلاف غیر جانب دارانہ جنگ، انتقامی کارروائی نہ ہونا جیسے معاملات اور اسی طرح کے دوسرے بہت سے معاملات پہ تو آپ نے ’’یو ٹرن‘‘ لے لیا، لیکن ملک میں سیاسی استحکام، باہمی مشاورت سے مسائل کا حل، غیر جانب دارانہ احتساب کا عمل، مختلف اہم عہدوں پر تعیناتیاں، ایوان میں وزرا کا رویہ، وزیر اعظم کی ایوان میں حاضری، وزارتوں پہ براجمان حضرات کے لفظی نشتر، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تعیناتی وغیرہ جیسے معاملات میں نہ جانے آپ معاملات کو ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ کی طرف کیوں لے جا رہے ہیں؟ جہاں آپ اپنے وعدوں سے پھریں، وہاں تو آپ ’’یو ٹرن‘‘ کو راہنما کی پہچان سمجھیں، لیکن جہاں آپ ہٹ دھرمی سے معاملات کو ’’نو ریٹرن‘‘ پہ لے جائیں، وہ آپ کا اُصولی مؤقف ہوگیا۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ پہلی صورت کو درست جانیں یا دوسری صورت پہ یقین کریں؟ معاملات سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ اور ’’یو ٹرن‘‘ میں فرق جاننے کے لیے بھی راہنمائی لینی پڑئے گی۔

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔