مغرب کا ایسا ادیب جو مشرقی علوم میں نہ صرف دلچسپی لیتا ہو، بلکہ اس میں مہارت بھی رکھتا ہو، اُسے مستشرق (Orientalist) کہا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مستشرقین کا پشتو سیکھنا، اس پر تحقیق کرنا اور کتابیں لکھنا صرف پشتو زبان کی خدمت کرنا نہیں تھا،بلکہ اس کا مقصد فوجی، سیاسی اور علاقہ پر اپنا تسلط قائم رکھنا بھی تھا۔ ان کا مقصد جو بھی تھا، ہمیں بہرحال ان کا مشکور ہونا چاہیے۔
پختونخوا میں مستشرقین کی آمد پشتو ادب، تاریخ، فولکور، ترجمہ اور خاص کر پشتو گرامر، لغت اور قواعد و ضوابط تحریر کرنے کا عمل ’’پشتو‘‘ زبان و ادب کے لیے نیک شگون ثابت ہوا۔ مستشرقین نے پشتو زبان کے نایاب وہ قلمی نسخے اور کتابیں جمع کرکے اپنے ملک کی لائبریریوں میں محفوظ کرلیے جو ہمارے گھروں کے طاقوں اور پرانے صندقوں میں پڑے ہوئے تھے اور اندیشہ تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کتابیں دیمک کی نذر ہوتیں، ہم انہیں تکریم کے طور پر دریا برد کرتے، یا پرانی قبروں میں دفن کرکے ضائع کرتے۔
آج پٹھان اس امر پر مجبور ہیں کہ وہ ان ممالک میں جاکر مذکورہ لائبریریوں میں محفوظ قلمی نسخوں اور کتابوں میں سے اپنے مقصد کی کتابیں ڈھونڈیں۔
پشتو مستشرقین میں انگریز فوجی اور سول آفیسرز، عیسائی مبلغین یا پادری، روسی، جرمنی، امریکی، فرانسیسی، نارویجن اور دیگر شامل ہیں۔ پشتو مستشرقین میں سے جارج روس کیپل (George Roos Keppel) ایک تھا۔ 1866ء کو لندن میں پیدا ہوا۔ اس کے والد کا تعلق سویڈن سے تھا، لیکن نوجوانی میں انگلستان آکر آباد ہوا اور وہی کا ہوکر رہ گیا۔ اس نے یونائٹیڈ سروس کالج لندن سے تعلیم حاصل کی اور 1896ء میں برطانوی فوج میں شامل ہوا۔ ترقی کرتے کرتے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ گیا۔ وہ ایک فوجی اور سول افسر، ذہین، زیرک اور پختونخوا کے عوام سے محبت رکھنے والا انسان تھا۔ پشتو روانی سے بول لیتا تھا۔ اسے پشتو کی ڈھیر ساری ضرب الامثال اور اشعار ازبر تھے۔ اس نے اپنے قول و فعل سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسے کوئی انگریز نہ سمجھے۔ خوبصورت وجیہہ شخصیت، اچھی خاصی قد و قامت، پشتو زبان روانی سے بولنے اور پختون لباس پہننے کی وجہ سے وہ پٹھانوں میں ’’آفریدی فرنگی‘‘ اور’’فرنگی ماما‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔
سر اُولف کیرو اپنی کتاب ’’دی پٹھان‘‘ میں اس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’روس کیپل پشتو روانی سے بولتا تھا۔ اسے پٹھانوں سے محبت تھی اور ان کے لیے کام کرنا چاہتا تھا۔‘‘
روس کیپل کرم ایجنسی، خیبر ایجنسی کا پولی ٹیکل ایجنٹ اور ملیشیا کا کمانڈنٹ بھی رہ چکا تھا۔ 1908ء میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کا چیف کمشنر جب وفات ہوا، تو جارج روس کیپل کو چیف کمشنر بنایا گیا۔ اس نے منشی قاضی عبدالغنی اور سر صاحب زادہ عبدالقیوم کے تعاون سے 1922ء میں پشتو مینول (رہنما کتاب) شائع کیا۔ اس مینول کا پہلا حصہ بہت معلوماتی ہے جس میں پشتو کے مخصوص حروف، عربی زبان کے حروف، پشتو کے وہ حروف جو پشتو، ہندی اور فارسی میں تو ہیں، لیکن عربی میں نہیں، پشتو کے وہ حروف جو پشتو، عربی اور فارسی میں ہیں، لیکن ہندی میں نہیں اور وہ حروف جو پشتو، عربی، فارسی اور ہندی میں مشترک ہیں، اسی طرح کل ملا کر پشتو کے 44 حروف کی نشان دہی کی۔ اس حصہ میں روس کیپل نے پشتو واول (Vowels) کے استعمال پر بات کی ہے۔
دوسرے حصہ میں مصنف نے ادنا اور اعلا درجہ کے امتحانات کے لیے کورس آسان پشتو اور انگریزی میں متعارف کرائے ہیں۔ تیسرے حصے میں پشتونوں کی عام زندگی میں استعمال ہونے والے روزمرہ فقرے تحریر کیے ہیں، جب کہ آخرمیں مستشرقین کی لکھی گئی مینولوں اور درسی کتب کی فہرست دی ہے۔
روس کیپل نے صاحب زادہ عبدالقیوم سے مشورہ کے بعد 1912ء میں اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی جو اَب یونیورسٹی کے درجہ تک پہنچ چکا ہے۔ اسلامیہ کالج میں ایک ہال آج بھی روس کیپل کے نام سے مشہور ہے اور اس کی دیوار پر اس کی بڑی تصویر لگی ہوئی ہے۔
ہندوستان بھر میں جو اصلاحات نافذ العمل تھے، وہ صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں نہیں تھے، جس کی وجہ سے کالج کے قیام کا یہاں کے عوام کو کوئی خاص فائدہ نہ پہنچ سکا۔ یوں یہ صوبہ ترقی میں پیچھے رہ گیا۔ البتہ صوبے کو یہ حقوق 1932ء میں حاصل ہوئے۔
جارج روس کیپل 1919ء میں فوج سے ریٹائر ہو کر لندن چلا گیا، جہاں اس کی صحت خراب ہوگئی اور 21 دسمبر 1921ء کو اس دارِفانی سے کوچ کرگیا۔
سر اُولف کیرو اپنی کتاب ’’دی پٹھان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’جارج روس کیپل کی وفات کے بعد صاحب زادہ عبدالقیوم سے لندن میں ہونے والی ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ ملازمت سے فراغت کے بعد جارج روس کیپل احساسِ محرومی کا شکار تھا۔ اسے یہ احساس ہوچکا تھا کہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے عوام سے جدائی کے بعد اُس کی زندگی کا کوئی مقصد باقی نہیں رہا۔‘‘
…………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔