کچھ ڈاکٹر امیر فیاض پیر خیل کے بارے میں

مادہ پرستی کے اس دور میں جہاں ہر کوئی خود غرضی، مطلب پرستی، دھوکا دہی، لالچ، حرص و ہوس اور نرگسیت کا شکار ہے، وہاں کچھ خدا کے بندے ایسے بھی ہیں، جنہیں خدا اور خدا کے بندوں سے پیار ہے۔ وہ چھتنار اور سایہ دار درخت کی طرح دوسروں کو سایہ بخش رہے ہیں۔ فیض پہنچا رہے ہیں۔ ایسے ہی اللہ والوں میں ایک ڈاکٹر امیر فیاض پیر خیل بھی ہیں، جو محقق، مصنف اور مؤلف ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر، ادیب اور کالم نگار بھی ہیں۔ 1998ء سے آپ قلمی جہاد کر رہے ہیں اور آج تک مختلف موضوعات پر 18کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ بھی کرچکے ہیں۔
آپ بڑی نفیس، حلیم اور سلیم طبیعت کے مالک ہیں۔ آپ کی چشم کشا باتیں دل میں گھر کرتی ہیں اور بعض باتیں تو متحیر ہی کردیتی ہیں۔ مثلاً ایک ملاقات میں انہوں نے کہا تھا کہ: ’’میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔‘‘
اُنہوں نے مزید کہا کہ: ’’میں جب بھی تصنیف و تالیف کے لیے قلم اُٹھاتا ہوں، تو باوضو ہوکے لکھتا ہوں۔‘‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ: ’’میں ایک ایک کتاب پر ہزاروں روپے خرچ کرتا ہوں، لیکن آج تک کسی کتاب پہ ایک پیسہ تک نہیں لیا۔ پڑھنے والے شوقین حضرات کو مفت میں بانٹ دیتا ہوں۔‘‘ وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ
کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
ملائیں ہاتھ، تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے
بعض لوگ امیر تو ہوتے ہیں، لیکن فیاض نہیں ہوتے۔ الحمد اللہ ہم ایک ایسا ’’امیر‘‘ رکھتے ہیں جو امیر بھی ہے اور فیاض بھی، جو مسیحا بھی ہے اور نباض بھی۔ آپ مولوی تو نہیں لیکن کبھی کبھار اپنی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ اور امامت بھی کرلیتے ہیں۔ آپ ایک صابر شاکر اور قناعت پسند انسان ہیں۔ آپ کا ایک ہی بیٹا ہے جو صالح بھی ہے اور نیکو کار بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ بڑی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔
آپ کا اصل میدان تصنیف و تالیف ہے۔ آپ دینی موضوعات پہ تحقیق و تدقیق کرتے ہیں، لیکن ملکی و بین الاقوامی حالات حاضرہ پہ بھی نظر رکھتے ہیں۔ آپ اِک ایسے سپاہی یا مجاہد ہیں، جنہوں نے قلم اُٹھایا ہے تلوار نہیں۔ آپ کو جب بھی کوئی قابلِ تحریر موضوع ملتا ہے فوراً قلم کمان سنبھال کر وار کر ڈالتے ہیں۔ روزنامہ آزادی (سوات) میں چھپنے والے آپ کے درجنوں کالموں کو آپ نے ’’قلم ہے تلوار نہیں‘‘ اور ’’نوکِ قلم سے‘‘ کے عنوان سے کتابی صورتوں میں بھی یکجا کردیا ہے۔ آپ نے زیادہ تر واقعاتی کالم لکھے ہیں، جو مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں، جن میں چشم کشا بیداری، اعمال صالح کی پاس داری اور دُکھی عوام کی آہ و زاری کے ساتھ ساتھ اہلِ اقتدار کو جھنجھوڑنا اور لتاڑنا بھی شامل ہوتا ہے۔
کتاب ’’نوکِ قلم سے‘‘ میں ایک کالم کا عنوان ہے ’’دھماکے کون کرتا ہے، کیا سننا چاہو گے؟‘‘ آپ اس میں لکھتے ہیں: ’’کیا نبی اکرمؐ نے کوئی مندر، گرجا یا کلیسا گرایا؟ کیا کسی ذمی کو قتل کیا؟ کیا کسی کو زبردستی مسلمان کیا؟ ’’نہیں!‘‘ تو پھر طالبان ایسا کیوں کررہے ہیں؟ اس لیے کہ یہ یہودیوں کا ایجنڈا ہے، جو برملا کہتے ہیں کہ مسلمان اور عیسائی ہمارے دشمن ہیں۔ یہ باتیں اُن کے ربی یعنی (مولوی) بر سر عام کہتے ہیں اور ایسی ہی باتوں سے اُن کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ لہٰذا یہ جو کچھ ہورہا ہے، اس میں یہودیوں کا ہاتھ ہے۔ جو ہمارے کرایے کے ٹٹوؤں کو استعمال کرکے ہمیں تباہ کررہے ہیں۔‘‘
ایک اور کالم میں لکھتے ہی: ’’امریکہ بہادر ہمارے فوجی وفد کو مہمان بلاتا ہے اور پھر ائیر پورٹ پہ اُن کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک مسافر نے شکوہ کیا ہے کہ میں پاکستانی فوجیوں کے ساتھ پرواز میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتا، یہ تو ہمارا حال ہے۔‘‘
مکافاتِ عمل کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ: ’’بعض اعمال کی سزا یا جزا اس دنیا ہی میں انسان کو مل جاتی ہے۔ مثلاً ایک واقعہ کوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پنجاب کا ایک جاگیردار جو فوج سے بریگیڈئیر بھی ریٹائرڈ تھا، جسے لاکھوں روپے اپنے ساتھ رکھنے اور سونے کی عادت تھی۔ کسی بات پہ مشتعل ہوکر اپنے مزارع کو زندہ جلادیتا ہے۔ خدا کا کرنا دیکھو کہ کچھ عرصے بعد اُسے فالج ہوجاتا ہے۔ گرمیوں کے دن ہیں ایک دن وہ کھیتوں میں جانے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ اُسے کھیتوں میں لے جایا جاتا ہے۔ وہ پجاروں میں اکیلا بیٹھا ہوتا ہے۔ نیچے گنے کے خشک پتے بچھے ہوتے ہیں۔ وہ سگریٹ سلگاتا ہے اور بے دھیانی میں دیا سلائی نیچے پھینک دیتا ہے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنی پجاروں میں نوٹوں سمیت جل کر بھسم ہوجاتا ہے۔‘‘
’’سوات کی بیٹی آمنہ بی بی‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں آپ نے کھلم کھلا جس شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’مشرف کو خدا نشانِ عبرت بنائے۔ امریکہ کے کہنے پر پہلے عافیہ صدیقی دی اور اب سر سینئی کی آمنہ بی بی کو بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، سوات میں پہلے طالبان نے ہمیں لوٹا، اب ہمارے محافظ بھی وہی کام کر رہے ہیں جو وہ کرتے تھے۔ میں تو علی الاعلان کہتا ہوں کہ امریکی دوستی تباہی کا دوسرا نام ہے۔
آپ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی اُن کی کچھ پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ایک کالم میں اُن کے بارے میں یہ شعر علامت کے طور پر لکھتے ہیں کہ
دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر
کچھ تجھ کو بھی مزہ میرے آزار میں آوے
آپ چین اور ملایشیا بھی گئے۔ وہاں کے نظام، ڈسپلن اور ترقی کو دیکھ کر کڑھتے بھی رہے اور مختلف کالموں میں اس کا موازنہ پاکستان سے بھی کرتے رہے۔ سوات میں پی ٹی آئی کے شان دار انقلاب پہ طنز کرتے ہوئے یہ شعر لکھتے ہیں:
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
یہ تبسم، یہ تکلم تیری عادت ہی نہ ہو
یہی نہیں بلکہ ’’عمران جی! توجہ فرمائیں‘‘ نامی کالم میں اُنہیں کچھ مشورے بھی دیئے ہیں کہ کہیں غرور میں آکر فضول حرکتیں ہی نہ شروع کردینا۔
تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤگے
ڈاکٹر امیر فیاض ہمارے سوات کا سرمایہ ہیں۔ ایسے بہت کم لوگ پیدا ہوتے ہیں جو اندر اور باہر سے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ فنِ کالم نگاری میں آپ کا اک الگ مقام ہے۔ آپ کے کالم سیدھے سادے، سلیس اور رواں ہوتے ہیں۔ جن میں نہ کوئی فکاہیہ انداز ہوتا ہے، نہ صحافتی سنسنی ہوتی ہے اور نہ ہی جاوید چودھری کی طرح ڈرامائی انداز۔ بس اک واقعاتی بیانیہ ہوتا ہے، جس میں سلاست اور روانی کے ساتھ اک خاص کہانی ہوتی ہے جو مذہبی، اصلاحی اور فلاحی رنگ کا لبادہ اوڑھے ہمیں اور اہلِ اقتدار کو جھنجھوڑے جا رہی ہوتی ہے۔ آپ کا مقصد رضائے الٰہی، اصلاحِ انسانیت اور خالص پاکستانیت کے سوا اور کچھ نہیں۔ دعا ہے کہ اللہ آپ کو اس کارِ خیر کا اجر عطا فرمائے، آمین!

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔