تبصرہ نگار: عمران اعوان (کورش) 
یہ کتاب جو کہ مِزاحیہ اندازِ بیاں پر مبنی ہے، اسے ’’لیونید سولویف‘‘ نے کئی مستند ذرائع سے معلومات اکٹھی کرکے لکھا تھا، جب کہ اس کا ترجمہ حبیب الرحمان نے کیا ہے اور کافی سلیس و رواں اُردو میں کیا ہے۔ بُک کارنر نے اسے 2018ء میں چھاپا تھا اور پیپر کوالٹی بھی معقول ہے۔
یہ ایک بزلہ سنج اور بے دھڑک شخص کی داستان ہے، جو ایک انوکھا باغی ہے۔یہ ہمارے بچپن کے ملا نصیرالدین کے تصور سے قدرے مختلف ہے، جن کے ہم نے بس لطائف ہی سن رکھے ہیں۔
خواجہ نصرالدین اس کتاب میں ایک رنگا رنگ، ذہین بلکہ فطین، با کمال، صابر و شاکر اور ایک نابغہ روزگار باغی کی صورت پیش کیے گئے ہیں، جو عوام پر ہونے والے مظالم سے نالاں ہیں اور امیرِ وقت سے انتقام کے خواہاں ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ماتم ایک عورت کا (تبصرہ)  
ودرنگ ہائیٹس (تبصرہ)  
جین آئر (تبصرہ)  
کلیلہ و دِمنہ (تبصرہ)  
اجنبی (تبصرہ)  
اندازِ داستاں فکاہیہ و مِزاحیہ ہے۔ اس لیے موضوع کی سنجیدگی کا احساس نہیں ہوتا اور ہنستے ہنستے داستاں مکمل ہو جاتی ہے۔ ملا جی کی برجستگی و بے باکی کمال ہے۔ بخارا میں داخل ہوکر دربان سے کہتے ہیں کہ ’’واقعی بخارا میں میرے گدھے کے عزیزوں کی بڑی اکثریت ہے، ورنہ جیسا انتظام یہاں ہے، اس سے تو آپ کا امیر تخت سے کب کا اُتار دیا گیا ہوتا۔‘‘
یہ داستاں بہ غور پڑھنے پر ہماری داستاں محسوس ہوتی ہے۔بس یہاں خواجہ نصرالدین کی کمی ہے۔
خواجہ نصرالدین کی سب سے بڑی خوبی اُن کا مثبت سوچنا ہے، جو کسی بھی حالت میں اُن کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ ملاحظہ کیجیے یہ قول: ’’بہ ہرحال دنیا کوئی ایسی بری جگہ نہیں۔ کم از کم ایسے آدمی کے لیے تو نہیں جس کے دماغ ہو،خالی کدو نہیں۔‘‘
یہ حوصلہ خواجہ نصرالدین ہی کا تھا کہ وہ امیرِ بخارا سے اُس کے منافق و چاپلوس درباریوں کی موجودگی میں پنگالیں اور اُس سے اپنی محبوبہ کو صاف بچا لے جائیں۔
یہ داستاں مِزاحیہ پیرائے میں لکھی گئی ہے، لیکن سولوویف نے ہمیں کہیں کہیں یہ احساس ضرور دلایا ہے کہ یہ داستاں شکر میں لپٹی ضرور ہے، مگر میٹھی ہرگز نہیں…… لیکن ساتھ ہی یہ سبق بھی دیا ہے کہ حالات جتنے بھی برے ہوں، دنیا بری جگہ نہیں۔ بس آپ گدھا لے کر نکل پڑیے، کچھ نہ کچھ حل نکل ہی آتا ہے۔ بہ قولِ خواجہ نصرالدین: ’’دنیا میں اتنی زیادہ نیکی موجود ہے کہ اگر میرے لیے جنت میں جگہ کی قطعی ضمانت ہو جائے بھی، تو مَیں مرنے پہ راضی نہیں ہوں گا۔‘‘
اس داستاں میں جا بہ جا مِزاح کے پردے میں دانائی کے سراغ بھی ہیں۔ مثلاً خواجہ کا یہ قول کہ ’’اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم جنازے کے آگے ہو یا پیچھے، بہ شرط یہ کہ تم خود تابوت کے اندر نہ ہو۔‘‘
آخر میں یہ کہ میری طرف سے اس کتاب کے پڑھنے کی فل سفارش ہے۔ چاہے آپ مِزاح کے لیے پڑھیے یا امید کے لیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔