سیدو شریف

سیدو شریف سوات کا جدید ترین چھوٹا سا شہر ہے جو مینگورہ سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیدو شریف مینگورہ کے ساتھ کچھ اس طرح سے جڑا ہوا ہے کہ دونوں کا تعین کرنا بہت مشکل ہے بلکہ مینگورہ اور سیدو شریف بالکل دوجڑواں شہر معلوم ہوتے ہیں، تاہم مینگورہ کا خوب صورت اور کشادہ گراسی گراؤنڈ دونوں شہروں کے مابین مرکزِ اتصال تصور کیا جا سکتا ہے۔

گراسی گراؤنڈ کا ایک من بھاتا منظر۔ (فوٹو: کامران کامی)

1957ء میں جب پہلی دفعہ وادئی سوات میں بلدیہ وجود میں لائی گئی، تو مینگورہ اور سیدو شریف دونوں کو ایک ہی بلدیہ کی حدود میں شامل کرلیا گیا جس کے بعد دونوں شہروں کانظم و نسق، تزئین و آرائش اور صفائی کا سارا انتظام بلدیہ ہی انجام دیتی آرہی ہے۔
ریاستِ سوات کے پاکستان میں ادغام کے بعد سیدو شریف کو ملاکنڈ ڈویژن کے صدر مقام کی حیثیت بھی دی گئی جس میں سوات، بونیر، شانگلہ، دیر اور چترال کے اضلاع کے علاوہ ملاکنڈ ایجنسی کے علاقے بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے سیدو شریف کی گہما گہمی اور رونق میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے۔ اسی مرکزی حیثیت کے باعث ضلع سوات کے تمام محکموں کے دفاتر بھی سیدو شریف ہی میں قائم کیے گئے ہیں۔
مینگورہ اور سیدو شریف میں آمد و رفت کا مقبول ذریعہ سوزوکی اور رکشے ہے۔ سوزوکی اور رکشہ دس روپیہ کرایہ فی سواری یک طرفہ کے عوض آپ کو لے جا اور لا سکتے ہیں۔ رکشے میں عموماً چار سواریاں بٹھائی جاتی ہیں، تاہم چالیس پچاس یا پچاس روپے میں رکشہ بُک کروا کر آپ خصوصی طور پر علاحدہ بھی مینگورہ سے سیدو شریف تک دوتین کلومیٹر پر محیط پُر کشش مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
سیدو شریف ایک بہت قدیمی اور تاریخی شہر ہے جس نے زمانے کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ جس طرح سیدو شریف آج ملاکنڈ ڈویژن کا صدر مقام ہے، اسی طرح پُرانے زمانے میں بھی اُسے مرکزی حیثیت حاصل تھی اور اُس زمانے میں بھی یہ شہر تہذیبی، ثقافتی اور جدید ترقی کے لحاظ سے بہت آگے تھا اور آج ریاستِ سوات کے آخری حکمران کا محل بھی یہیں ہے۔
بُدھ مت کے دور میں سیدو شریف کا پُرانا نام ’’بالی گرام‘‘ (اس نام کا ایک چھوٹا سا درہ آج بھی سیدو شریف کے قرب میں واقع ہے) تھا جس کے بعد یہ ’’سادوگان‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ پشتو زبان میں لفظ سادوگان’’سادھو‘‘ کی جمع ہے۔ عہدِ قدیم میں یہاں بُدھ مت کے پیروکار بڑی تعداد میں آباد تھے جو یہاں غاروں میں عبادت کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اُس کا نام ’’سادوگان‘‘ پڑ گیا جو بعدمیں ’’سیدو‘‘ میں تبدیل ہوگیا۔
مشہور روحانی شخصیت عبدالغفور عرف سیدو بابا نے سوات کے مختلف علاقوں میں قیام کیا۔ آخر میں وہ سپل بانڈئی منتقل ہوئے اور 1845ء میں جب وہ ’’سپل بانڈئ‘‘ نامی گاؤں کو خیر باد کہہ کرہمیشہ کے لیے سیدوچلے آئے، تو اس وقت سیدو کی عظمتِ رفتہ کے نقوش ماند پڑ چکے تھے اور یہ ایک چھوٹا سا معمولی گاؤں تھا لیکن جب عبدالغفور اخوند صاحبِ سوات نے اس کواپنی مستقل رہائش کے لیے منتخب کیا اور اس میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی، تو اس کی گذشتہ عظمت دوبارہ لوٹ آئی اور اس کی شہرت اخوند صاحبِ سوات (سیدوبابا) کی وجہ سے دور دراز تک پھیل گئی۔ ان کی وجہ سے سیدو ’’سیدو شریف‘‘ بن گیا اور لوگ اس جگہ کو مقدس سمجھنے لگے۔ اُن کے دورِ سکونت میں سیدو شریف کوبڑا مذہبی رعب داب حاصل تھا۔ ان کا مزار اب سیدو شریف ہی میں ہے جو مرجع خلائقِ عام ہے۔

سوات کی روحانی شخصیت عبدالغفور المعروف سیدو بابا رحمۃ اللہ علیہ کا روضہ۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

عبدالغفورؒ (سیدو بابا) کے فرزند کشر میاں گل عبدالخالق کے زمانے میں اس شہر کو مذہبی اور سیاسی دونوں حیثیتیں حاصل ہو گئیں۔ان دونوں کی وفات کے بعد سیدو شریف کی عظمت اور شوکت بھی ختم ہوگئی، لیکن بعد میں 1917ء میں سیدو غوث عبدالغفور کے پوتے اور کشر میاں گل عبدالخالق کے بیٹے اعلیٰ حضرت میاں گل، گل شہزادہ عبدالودود نے سوات کی عنانِ سلطنت سنبھالی، تو سیدو شریف کی وہی پرانی عظمت اور شوکت پھر لوٹ آئی۔ انھوں نے سیدو شریف کو ریاستِ سوات کے دارالحکومت کا درجہ دے دیا اور اس طرح اس کی پرانی شہرت و عظمت بحال ہوگئی۔
سیدو شریف گیرا پہاڑ کے مشرقی دامن میں واقع ہے۔ اس کے مغرب کی طرف ایک ندی بہِ رہی ہے جس کے ماخذ’’ وادئ مرغزار‘‘ کے پہاڑ اور چشمے ہیں۔ سیدو شریف کے تینوں جانب پہاڑ اور شمالی سمت میدانی علاقہ ہے۔ یہ مقام سطح سمندر سے 3500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے یہاں سے ایک سڑک مینگورہ شہر کو بائی پاس کرکے فیض آباد کے ذریعے جی ٹی روڈ تک براہِ راست چلی گئی ہے جب کہ دوسری سڑک سیدھی مینگورہ شہر تک لے جاتی ہے۔ اس سے ایک ذیلی سڑک ندی کے ساتھ ساتھ’’مرغزار‘‘ کی حسین وادی تک پہنچاتی ہے۔ سڑک کے دائیں جانب پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں جو سیدو شریف کو ’’اوڈی گرام‘‘ (سوات کا ایک مشہور تاریخی گاؤں) سے علاحدہ کرتی ہیں۔ اس سے آگے ’’راجہ گیرا‘‘ کے قلعہ کے قدیم آثار نظر آتے ہیں جو گیرا پہاڑ کے مغربی جانب کھنڈرات کی شکل میں اوڈی گرام کے عین سامنے واقع ہیں۔ یہاں سے اوڈی گرام تک ہائیکنگ بھی کی جا سکتی ہے۔
سیدو شریف کے جنوب مشرقی جانب پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک خوب صورت ترین جگہ ’’عقبہ‘‘ ہے جس کا پُرانا نام’’ بڑینگل‘‘ تھا۔ یہاں ریاستی دور کا ایک خوب صورت شاہی محل ہے جسے ایک ہوٹل (رائل پیلس) میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ محل طرزِ تعمیر اور حسین ماحول میں واقع ہونے کی وجہ سے بہت دل کش اور سحر انگیز معلوم ہوتا ہے۔ اس میں منفرد اور بہترین انداز کی ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے۔ جس کے بلند و بالا خوب صورت مینار اس کی گذشتہ عظمت کی ایمان افروز حیثیت پر گواہ ہیں۔ یہ مسجد بادشاہ صاحب (مرحوم) نے اپنی ذاتی مسجد کے طور پر تعمیر کرائی تھی جس میں وہ اپنے ملازموں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کیاکرتے تھے۔ اس مسجد کی تعمیر میں نادر اور خوب صورت سپید سنگِ مرمر کے بڑے بڑے ٹکڑے استعمال کیے گئے ہیں۔

سیدو شریف کے ماتھے کا جھومر رائل پیلس سوات کا ایک خوبصورت منظر۔ (فوٹو: طارق صدیق کوہستانی)

عقبہ تینوں جانب سے بلند پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک سرسبز و شاداب مقام ہے۔ اس میں چنار اور زیتون کے بلند و بالا درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس کے قرب و جوار کے خوب صورت پہاڑٹریکنگ اور کیمپنگ کے لیے نہایت موزوں ہیں۔ عقبہ ہی میں بانئی جدید ریاستِ سوات، مردِ آہن بادشاہ صاحب ابدی نیند سو رہے ہیں۔
سیدو شریف جاکر اگر سیدو بابا کے مزار پر حاضری نہ دی جائے، تو سیدو شریف کی سیر اُدھوری محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جہان زیب پوسٹ گریجویٹ کالج کی حسین اور اچھوتی عمارت (اب اسے تقریباً مسمار کیا جا چکا ہے، مدیر لفظونہ)، کالج کے عین سامنے پُر شکوہ ودودیہ ہال، جس میں کالج اور سوات بھر کی علمی،ادبی، سیاسی، تہذیبی اور ثقافتی محفلیں منعقد ہوتی ہیں، خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے قریب واقع سوات سیرینہ ہوٹل کے عطر بیز اور گل رنگ ماحول سے بھی لطف اندوز ہونا نہ بھولیے گا۔ اس کے قریب ہی پاکستان ٹوورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن ضلع سوات کی حسین عمارت اور اس سے متصل پی ٹی ڈی سی موٹل بھی خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں سیاحوں کے لیے ہر قسم کی سیاحتی معلومات کی فراہمی کے لیے مستعد عملہ ہمہ وقت مصروفِ کار رہتا ہے۔
سوات بھر کے باشندوں کی طبی سہولتوں کا انحصار سیدو شریف میں واقع سیدو اورسنٹرل ہسپتال پر ہے۔ یہ دونوں ہسپتال بادشاہ صاحب کے دور میں تعمیر کیے گئے تھے، جنھیں بعد میں والئی سوات نے جدید طبی سہولتوں سے آراستہ کیا۔ اُس وقت ان ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولتیں بہت معیاری تھیں، لیکن اب اُن کی کارکردگی قطعی غیر تسلی بخش ہے، تاہم سیدو ہسپتال میں واقع آئی سی یو وارڈ قدرے جدید طبی سہولتوں سے آراستہ ہے۔ اب اس ہسپتال میں مزید توسیع و تعمیر کا کام جاری ہے اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس کی تکمیل سے ہسپتال میں جدید طبی سہولتوں کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے گی۔
سیدو شریف کی آبادی قریباً تیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں شہری آبادی کی تما م تر سہولتیں دستیاب ہیں۔ یہاں ٹیلی فون ڈائریکٹ ڈائلنگ کے ذریعے پورے ملک اور بیرون ممالک سے منسلک ہے۔ سیدو شریف واقعتاً ایک بہت ہی صاف ستھرا مقام ہے اور اس کی آب و ہوا نہایت معتدل ہے۔
سیدو شریف کی اہم ترین شخصیت، سابق گورنر بلوچستان و سرحد و سابق ایم این اے اور ریاستِ سوات کے آخری ولی عہد میاں گل اورنگ زیب کے بغیر اس شہر کا تذکرہ نامکمل ہے۔ باغ وبہار شخصیت کے مالک پرنس اورنگ زیب جب تک حیات تھے اپنے محل میں دربار سجاتے تھے۔ ان کے رہائشی محل میں سوات بھر اور بیرون سوات سے آئے ہوئے مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور وہ اُن کی جھرمٹ میں بیٹھے عوام وخواص میں گھل مل جاتے تھے۔ (فضل ربی راہیؔ کی کتاب "سوات سیاحوں کی جنت” سے انتخاب)