کاغذاتِ نام زدگی منظور ہونے یا مسترد ہونے پر کہیں کامیابی کے شادیانوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، تو کہیں صفِ ماتم اور پپرزور احتجاجی بیانات کی بھرمار۔
انتخابی مرحلے میں کاغذاتِ نام زدگی کی منظوری یا مسترد ہونا سیاسی سے زیادہ عین آئینی و قانونی عمل ہے۔ بلا شک و شبہ اس وقت سب سے بڑی خبر لاہور کے حلقہ 122 سے عمران خان کے کاغذاتِ نام زدگی مستردہونا ہے۔ ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے 8 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے کے بہ غور مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عمران خان کی نام زدگی پر مخالفین کی جانب سے تین اعتراضات عاید کیے گئے۔ جن میں سب سے پہلا اعتراض یہ تھا کہ عمران خان کا تائید کنندہ این اے 122 کا رہایشی نہیں۔ دوسرا اعتراض کہ وہ سزا یافتہ ہیں، جب کہ تیسرا اعتراض کہ کاغذاتِ نام زدگی پر اڈیالہ جیل میں مقید عمران خان کے دستخطوں کی تصدیق جیل سپرنٹنڈنٹ سے نہیں کروائی گئی۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
طرفین کی جانب سے تفصیلی بحث کے بعد ریٹرننگ آفیسرنے اعتراض کنندہ کے اعتراضات کو منظور کیا اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 62 (9) اور آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 63 کے تحت کاغذاتِ نام زدگی مسترد کرنے کا فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے کے نمایاں نِکات کے مطابق اعتراض کنندگان نے دورانِ سماعت یہ ثابت کیا کہ سابق چیئرمین کا تائید کنندہ این اے 122 کا رہایشی نہیں۔ الیکشن ایکٹ اور اعلا عدلیہ کے فیصلوں کے تحت سزا یافتہ شہری الیکشن نہیں لڑسکتا۔
اب آیئے، دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی درجِ بالا اعتراضات آئین و قانون کی روشنی میں اہم ہیں یا پھر عمران خان کو غیر قانونی طریقہ سے بظاہر انتخابی میدان سے نکال باہر کیا گیا ہے؟
یاد رہے بہ طورِ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 63 کے تحت ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے سکروٹنی آرڈر کے خلاف ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں قائم اپیلٹ ٹربیونل میں اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ ناکامی کی صورت میں ہائیکورٹ کا ڈویژن بینچ اور سپریم کورٹ کاآپشن بھی موجود ہے۔ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے امیدوران کو الیکشن ایکٹ کے سیکشن 60 کے تحت کاغذاتِ نام زدگی Form-A جمع کروانا لازم ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ Form-A کے پہلے صفحے کو پُر ہی تجویز کنندہ اورتائید کنندہ نے کرنا ہوتا ہے۔سیکشن 60 (i) کے مطابق حلقے کا کوئی بھی ووٹر اس حلقے کے امیدوار بننے کے لیے کسی اہل شخص کا نام تجویز کرسکتا ہے۔ لہٰذا تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کو انتخابی فہرست میں درج اپنے رجسٹرڈ ووٹر نمبر اور رہایش کا لکھنا لازم ہے۔
یاد رہے ماضیِ قریب میں جمشید اقبال چیمہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ نے طے کر دیا تھا کہ تائید کنندہ اور تجویز کنندہ حلقے کا نہیں، تو کاغذات مسترد تصور ہوں گے۔
اسی طرح سپریم کورٹ کے فیصلہ PLD 201 6SC 944 میں یہ طے ہوچکا ہے کہ کاغذاتِ نام زدگی میں تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کا حلقہ کا ووٹر نہ ہونا انتہائی سنگین نوعیت کا معاملہ ہے۔ لہٰذا اس نقص کی تلافی یا رعایت دینے کا اختیار ریٹرننگ آفیسر اور اپیلٹ ٹربیونل کے پاس نہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
مقتدر حلقے عمران خان کی نااہلی کے درپے 
عمران خان کا المیہ 
عمران خان پر ہر وار اوچھا کیوں پڑ رہا ہے؟ 
عمران خان کی پے در پے غلطیاں اور قسمت کا ساتھ 
حیرانی اس بات پر ہورہی ہے کہ پی ٹی آئی کے وکلا کو عمران خان کے کاغذاتِ نام زدگی کے لیے لاہور کے حلقہ 122 کا کوئی رہایشی/ ووٹردست یاب نہ ہوسکا۔
عمران خان کے کاغذاتِ نام زدگی پر دوسرے اعتراض یعنی سزا یافتہ فرد انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں، تو آیئے دیکھتے ہیں کہ آئینِ پاکستان اس سلسلہ میں کیا رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63 (1) (h) کے مطابق ایسا فرد جس کو اخلاقی پستی کے جرم میں ملوث ہونے پر کم از کم دو سال قید کی سزا سنائی گئی ہو،تاوقت یہ کہ ایسے فرد کو رہا ہوئے 5 برس سے زاید عرصہ گزر نہ گیا ہو، تو ایسا فرد منتخب ہونے یا چنے جانے یا اسمبلی کا رکن رہنے کے لیے نااہل قرار پائے گا۔
عمران خان کے وکلا نے سزا یافتہ اعتراض کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کسی اخلاقی پستی کے جرم میں سزا یافتہ نہیں، لہٰذا آئین کے آرٹیکل 63 (1) (h) کا اطلاق عمران خان پر نہیں ہوسکتا۔
دوسری جانب اعتراض کنندگان نے توشہ خانہ مقدمہ میں اسلام آباد کی عدالت کے فیصلہ کے پیرا نمبر 38 کا حوالہ دیا، جس میں جج نے فیصلے میں لکھا کہ عمران خان، جان بوجھ کر قومی خزانے سے حاصل ہونے والے فوائد کو چھپا کر بدعنوانی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ عمران خان نے تحائف کے بارے میں غلط معلومات فراہم کرکے دھوکا دیا۔ اسلام آباد عدالت فیصلہ کے مطابق عمران خان کی بے ایمانی شک سے بالاتر ہے۔
یاد رہے یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنا پر ریٹرننگ آفیسر نے پر عمران خان کے کاغذاتِ نام زدگی پر اعترض نمبر 2 کو آئین کے آرٹیکل 63 (1) (h) کے تناظر میں منظور کیا۔
یاد رہے عمران خان کے خلاف اسلام آباد کی عدالت کا توشہ خانہ فیصلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ لہٰذاسزا کے خاتمے کے حتمی فیصلے تک عمران خان کا انتخابات میں حصہ لینا ناممکنات میں سے ہے۔
تیسرا اعتراض یعنی کاغذاتِ نام زدگی پر جیل حکام سے عمران خان کے دستخط کی تصدیق کی عدم موجودگی۔ یاد رہے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 60 (3) کے مطابق امیدوار کی جانب سے کسی وکیل کو نمایندہ مقرر کرنے/ کاغذات کی تصدیق نوٹری یا اوتھ کمشنر یا گریڈ 17 اور اس سے اُوپر کے کسی سرکاری ملازم کے ذریعے کی جائے گی۔ چوں کہ عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں ہیں، لہٰذاقانونی طور پر عمران خان کے دستخط/ تعین کردہ وکیل کی تصدیقی دستاویزات کی اَڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سے کروانا لازم ہے۔
بہرحال دورانِ سماعت اعتراض کنندہ نے اس نکتے پر مزید کوئی دلائل پیش ہی نہ کیے۔
بہرحال عمران خان کا انتخابی سیاست سے باہر نکل جانا پاکستانی سیاست کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ عمران خان کے وکلا جوٹی وی چینلوں کے مائک سامنے دیکھ کر لمبی چوڑی تقریریں کرتے ہیں، مگر عملی طور پر آئینِ پاکستان اور الیکشن ایکٹ کی دفعات کا مطالعہ کیے بغیرہی قانونی چارہ جوئی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔