’’لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان‘‘ کی جاری کردہ شش ماہی رپورٹ برائے عدالتی اعداد و شمار کے مطابق 30 جون 2023ء تک ملک میں کل 2,175,634 یعنی دو ملین سے زاید مقدمات زیرِ التوا ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یکم جنوری تا 30 جون دورانیے میں 2,302,061 نئے مقدمات کا اندراج ہوا اور اس عرصہ کے دوران میں 2,294,729 مقدمات کے فیصلے کیے گئے۔
رپورٹ میں درج اعداد و شمار کے مطابق 30 جون کو سپریم کورٹ میں زیرِالتوا مقدمات کی تعداد 55,187 اور وفاقی شرعی عدالت میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 102 اور چاروں ہائیکورٹوں میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 332,171، جب کہ ضلعی عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 1,788174 ہے۔
شش ماہی رپورٹ کے حیران و پریشان کن اعدادوشمار کا جایزہ لیا جائے، توبات عیاں ہوگی کہ سال 2023ء کی پہلی شش ماہی میں جتنے مقدمات کا فیصلہ ہوا، تقریباً اتنے ہی نئے مقدمات کا اندراج بھی ہوا۔ ریاستِ پاکستان میں زیرِالتوا مقدمات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کب ختم ہوگا؟
حوالے کے طور پر سال 2010ء کا ریکارڈ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سال 2010ء تک پاکستانی عدلیہ میں زیرِ التوا مقدموں کی تعداد 13 لاکھ تھی اور سال 2023ء میں یہ تعداد بڑھ کر 2,175,634 ہوچکی ہے، یعنی گذشتہ 13 برسوں میں زیرِ التوا مقدمات میں 67 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
سال 2010ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اعلا عدالتوں، سپریم کورٹ، چار ہائی کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ میں زیرِ التوامقدموں کی تعداد ایک لاکھ پچاسی ہزار سے زیادہ تھی۔ ان میں بعض مقدمے ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے زیرِ التوا تھے، جب کہ سال 2023ء کی رپورٹ کے مطابق اعلا عدالتوں، سپریم کورٹ، چار ہائی کورٹوں اور فیڈرل شریعت کورٹ میں زیرِ التوا مقدموں کی تعداد332,171 ہے، یعنی 13 سالوں کے بعد اعلا عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات میں 79 فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ یقینی طور پر اعلا عدالتوں میں بعض مقدمات عشروں سے زیرِ التوا ہوں گے۔ سال 2010ء میں سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدموں کی تعداد سترہ ہزار چار سو سے زیادہ تھی، جب کہ سال 2023ء کی پہلی شش ماہی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 55,187 ہے، یعنی تیرہ برسوں بعد 215 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستانی عدلیہ میں زیرِ التوا مقدمات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی وجوہات جاننے کی کوشش کی جائے، تو درجِ ذیل نمایاں وجوہات سامنے آتی ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ہماری عدالتیں، مراعات اور زیرِ التوا مقدمات 
ہمارا عدالتی نظام اور چیف جسٹس
ریاستِ سوات کے سول اور عدالتی نظام کے چند پہلو  

٭ ججوں کی کم تعداد:۔ سپریم کورٹ (ججوں کی تعداد) ایکٹ، 1997ء کے تحت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے علاوہ مزید 16 جج ہوں گے۔ یاد رہے سال 1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی، جب کہ سال 2023ء کی مردم شماری کے مطابق یہ 24کروڑ 22لاکھ نفوس پر مشتمل ہوچکی ہے…… یعنی گذشتہ 25 سال میں پاکستان کی آبادی میں تقریباً 83 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا جاچکا ہے۔ آج سے 25 سال پہلے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17تھی، مگر افسوس 25 سال گزرنے کے باوجود آج بھی سپریم کورٹ میں 17 جج انصاف کی فراہمی کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ آبادی میں اضافے کے تناسب سے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 کی بجائے 31 ہونی چاہیے۔ ہائیکورٹس اور ضلعی عدالتوں میں ججوں کی تعداد کے حوالے سے صورتِ حال سپریم کورٹ کی طرح مختلف نہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ججوں کی تعداد کو فی الفور بڑھانے کے لیے نئی قانون سازی کا انتظام کرنا چاہیے۔
٭ ججوں کی خالی اسامیاں:۔ دوسری اہم وجہ عدلیہ میں منظور شدہ ججوں کی تعداد کے باوجود ججوں کی تعیناتی کا نہ ہونا یعنی ججوں کی اسامیوں کا عرصۂ دراز کا خالی رہنا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں گذشتہ کئی عرصہ تک ججوں کی خالی اسامیوں کو پُر ہی نہ کیا گیا۔ یہی حال دیگر اعلا عدالتوں کا ہے۔ حوالے کے طور پر اس سال مئی میں سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے طویل عرصے سے زیرِ التوا اجلاس فوری طلب کرنے کا مطالبہ کرنا پڑا اور سپریم کورٹ میں ججوں کی 2خالی اسامیوں کو پُر کرنے کے لیے سندھ اور پشاور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کے نام تجویز کیے تھے، مگر افسوس اتنا عرصہ تک سپریم کورٹ کے ججوں کی خالی اسامیاں کو پُر ہی نہ کیا گیا۔ نومبر میں سندھ سے جسٹس عرفان سعادت خان کی صورت میں سپریم کورٹ میں اِک جج کی اسامی کو پُر کیا گیا۔ اب بھی سپریم کورٹ میں ایک جج کی آسامی خالی ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ محض عمارتیں نہیں، ان میں ججوں کی موجودگی ہی انھیں عدالتیں بناتی ہے۔
٭ تاخیری حربے:۔ تیسری وجہ مقدمات کو طوالت دینے کے لیے مقدمے بازی میں شامل پارٹیز کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کرنا۔ من گھڑت درخواستوں کے ذریعے عدالتوں کا وقت ضائع کیا جاتا ہے، ان تاخیری حربوں کی بنا پر سالوں بلکہ عشروں تک مظلوم دادرسی سے محروم رہتے ہیں۔ حصولِ انصاف کے لیے سائلین کی جائیدادیں بک جاتی ہیں، یہاں تک کہ کورٹ کچہری کے چکر لگا لگا کر جوتیاں تک گھس جاتی ہیں۔”Justice delayed is justice denied” ایک تاریخی قانونی اصطلاح ہے، جس کا مطلب ہے کہ جب بھی کوئی مقدمہ یا کارروائی بغیر کسی وجہ کے تاخیر کا شکار ہوتی ہے، تو اس کا اثر بالآخر فیصلے پر پڑے گا اور آخر میں فیصلہ اتنا خالص نہیں ہوگا، جتنا ہوسکتا تھا۔
٭ تاجِ برطانیہ دور کے قوانین:۔ پاکستان آزاد ہوئے 76 سال سے زاید ہوچکے ہیں، مگر حصولِ انصاف کے لیے پاکستان کا عدالتی نظام آج بھی تاجِ برطانیہ کے زیرِ سایہ متحدہ ہندوستان کے وقت کے بنائے گئے قوانین پر انحصار کرتا ہے۔حوالے کے طور پر مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان 1860ء، مجموعۂ ضابطۂ دیوانی 1908ء، مجموعۂ ضابطۂ فوج داری 1898ء، مخصوص ریلیف ایکٹ 1877ء، لمیٹیشن ایکٹ 1908ء، ایسے قوانین جو روزمرہ عدالتی کارروائی کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ قوانین کن حالات میں بنائے گئے، ان پر مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ مسلمانانِ ہند نے تاجِ برطانیہ سے چھٹکارا تو حاصل کرلیا، مگر آج تک تاجِ برطانیہ کے قوانین کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے نہ اُتارسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دورِ حاضر کی ترجیحات کو مدِنظر رکھتے ہوئے نئے قوانین ترتیب دے کر عدالتی نظام میں رائج تمام تر قوانین کوختم کیا جائے۔ نئے قوانین میں ہر جرم اور معاملہ کے متعلق فیصلہ جات کے لیے عدالتوں کو معینہ مدت کے اندر اندر فیصلہ جاری کرنے کے لیے پابند بھی کیا جائے۔
٭ کرپشن کا بازار:۔ پاکستان میں نظامِ عدل میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن کے بازار کا گرم ہونا ہے۔ کئی جگہوں پر ماتحت عدالتوں کی کارروائی کو عدالت کے ریڈر چلاتے پائے گئے ہیں۔ چند سو روپے دے کر آپ عدالتی کارروائی کو ملتوی کروانے کے لیے مرضی کی تاریخ لے سکتے ہیں۔ یہی صورتِ حال آئے دن تھانوں میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ کسی کی جیب گرم کریں اور اپنی مرضی کی تفتیشی رپورٹ حاصل کرلیں۔ یقینی طور پر انھی وجوہات کی بنا پر عالمی رینکنگ میں پاکستانی نظامِ عدل 130ویں درجہ بندی میں پایا جارہا ہے۔
٭ تفتیش کا پیچیدہ نظام:۔ پاکستان میں فوج داری ٹرائلز میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ روایتی تفتیشی نظام ہے، جو کافی پیچیدہ ہے۔ عدالتی کارروائی سے پہلے کئی ماہ تھانہ کی تفتیش ہی میں گزرجاتے ہیں۔ معمولی سے لڑائی جھگڑے کے مقدمات کی تفتیشی رپورٹ جسے چالان کہا جاتا ہے، اس میں بھی کئی کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ مالی معاملات خصوصاً جائیداد کے ریکارڈ کو ترتیب دینے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا عدمِ استعمال انصاف کے حصول میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ دیوانی مقدمات خصوصاً جائیداد کے معاملات میں عدالتوں کا متعلقہ محکمہ جات سے براہِ راست معلومات تک حصول میں حائل رکاوٹوں اور متعلقہ پارٹیز کی جانب سے تاخیری حربوں کے استعمال پر سزائیں اور جرمانوں کا نہ ہونے کی بدولت اک پارٹی دوسری پارٹی کو عشروں تک عدالتوں میں گھسیٹ سکتی ہے۔ قوانین میں اصلا حات کی بدولت متعلقہ محکمہ جات کو پابند کیا جائے کہ وہ مقدمہ کی نوعیت کے مطابق معینہ کردہ مدت میں تفیتیش کو مکمل کرکے رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں۔
٭ پنچائتی اور متبادل تنازعاتی حل فورمز کا غیر فعال ہونا:۔ معمولی نوعیت کے تنازعات کے حل کے لیے متبادل تنازعاتی حل کے فورم جیسا کہ پنچائتی اور ثالثی نظام، جو کسی وقت میں بہت فعال ہوا کرتے تھے۔ گذشتہ کئی عرصوں سے تصفیوں کے لیے متبادل تنازعاتی حل کے لیے یہ فورمز غیر فعال ہوچکے ہیں۔ معمولی لڑائی جھگڑوں اور مالی معاملات کے لیے تھانہ کچری میں عوام الناس کا ہجوم لگا رہتا ہے۔اگر پنچائتی اور ثالثی نظام عدل کو فعال کرلیا جائے، تو عام آدمی کو تھانہ کچری کے چکروں میں پڑنے کی ضرورت ہی نہ پڑے، جس کی بدولت تھانہ کچہری پر بوجھ کم ہوگا۔
٭ بار او ر بینچ کے درمیان عدم ہم آہنگی:۔ ججوں اور وکلا کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان کے درمیان کسی قسم کی عدم ہم آہنگی مقدمات میں تاخیر کا باعث بنتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بار اور بینچ کے درمیان ہم آہنگی کو قائم رکھنے کے لیے مستقل بنیادوں پر بار اور ججوں پر مشتمل کمیٹیوں کو فعال بنایا جائے، تاکہ التوا کے شکار مقدمات میں قرار واقعی طور پر کمی لائی جاسکے۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 37(d) کے تحت ریاست پاکستان کی یہ ذمے داری ہے کہ سستے اور فوری انصاف کو یقینی بنائیں اور آرٹیکل 2A قراردادِ مقاصد کے مطابق ایسی ریاست قائم کی جائے گی کہ جس میں اسلام کی طرف سے بیان کردہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصولوں کی مکمل پابندی کی جائے گی۔ عوام الناس کے لیے حصول انصاف کو یقینی بنانا ریاست کی آئینی ذمے داری ہے اور یہ ذمے داری ریاست کے تینوں ستونوں یعنی انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کی باہمی ہم آہنگی اور تعاون کے بغیر ممکن نہ ہوپائے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔