مرثیہ کے حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر اپنی تصنیف "تنقیدی اصطلاحات” کے صفحہ نمبر 240 پر رقم طراز ہیں: "مرثیہ عربی لفظ رثی/ رثا (درد، رحم) سے مُشتق ہے۔ معنوی طور پر اس سے مراد مرحوم کی صفات کا منظوم بیان ہے لیکن اصطلاح میں مرثیہ سے مراد ایسی نظم ہے جس میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے المناک واقعات کا بیان ہو۔” دوسری طرف ڈاکٹر گیان چند جین اپنی تصنیف "ادبی اصناف” کے صفحہ 97 پر اس حوالہ سے رقم کرتے ہیں: "چوں کہ مرنے پر ماتم کرنا آفاقی اور دوامی شعار ہے، اس لیے شخصی مرثیہ بھی ہر زبان کے ادب میں اور ہر دور میں ملتا ہے۔ کربلائی مرثیے نے اسی کی کوکھ سے جنم لیا۔ اردو میں ان کا وافر ذخیرہ ہے۔ یہ کسی بھی صنف میں مل سکتا ہے، حد یہ ہے کہ غزل تک میں غالبؔ نے اپنی محبوبہ اور اپنے بھانجے کے مرثیے غزل میں لکھے۔
مذکورہ کتاب و صفحے پر ہرثیہ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب رقم کرتے ہیں: "ہرثیہ، مرثیے کی ہزلیہ شکل ہے جس میں ظریفانہ بلکہ فحش انداز سے دشمنانِ اہلِ بیت کی ہجو کی جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ ایک قسم کا فحش تبرا ہے جسے مرثیے کی ہیئت میں پیش کیا جاتا ہے۔”