نہ جانے وہ کون سا سال اور مہینہ تھا جب مملکتِ خداد کے سابقہ وزیرِاعظم جناب زیڈ اے بھٹو نے سوات میں یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا؟ اور نہیں معلوم کے کتنے سالوں بلکہ عشروں بعد خدا خدا کرکے سال دو ہزار دس میں سوات یونیورسٹی آخرِکار قائم ہو ہی گئی، جس پر ظاہر ہے ہم سب نے بغلیں بلکہ شادیانے بجائے اور ایک آس لے بیٹھے کہ اب یہاں کے بدقسمت نوجوانوں کو معیاری تعلیم کا ایک وسیلہ میسر ہوگا۔ یونیورسٹی کے قیام سے لے کر اب تک یعنی سات سالوں میں چار وائس چانسلرز کی تعیناتی اور پھر سُبک دوشی عمل میں لائی جا چکی ہے۔ آخری بار تعینات ہونے والے وائس چانسلر کو یہاں سے فارغ ہوئے پانچ یا چھ مہینے گزر گئے ہیں۔ تب سے یہ یونیورسٹی مستقل تو کیا نگران یا عارضی وائس چانسلر سے بھی محروم ہے اور تباہی کے دہانے پر ہے۔
یونیورسٹی کے سات ڈیپارٹمنٹس، دس مختلف تدریسی سنٹروں اور دو انسٹیٹیوٹس میں زیرِ تعلیم تقریباً چھے ہزار طلبہ و طالبات سے لاکھوں روپے فیس لینے کے باوجود مذکورہ ادارہ تدریسی اور انتظامی عملے کی کمی کا شکار ہے۔ سال دو ہزار تیرہ میں خالی اسامیوں کو پُر کرنے کے لئے دیا گیا اشتہار اب تک عمل درآمد کا منتظر ہے۔ حالانکہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں نام نہاد تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے اور بقول صوبائی حکومت کے تعلیمی اصلاحات پہ پیسہ بھی دیگر شعبوں کے مقابلے میں زیادہ خرچ کیا جا رہا ہے۔
مستقل وائس چانسلر کی غیرموجودگی کو جواز بناتے ہوئے یونیورسٹی کی مالی معاونت کرنے والے اداروں خصوصاً ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹی کو خبردار کیا ہے کہ ان کی رقوم سے تعمیر ہونے والی سہولیات پر کام بند کریں اور یہ کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سوات یونیورسٹی کے کسی اجلاس میں اپنے نمائندے نہیں بٹائیں گے، تاوقت یہ کہ مستقل وائس چانسلر تعینات نہ ہو۔ وائس چانسلر کی عدم دستیابی کی وجہ سے بہت سارے طلبہ و طالبات کی ڈگریاں جاری نہیں ہو پا رہیں۔ یونیورسٹی کے عملے کے خلاف احتساب اداروں نے تحقیقات شروع کی ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ وائس چانسلر کی تعیناتی میں تاخیر کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش ہے۔ نتیجتاً چھے ہزار طالب علموں کا مستقبل داؤ پر لگایا جا رہا ہے جس کے بارے میں کسی بھی اعلیٰ یونیورسٹی کے منتظمین فکر مند ہو تے ہیں۔
سوات یونیورسٹی کے انتظام اور دیکھ بھال کی ذمہ داری موجودہ رجسٹرار کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے مگر متعلقہ اختیارات تفویض نہیں کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ یونیورسٹی کو بہتر طور پر چلانے کے لئے کسی اقدام یا فیصلے کا مجاز نہیں، تاہم وہ ذاتی طور پر مسائل سے نمٹنے کے لئے محنت کر رہا ہے۔ سوات کے عوام اور علم دوست افراد کو یونیورسٹی کی زبوں حالی پر افسوس ہے اور مسلسل اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو ہی یونیورسٹی کی ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار کرنے کا ذمہ دار سمجھتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ طویل مدت سے مستقل وائس چانسلر سے محروم یونیورسٹی کا مقدر زبوں حالی اور تباہی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟
ووٹ دے کر عوام نے منتخب نمائندوں کو یہ طاقت بخشی کہ وہ عوامی مسائل کے حل اور حل کے لئے درکار وسائل نہ صرف تلاش کریں بلکہ اس کے مناسب استعمال کے لئے قانون سازی اور منصوبہ بندی کریں، لیکن اس صوبے میں صورتحال بالکل الٹ اور نرالی سی ہے۔ ہمارے صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے منتخب ممبران صاحبان کو یہ دیرینہ مسئلہ نظر نہیں آ رہا بلکہ اس مسلے کو حل کرنے کے بجائے اسے مزید الجھا رہے ہیں۔
میں اس بلاگ کے ذریعے ان تمام ممبران اور سیاسی قائدین سے التماس کرتا ہوں کہ خدارا، اپنی اآپس کی کدورتیں چاہے وہ سیاسی ہوں، نظریاتی ہوں یا پھر ذاتی، سب کو پسِ پشت ڈال دیں، اس یونیورسٹی کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں، یونیورسٹی کی نتظامیہ کے ساتھ تعاون کرکے اسے مالی اور انتظامی طور پر مستحکم بنائیں۔ اس یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات چاہے جس کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوں، آپ لوگوں کے سیاسی نظریے کے مستقبل کے رکھوالے ہیں۔ ان پر رحم کرکے ان کے مستقبل کو برباد نہ کریں۔
……………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔