کلمۂ طیبہ کے نام پربننے والی ریاست ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ اپنے وجود کے پہلے 30 سال تک انتہائی گھمبیر مسائل کا شکار رہی، جہاں ایک طرف بنگلہ دیش کی صورت میں ملک دولخت ہوگیا، تو دوسری جانب فتنۂ قادیانیت کی بہ دولت ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ و سلم جیسے عظیم عقیدہ پر مسلمانانِ پاکستان کی نہ ختم ہونے والی بے چینی۔ مملکت میں آئے دِن فسادات، قتل و غارت جیسے واقعات ہوئے۔ حد تو یہ تھی کہ عقیدۂ ختمِ نبوتؐ کی پیروی کرنے کی پاداش میں اسلامی ریاست پاکستان میں خود صحیح العقیدہ مسلمانوں ہی کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ یہاں تک کہ جید علمائے کرام کو بھی پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں۔ بالآخر ماہِ ستمبر 1974ء میں پارلیمنٹ کی جانب سے آئینِ پاکستان میں متفقہ طور پر ترمیم کرکے اس مسئلے کو اَبدی طورپر حل کردیا گیا۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
پاکستان میں عقیدۂ نبوتؐ اور تحریکِ ختمِ نبوتؐ پر بہت کچھ لکھا گیا، بہت کچھ سنایا گیا۔ بندۂ ناچیز اپنی اس تحریر میں آئین و قانون کی روشنی میں ختمِ نبوتؐ پر چند معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان کے تمام مسلمانوں کے لیے آئین و قانون میں درج ان معلومات بارے آگاہی بہت ضروری ہے۔
٭ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 1 (1) کے مطابق:۔ مملکتِ پاکستان اِک جمہوریہ ہوگی جس کا نام اسلامی جمہوریۂ پاکستان ہوگا۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 2 کے مطابق: اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 2 (a) کے مطابق: قراد دادِ مقاصد 1949ء کو آئینِ پاکستان کا "Preamble” یعنی تمہیدبنا دیا گیا۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (a) کے مطابق: مسلمان کی تعریف اِن الفاظ میں کی گئی ہے: ’’مسلما ن سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالا کی وحدت و توحیدقادرِ مطلق اللہ تبارک تعالا اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ختمِ نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہواور ایک نبی یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو اور نہ اُسے مانتا ہوجس نے حضرت محمدؐ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبرہونے کا دعوا کیا ہو یا جو دعوا کرے۔‘‘
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (b) کے مطابق: غیر مسلم کی تعریف اِن الفاظ میں کی گئی ہے: ’’غیر مسلم سے ایسا شخص مراد ہے، جو مسلمان نہ ہو اور اُس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کو ’احمدی‘ یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخصی یا کوئی بہائی، اور کسی درجِ فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہے۔ آئینِ پاکستان میں ختم نبوتؐ اور مسلمان کی واضح تعریف کے بعد کس بھی قسم کے غیر آئینی اقدام کی روک تھام کے لیے 1984ء میں مجموعۂ تعریزات پاکستان یعنی پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 میں ایک آرڈیننس کے تحت ترمیم کی گئی۔ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (B) (1) کے مطابق: ’’قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں یا کسی دوسرے نام سے جو الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا ظاہری نمایندگی کے ذریعے درجِ ذیل افعال کرے:
دیگر متعلقہ مضامین:
عقیدہ ختمِ نبوت  
یومِ تحفظِ ختمِ نبوت  
کتاب "ختمِ نبوت” ایک تاریخی و تحقیقی کاوش  
(الف) حضرت محمدؐ کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی بھی شخص کو امیر المومنین، خلیفۃ المومنین، خلیفۃ المسلمین، صحابی یا رضی اللہ عنہ کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
(ب) حضرت محمدؐ کی کسی زوجہ محترمہ کے علاوہ کسی ذات کو ام المومنین کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
(ج) حضرت محمدؐ کے خاندان، اہلِ بیت کے کسی فرد کے علاوہ کسی بھی فرد کو اہلِ بیت کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
(د) اپنی عبادت گاہ کو مسجدکے طور پر منسوب کرے، یا موسوم کرے، یا پکارے۔
درجِ بالا جرائم کی صورت میں اُس شخص کو قید کی سزا دی جائے گی جو کہ تین سال تک ہوسکتی ہے، اور جرمانے کے قابل بھی ہوگا۔
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (B) (2) کے مطابق: ’’قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے پکارتا ہے) جو الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا ظاہری نمایندگی کے ذریعے، اپنے مذہب میں عبادت کے لیے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں۔ اُسے دونوں میں سے کسی ایک صورت میں قید کی سزا دی جائے گی جو کہ تین سال تک ہو سکتی ہے، اور جرمانے کے قابل بھی ہو گا۔‘‘
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (C) کے مطابق: ’’قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کا کوئی فرد (جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے پکارتا ہے)، جو بالواسطہ یا بلاواسطہ خود کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے، یا اپنے مذہب کو اسلام کہتا ہے، یا اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا ہے یا اس کی تبلیغ کرتا ہے، یا دوسروں کو اپنے مذہب کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے، الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا تحریری، یا ظاہری نمایندگی کے ذریعے، یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی صورت میں کی قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت تین سال تک ہوسکتی ہے اور جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
اللہ کریم ہم سب کو پکا اور سچا مسلمان بنائے اور زندگی کی آخری سانس تک عقیدۂ ختمِ نبوتؐ پر قائم و دائم اور اس عقیدہ کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین، ثم آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔