سفر کے دوران میں ہمارا گزر شہر بالاکوٹ سے ہوا۔ یہ شہر اب ایک بار پھر پورا آباد ہوچکا ہے۔ یہاں ہر طرف جیتے جاگتے انسان اپنی اپنی جگہ کافی مصروف نظر آئے۔ یکایک میرے ذہن میں آج سے کئی سال پہلے یہاں ہونے والے لرزہ خیز زلزلے کے بعد کے بالاکوٹ کا منظر تازہ ہوگیا، جب ہم یہاں آئے تھے، تو سارا شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ فقط ایک مسجد اور ایک پلازہ مخلوقاتِ خدا کو خدا کی تنبیہ سمجھانے کے لیے سلامت تھا۔ آج کا بالاکوٹ مگر مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ شاید ہی کوئی بندہ ایسا ہوگا جو آج یہ شہر دیکھ کر مان لے کہ یہ کسی وقت ملیامٹ ہوچکا تھا۔ اور اگر آپ اسے یہ سمجھانے کی کوشش بھی کریں گے، تو وہ آپ کو پاگل خانہ جانے کا مفت مشورہ ہی دے گا۔ اس شہر میں "تحریکِ مجاہدین” کے سر کردہ قائدین بھی آسودۂ خاک ہیں جن میں سید احمد شہید بریلوی سب سے مشہور ہیں۔ وقت کی کمی کے باعث ان کے روضہ پر حاضر تو نہ ہوسکا، مگر دوڑتی گاڑی سے ان پر سلام ضرور بھیجا۔ کیوں کہ سید کے شہر میں آکے بغیر سلام و دعا گزرنا مَیں اپنے لیے بے ادبی سمجھتا ہوں۔
بالاکوٹ سے گزر کر کیوائی، پارس اور جرید سے جاتے جاتے ہم ناران پہنچے۔ رات کا ایک بج چکا تھا۔ کڑاکے کی سردی تھی۔ باقی بازار تو بند تھا، مگر کھانے پینے کا ماحول اب بھی گرم تھا۔ جلدی جلدی ہوٹل میں کمرے لے کر "چیک اِن” کیا۔ باقی سب لوگ کھانا کھانے بازار چلے گئے اور میں تحریر لکھنے بیٹھ گیا۔
اگلے دن صبح کمرے سے نکل کر دیکھا، تو برف پوش پہاڑوں کے دامن میں چھوٹے پہاڑوں پر موجود گھنے جنگلات سے ایک رومانی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ دھوپ جوبن پر تھی اور برف سے ٹکراتی سرد ہوا ماحول میں زبردست قسم کی خنکی پیدا کر رہی تھی۔ ہمارا پڑاؤ ناران میں تھا، مگر منزل جھیل سیف الملوک تھی۔ لہٰذا ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر جیپ والوں کے ساتھ معاملہ طے کر لیا۔ کیوں کہ جھیل تک خراب سڑک کی وجہ سے بڑی گاڑی یا بغیر "فور وہیل” کے گاڑیاں نہیں جاسکتیں۔ ناران سے جھیل تک سڑک پر کام سات سال پہلے جب مَیں آیا تھا، تو شروع ہوچکا تھا، مگر ہنوز دلی دور است! اس وجہ سے سیاحوں کی زندگی مقامی جیپ والوں کے رحم و کرم پر ہے۔ نجانے حکومت وقت کب سیاحوں کو ان قصابوں سے آزادی دلائیں گے، جو ہر حوالے سے سیاحوں کو لوٹنا اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔
یوں ہم جھیل کے لیے روانہ ہوئے۔ مَیں بہت خوش تھا کہ اب راستے میں اُن گلیشئرز سے پھر گزرنا پڑے گا جہاں سے ایک بار گزرتے ہوئے ہم ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے موت سے بال بال بچ گئے تھے، لیکن اس کی سحر زدہ رومانیت اپنی جگہ اب تک قائم تھی۔ میری حیرانی، پریشانی میں اس وقت بدل گئی جب وہاں پر گلیشئر کی بجائے پہاڑی ندی کا خشک راستہ دیکھنے کو ملا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ چند سال پہلے وہ گلیشئر پگھل کر ختم ہوچکے ہیں، جو کہ انتہائی افسوس نا ک بات اس لیے ہے کہ اس سے موسم کی گرمی کا اندازہ بخوبی ہو رہا تھا۔ موسم کی تبدیلی میں انسانی لاپروائی بھی بدرجہ اتم موجود ہے، جس کا ادارک اور تدارک بے حد ضروری ہے۔ خیر، اس بے ڈھنگ راستے سے جاتے جاتے ہم جھیل تک پہنچ گئے۔ سیزن ختم ہونے کے باوجود سیکڑوں کی تعداد میں سیاح موجود تھے۔ اب یہاں ڈھابوں اور کھوکھوں کا ایک مکمل بازار سج چکا ہے، جس نے وہ منظر ہی بدل دیا ہے۔ جب ہم پہلے یہاں آتے تھے، تو ہر سو خالص فطرت ہی تھی۔ اب مگر شور و غل اور گندگی میں ایسا اضافہ ہوچکا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ کیا ہر جگہ گندگی پھیلانا ضروری ہے؟ کیا سیاحت گندگی پھیلانے کے بغیر نہیں ہوسکتی؟ فطرت میں ملاوٹ کیوں کر ہو؟ یہ اور اس قبیل کے دیگر سوالات برمحل ہیں، لیکن……! خیر، مطالعاتی دورے کے شرکا سب کے سب (میرے علاوہ) پہلی مرتبہ یہاں پہنچے تھے۔ لہٰذا ان کی خوشی دیدنی تھی۔ حسبِ سابق یہاں بھی عکس بندی و روایتی رقص کا ایسا دور شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
جھیل کے اردگرد برف پوش و فلک بوس پہاڑ، ان کے اوپر چمکتا آفتاب بیچ میں صاف و شفاف نیلگوں پانی کی کٹورا نما جھیل سب مل کر ایسا مسحور کن منظر پیش کر رہے تھے کہ منھ سے بے ساختہ "فبائی الائے ربکما تکذبان” نکلا۔
یہاں پہلے ایک بابا تھا، اب ماشااللہ تین ہیں، جو شہزادہ سیف الملوک اور شہزادی کا قصہ سنا کر سیاحوں سے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ جھیل کے ارد گرد گھڑ سواری کے لیے گھوڑے بھی دستیاب ہیں اور کشتی رانی کے لیے کشتیاں بھی موجود ہیں۔ یہاں فطرت اور اس کی خالص خوشبو ابھی تک محسوس کی جاسکتی ہے۔ اگرچہ گندگی کی بدبو اس پر غلبہ پانے کی کوشش میں ہے، مگر دعا ہے کہ یہ ماحول گندا نہ ہو۔ لہٰذا سیاح حضرات اور حکومتی ادارے صفائی کا خاص خیال رکھیں، کیوں کہ صفائی ایمان کا حصہ ہے، تو گندگی اس خوبصورت قدرتی حسن کے ساتھ زیادتی ہے۔
اس طرح اگر ناران سے جھیل تک سڑک بھی پختہ کی جائے اور وہاں پر موجود دکان داروں کا بھی قبلہ درست کیا جائے، تو از چہ بہتر؟ اگلی نشست تک "یار زندہ صحبت باقی!”
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔