عید کی نماز سے پہلے جو صدقہ ادا کیا جاتا ہے، اس کو صدقۂ فطر (پشتو میں ’’سرسایہ‘‘) کہا جاتا ہے۔
حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ حضورؐ نے صدقۂ فطر کو اس لیے فرض قرار دیا ہے کہ یہ روزہ دار کے بے ہودہ کاموں اور فحش باتوں کی پاکی اور مساکین کے لیے کھانے کا باعث بنتا ہے۔ (ابوداؤد، السنن، کتاب الزکوٰۃ)
صدقہ فطر کی ادائیگی کا افضل وقت عید کی صبحِ صادق کے بعد اور نمازِ عید سے پہلے کا ہے۔ حضورؐ کا فرمان ہے کہ نماز کی طرف جانے سے پہلے زکوٰۃِ فطر ادا کرلی جائے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ)
صدقۂ فطر ادا کرنے سے حکمِ شرعی پر عمل کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ صدقۂ فطر روزوں کو کمی کوتاہی سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ صدقۂ فطر دینے سے عید کے دن ناداروں اور مفلسوں کی کفالت ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ نمازِ عید سے پہلے پہلے رمضان شریف میں ادا کرنا چاہیے۔
صدقۂ فطر کے مسائل حسب ذیل ہیں:
1:۔ صدقۂ فطر ہر مسلمان پر جب کہ وہ بہ قدرِ نصاب کا مالک ہو، واجب ہے۔ (نصاب سے مراد ساڑھے باؤن تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہے۔ چاندی کی قیمت بازار سے دریافت کرلی جائے)
2:۔ جس شخص کے پاس اپنے استعمال اور ضروریات سے زائد اتنی چیزیں ہوں کہ اگر ان کی قیمت لگائی جائے، تو ساڑھے باؤن تولہ چاندی کی مقدار ہوجائے، تو یہ شخص صاحبِ نصاب کہلائے گا اور اس کی ذمہ صدقۂ فطر لازم ہے۔
3:۔ ہر شخص جو صاحبِ نصاب ہو، اس کو اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا لازم ہے اور اگر نابالغوں کا اپنا مال ہو،تو اس میں سے ادا کیا جائے۔
4:۔ جن لوگوں نے سفر یا بیماری کی وجہ سے یا ویسے ہی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے روزے نہیں رکھے۔ صدقۂ فطر ان پر بھی واجب ہے، جب کہ وہ صاحبِ نصاب ہو۔
5:۔ جو بچہ عید کی رات صبحِ صادق سے پہلے پیدا ہوا، اس کا صدقۂ فطر لازم ہے اور جو صبحِ صادق کے بعد پیدا ہوا، تو لازم نہیں۔
6:۔ جو شخص عید کی رات صبحِ صادق سے پہلے مرگیا، اس کا صدقۂ فطر نہیں اور اگر صبحِ صادق کے بعد مرگیا، تو اس کا صدقۂ فطر لازم ہے۔
7:۔ عید کے دن عید کی نماز کو جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کردینا بہتر ہے، لیکن اگر پہلے ادا نہ کیا، تو بعد میں بھی ادا کرنا جائز ہے۔ اور جب تک ادا نہیں کرے گا، اس کے ذمے واجب الادا ہے۔
8:۔ ایک آدمی کا صدقۂ فطر ایک سے زیادہ فقیروں، محتاجوں کو دینابھی جائز ہے۔ اور کئی آدمیوں کا صدقۂ فطر ایک فقیر محتاج کو بھی دینا درست ہے۔
9:۔ جو لوگ صاحبِ نصاب نہیں، ان کو صدقۂ فطر دینا درست ہے۔ اپنے حقیقی بھائی، بہن، چچا اور پھوپھی کو صدقۂ فطر دینا جائز ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو صدقۂ فطر نہیں دے سکتے۔ اسی طرح ماں باپ اولاد کو اور اولاد ماں باپ، دادا، دادی کو بھی نہیں دے سکتی۔
10:۔ صدقۂ فطر کا کسی محتاج فقیر کو مالک بنانا ضروری ہے۔ اس لیے اس کی رقم مسجد میں لگانا یا کسی اور اچھائی کے کام میں لگانا درست نہیں۔
صدقہ فطر کی مقدار:۔ اگر آپ صدقۂ فطر گندم سے دینا چاہتے ہیں، تو نصف صاع یعنی پونے دو کلو یا دو کلو (احتیاطاً) کی جو قیمت ہے ، اس کے مطابق دے دیں۔ اور کھجور اور کشمش وغیرہ سے اگر دینا چاہتے ہیں، تو ایک صاع تقریباً ساڑھے تین کلو کی بازارکی جو قیمت ہے (کشمش 1350روپے، جو 180، گندم 106، کھجور 810روپے) اس کے مطابق ادا کردیں۔ صدقۂ فطر میں اصل مقدار کا اعتبار ہے اور مقدار میں علما کے مختلف اقوال ہیں۔ اس لیے ہر شہر میں کسی مستند ادارے کی طرف سے صدقۂ فطر کی متعین کی گئی رقم کے مطابق ادا کریں۔ (مذکورہ مسائل، مولانا یوسف لدھیانوی کی تصنیف شدہ کتاب ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ سے اخذ شدہ ہیں)
………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔