تاثیر ملتان منتقل ہوئی۔ کمالی ملتان جا پہنچی۔ اب موقعہ جاتا رہا۔ وہ بات گزر گئی۔
کہتے ہیں کہ گورکھ ناتھ بھگتی، ریداس بھگتی کے پاس آیا اور تشنگی کے باعث پانی مانگا۔ پھر دل میں سوچا کہ ریداس ذات کا چمار ہے، اس کا پانی کیا پیوں؟ اس خیال سے پانی تونبے میں تو بھر لیا، مگر پیا نہیں اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں اس بات کو ٹال کر چلا گیا۔ وہاں سے کبیر صاحب کے پاس آ بیٹھا۔ یہاں بھی کبیر صاحب کو جولاہا سمجھ کر پانی نہ پیا۔ اتفاق سے کبیر صاحب کی بیٹی ’’کمالی‘‘ نے گورکھ ناتھ بھگتی کا تونبا اٹھا یا اور پانی پی لیا، جس کے پیتے ہی اس کا وجدان روشن ہوگیا۔ جس وقت گورکھ ناتھ پر یہ بات کھلی کہ اس پانی کے پینے سے کمالی کو اتنا بڑا درجہ مل گیا، تو اس وقت وہ اس پانی کے نہ پینے سے بہت ہی پچھتایا۔ آخرِکار ریداس اس کے پاس دوبارہ آیا اور پھر پانی مانگا۔ ریداس اپنی بھگتی کے بل سے جان گیا تھا کہ گورکھ ناتھ نے اس وقت اپنے غرور کے سبب پانی نہیں پیا۔ اب اس واسطے پھر خواستگار ہے۔ اس عرصے میں کمالی کے سسرال والے بنارس آئے اور کمالی کو بنارس سے ملتان اپنے شہر لے گئے۔
دوسری طرف ذوقؔ نے اس تلمیح کو یوں تخیل دیا ہے:
پنجاب میں بھی وہ نہ رہی آب و تابِ حسن
اے ذوقؔ پانی اب تو وہ ملتان بَہ گیا
(’’نادراتِ اردو‘‘ از پروفیسر ایم نذیر احمد تشنہ، سنہ اشاعت 2011ء، مطبوعہ الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، صفحہ300 سے انتخاب)