’’قابلِ تشویش بات یہ نہیں کہ وہ جھوٹ بولتا ہے…… بلکہ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ اس کا جھوٹ بکتا ہے۔‘‘
یہ کمال ہے سوشل میڈیا کا جہاں سب کچھ بکتا ہے۔ حتیٰ کہ جھوٹ بھی۔ جیسے جیسے سائنس ترقی کرگیا…… ساتھ میں ذرایع ابلاغ بھی ترقی کرگیا۔ پتھروں پر تصویریں تراشنے سے لے کر ڈھنڈورچیوں کے ذریعے بات یا احکامات کی تشہیر ہو یا دھوئیں کے ذریعے خطرے کا پیغام پہنچانا مقصود ہو…… یا پھر کبوتروں کے ذریعے پیغام رسانی سے لے کر سگنلز کی ایجاد تک یہ سارے طریقے انسان نے اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے مختلف اوقات میں استعمال کیے۔
ابلاغ کی دنیا میں انقلاب 1550ء میں یورپ میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے آیا۔ جب انسان نے کم وقت میں لاکھوں کتابیں چھاپ کر دنیا کو علم سے روشناس کرانے میں مدد دی۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف چھوٹے بڑے جراید اور اخبارات شایع ہونے لگے جس سے تازہ واقعات اور خبریں عوام تک تیزی سے پہنچنے لگیں۔ جلد ہی ریڈیو ، ٹیلی فون اور ٹی وی کے آنے سے ابلاغ کے عمل میں مزید تیزی آئی۔ پیغامات اور خبریں نہ صرف بہت تیزی پہنچانا ممکن ہوا…… بلکہ سمعی کے ساتھ بصری پیغامات بھی لمحوں میں پہنچے لگے۔ لائیو ٹیلی کاسٹ سے دنیا کے دور دراز مقامات سے مختلف ایونٹس براہِ راست دیکھنا ممکن ہوا۔ کہیں سے کرکٹ کا میچ براہِ راست دکھایا جاتا ہے، تو کہیں سے قدرتی آفات کی براہِ راست کوریج ممکن ہوتی ہے۔
دنیا ابھی ان چیزوں کو سمجھ رہی تھی کہ اچانک انٹرنیٹ کا سونامی آگیا۔ ایک ایسا سونامی جس نے ابلاغ کے سارے عمل کو ایک جدید سانچے میں ڈال دیا۔ انٹرنیٹ کے آنے سے پہلے ابلاغ کے جتنے بھی ذرایع تھے…… یا تو وہ حکومتی کنٹرول میں تھے اور یا اشرافیہ تک محدود تھے۔ آپ کو ٹی وی یا اخبار میں وہ کچھ ملتا جو حکومت یا اشرافیہ آپ تک پہنچانا چاہتی۔ اخبارات میں کالم لکھنے والے بھی خاص لوگ ہوتے تھے جن کی رائے مستند سمجھی جاتی تھی اور رائے عامہ بنانے میں مدد دیتی تھی۔ یہی کام ٹی وی پر بھی ہورہا تھا…… بلکہ اب بھی ہورہا ہے۔ کچھ چینلوں پر مخصوص لوگ بیٹھ کر ایک مخصوص بیانیہ کو آگے بڑھاتے ہیں۔ آپ کو وہی دیکھنا اور سننا پڑتا ہے جو چینل کا مالک آپ کو دکھانا یا سنانا چاہتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ابلاغ کے اس سارے عمل میں عوام کا حصہ نہ ہو نے کے برابر تھا۔
قارئین! مَیں نے انٹرنیٹ کو سونامی اس لیے کَہ دیا کہ اس کے آنے سے روایتی میڈیا اور ابلاغ کے باقی طریقوں پر ایک ضرب پڑی۔ وہ اس لیے کہ انٹرنیٹ نے لوگوں کو زبان دی۔ ابلاغ کے اس نئے نظام میں عوام کو اپنی بات کرنے کا موقع ملا۔ ان کو اپنی رائے دینے کا موقع ملا۔ ملکی مسایل ہوں یا بین الاقوامی معاملات، معیشت ہو یا سیاست…… غرض ہر میدان میں عوام کی رائے سامنے آنے لگی۔ نئے نظریات اور نئے خیالات سامنے آئے۔ شروع میں تو حکومتیں روایتی طریقوں پر چل کر ان آوازوں سے صرفِ نظر کرنے لگی…… لیکن کب تک۔ مجبوراً دنیا کے بہت سے ممالک خصوصاً مغربی ممالک نے عوام کی باتوں کو اہمیت دی اور یوں تاریخ میں پہلی دفعہ عوام کو سیاسی اور حکومتی معاملات میں حصہ مل گیا۔ ان کی رائے کو قانون سازی میں اہمیت دی گئی…… جس سے مغربی ممالک کافی حد تک فلاحی ریاستوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ حکومتی نمایندے اور عوام ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے لگے۔ جدید سمارٹ فونز کے آنے سے عوام میں اس کا استعمال آسان ہونے کے ساتھ مقبول بھی ہوا۔ دور دراز ملکوں میں کام کرنے والے اپنے خاندانوں اور رشتہ داروں کے قریب آگئے۔ سوشل میڈیا کے بہت سے پلیٹ فارم بن گئے جن میں ٹو یٹر، فیس بک، یوٹیوب، انسٹا گرام اور ٹیلی گرام قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ہزاروں کی تعداد میں پلیٹ فارمز بن گئے…… جو لوگوں کو آپس میں جوڑ رہے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر سربراہانِ مملکت، وزرا، مختلف امور کے ماہرین، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز غرض ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ کوئی بھی، کسی سے بھی، کسی بھی وقت رابطہ کرسکتا ہے اور کسی بھی معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔ جس طرح سوشل میڈیا نے سیاست میں انقلاب برپا کیا، عین اسی طرح اس نے زندگی کے ہر میدان میں اپنا اثر جمایا۔ اگر تعلیم کا شعبہ لے لیں، تو دنیا کی صفِ اول کی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور ان کی لائبریریوں کے پاس پہنچنا ایک کلک کی بات ہے۔
اسی طر ح معاشی ترقی میں بھی اس کا جادوئی کردار ہے۔ کمپنیوں کے لیے اپنی مصنوعات بیچنا ہو یا کسی فلم کی تشہیر کا معاملہ ہو، سب سوشل میڈیا سے فایدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا کے فواید دیکھیں، تو اس پر جتنا لکھا جا ئے کم ہے۔ مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر پھر کسی اور بلاگ میں اس کے فواید پر بحث کریں گے…… لیکن جہاں اتنے فواید ہوں، وہاں کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں۔
جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اطلاعات اور خبروں کی ترسیل کا ایک تیز ترین ذریعہ بن گیا…… وہاں بدقسمتی سے کچھ مفاد پرست اور زرپرست لوگوں نے اس کے ذریعے جھوٹ کا پھیلاو شروع کردیا۔ شروع میں کسی پروڈکٹ کو بیچنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا گیا، جو اَب بھی جاری ہے۔ اس کا براہِ راست نقصان صارفین کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ جب وہ کوئی ایسا پراڈکٹ خریدتے ہیں جس کی تشہیر میں جھوٹ سے کام لیا گیا ہو۔ اس کا اثر صارف کی جیب پر پڑتا ہے۔ مختلف مصنوعات کی جھوٹی تشہیر نے آہستہ آہستہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی جھوث کو فروغ دیا۔ انفارمیشن کے نام پر مس انفارمیشن کا پھیلاو ہونے لگا۔ ان سب کے پیچھے مفاد ہرست گروپ ہوتے ہیں…… جو اپنے کسی مقصد کے حصول کے لیے مسلسل جھوٹ پھیلاتے ہیں…… اور بدقسمتی یا کم علمی کی وجہ سے معاشرے میں اس کا اثر لیا جا تا ہے۔
لوگ جھوٹ کو سچ سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجے میں معاشرے کے اندر بے چینی پھیلنے لگتی ہے۔ جس کا براہِ راست اثر قوموں کی مجموعی زندگی ہر پڑتا ہے۔ جس طریقے سے سیاسی جماعتیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلارہی ہیں اور عوام جس تیزی سے اس پر یقین کرتے ہیں یہ نہایت خطرناک ہے۔ یہ ایسا ہے کہ کوئی ملک کسی بہت بڑے جنگ کی لپیٹ میں ہو اور عوام دشمن کا ساتھ دیں۔
اس طریقۂ جنگ کے لیے کچھ دانش ور ’’ففتھ جنریشن وار فئیر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں…… یعنی ایک ایسی جنگ جو جدید ہتھیاروں کے ساتھ جدید سائنسی طریقوں کو بروئے کار لاکر لڑی جاتی ہیں۔ اس جنگ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر کسی بھی ملک کو اندرونی خلفشار اور بے چینی کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار کا سب سے پہلا نشانہ سچ ہوتا ہے…… یعنی اس جنگ میں سچ کو سب سے پہلے ماردیا جاتا ہے۔ جس کے لیے موجودہ ابلاغ کے تمام ذرایع بشمول الیکٹرانک میڈیا اور اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چانکیہ، میکاولی اور گوئبلز کے فلسفے کے مطابق اپنے اہداف کے حصول کے لیے جھوٹ کو اس انداز میں پھیلایا جاتا ہے کہ لوگ نہ صرف اس پر یقین کرتے ہیں…… بلکہ اس کو نصب العین بناکر اس کے لیے جان دینا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ چند سال پہلے اس قسم کی جنگوں کا تجربہ مشرقِ وسطیٰ میں کیا گیا۔ جس میں مصر، تیونس، شام اور لیبیا کے اندر عرب سپرنگ کے نام پر حکومتوں کے تختے الٹائے گئے اور بڑے پیمانے پر خوں ریزی کی گئی۔ جن ملکوں میں یہ تجربات کیے گئے وہ ابھی تک بحرانوں کے لپیٹ میں ہیں۔ بجائے عوام کا معیارِ زندگی بلند ہونے پر وہ مزید پستیوں میں چلے گئے۔
اس کام کو منظم اور مربوط سائنس کا استعمال کرکے پچھلے چند سالوں سے پاکستان کے اندر بھی شروع کیا گیا ہے۔ پاکستان کے حالات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے، تو یہی کہانی یہاں بھی شروع ہے۔ کہانی کے کردار سب کے سامنے ہیں۔ روزانہ ٹنوں کے حساب سے پبلک پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا پر جھوٹ بولے اور پھیلائے جاتے ہیں…… اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس پر یقین بھی کرتی ہے۔ جس سے معاشرہ ایک واضح تقسیم کا شکار ہوگیا ہے۔ لوگوں کی آپس میں نفرتیں، دشمنی کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ ایک دہائی پہلے عوام جن اداروں کی بے پناہ عزت کرتے تھے…… آج ان کے خلاف ایک منظم مہم چلا کر متنازعہ بنانے کی بھر کوششیں ہورہی ہیں۔ سیاسی نظام مفلوج ہوگیا ہے۔ آئین کی کوئی وقعت نہیں رہی۔ سیاسی پارٹیاں وہی گھسی پٹی پرانے طریقوں سے اس عفریت کا مقابلہ کرنے کی کوششیں کرتی ہیں جو غیر موثر ہیں۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ یہ صلاحیت نہیں رکھتیں کہ اس کا موثر جواب دیں۔
الیکٹرانک میڈیا پر کچھ صحافی نما اینکرز بھی اس نئی جنگ کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے ہیں۔ کسی کے پاس کو ئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں۔ بس پرانے آزمائے ہوئے نسخے ہیں جو اب ایکسپائر ہوچکے ہیں۔ یہ سائنسی جنگ ہے جس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ہو رہا ہے، جس میں سائنسی ڈیٹا کی مدد سے اپنے اہداف حاصل کیے جا رہے ہیں۔ اور ہم وہ پشتو کی مثال کے مصداق ’’د ہاتھی پہ غوگ کی اُودہ یو۔‘‘
اگر ان حالات سے نکلنا ہے، تو اس کے لیے باقاعدہ سائنس اور ڈیٹا کا استعمال کرنا پڑے گا۔ نہ یہ روایتی جنگ ہے، نہ روایتی طریقے سے اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور نہ سب اچھا ہی ہے…… یا ’’سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘ سے کام چلے گا۔
اگر ملک کو اس حالت سے نکالنے کی واقعی کسی کو فکر ہے، تو پھر سائنسی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے اس کو جنگ تسلیم کرنا ہوگا اور پھر اس جنگ کو ان طریقوں سے لڑنا ہوگا جو اس وقت جدید دنیا میں رایج ہیں۔ آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔ ڈیٹا سائنس اور اس کے استعمال کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ہندوستان میں مغلوں کے دور میں انگریز کسی بڑی فوج کے ساتھ نہیں آیا تھا لیکن اس کے پاس اس وقت کے حساب سے جدید ٹیکنالوجی تھی…… اور اسی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس نے لاکھوں کی افواج کو پسپا کرکے پورے ہندوستان پر قبضہ جمالیا تھا ۔ نئے دور کے نئے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر اور ٹھوس منصوبہ بندی سے ہم اپنی بقا اور خود مختاری کا دفاع کرسکتے ہیں…… ورنہ بصورتِ دیگر دشمن ہم پر ہمارے ہی لوگوں کی مدد سے قابو پالے گا۔
مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے وقت مَیں کراچی میں تھا۔ اتفاق سے اس وقت روس سے کچھ دوست بھی آئے تھے۔ اچانک شہر میں ہلچل مچ گئی۔ لوگوں نے مٹھائی بانٹنی شروع کی۔ ایک روسی دوست نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ مَیں نے بتایا کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دیے۔ اس لیے یہ لوگ خوشی منا رہے ہیں۔ وہ مسکرا کر بولا کہ اگر ایٹم بم کسی ملک کو بچاسکتے، تو سوویت یونین کبھی نہ ٹوٹتا۔ کیوں کہ دنیا کے سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار سوویت یونین کے پاس تھے۔
ہمیں بھی اب نئے سرے سے سوچنا ہوگا۔ نئی منصوبہ بندی سے آگے بڑھنا ہوگا…… اور اگر ہم یہ نہیں کرسکتے…… تو پھر کوئی معجزہ ہی ہمیں ان حالات سے باہر نکال سکتا ہے۔
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔