ریاستِ سوات سے شیخ ملی کے نظامِ ویش کا خاتمہ

عبدالودود نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد اس نظامِ و یش کو ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ گردانتے ہوئے ختم کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ اس سے صرف حال ہی نہیں بلکہ مستقبل میں بھی بار بار سر اٹھانے والے مسائل سے نجات مل جائے گی۔ اکبر ایس احمد اس حقیقت (کہ اس اقدام میں باچا صاحب کے ذاتی اغراض و مقاصد تھے) کو تسلیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "وفادار خوانین کی حمایت کو مزید مستحکم بنیادیں فراہم کرنے کے لیے اس نے مختلف قسم کی اصلاحات کو متعارف کرایا۔ جیسے ویش کے اس نظام کا خاتمہ جس سے اُس نے اپنے دشمنوں کو ہمیشہ کے لیے ان کی زمینوں سے محروم کر دیا۔ جب کہ اپنے وفاداروں کو اس طرح نواز کر ہمیشہ کے لیے زیرِ بارِ احسان بنا دیا۔” مانتا ہے کہ ان اصلاحات جیسے کہ ویش کے پیچھے اُس کے ذاتی مقاصد کار فرما تھے اور یہ کہ اُس نے کھل کر اراضی کے مستقل بندوبست کے موقع پر اپنی ذاتی پسند نا پسند سے کام لیا۔ یہ ایک معلوم حقیقت تھی لیکن باچا صاحب کے خاص وفادار لوگوں نے مصنف کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تاہم اُس نے اپنے سارے مخالفین کو ہمیشہ کے لیے ان کی اراضی سے محروم نہیں کیا۔
باچا صاحب سے منسوب روداد میں بیان کیا گیا ہے کہ: "مروجہ نظام ایک لعنت تھی۔ جب تک یہ چلتا رہا، تو یہ ایک مستقل خلش کی صورت مجھے بے چین کیے رہا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ تمام برائیوں کی جڑ یہی نظام ہے اور جب تک میری ذہنی طور پر ناپختہ اور جاہل رعایا زمین کی اس عارضی تقسیم سے نجات حاصل نہ کرلیں، وہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہ ہوسکیں گے۔”
باچا صاحب کی روداد کی پشتو اشاعت میں یہ بیان شامل نہیں ہے۔ اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "اپنی بھاری بھر کم ذمہ داریوں کا پوری طرح احساس کرتے ہوئے میں نے بندوبست اراضی کے مسئلہ کو فوری طور پر حل کرنے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں۔ اس مسئلہ کو معرضِ التوا میں نہیں ڈالا جاسکتا تھا۔ جیسے ہی جنگوں سے مجھے سانس لینے کی مہلت ملی، میں نے اراضی اصلاحات کا پروگرام بنایا۔” ان مسائل اور مشکلات کے بارے میں اُس نے کہا: "اس عظیم الشان منصوبہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مجھے بے حد و حساب رکاوٹوں کا سامنا کرنا تھا۔ دن بھر طویل فاصلوں سے گذر کر صبر آزما جرگوں کا انعقاد کرتا۔ اپنے منصوبہ کے حق میں لمبی لمبی تقریریں کرتا۔ شان دار مستقبل کے خواب دکھاتا اور لوگوں کے ساتھ فرش پر راتیں گذارتا۔ کسی گھوڑے کی طرح دن رات کام کرتا، لوگوں کی شکایات سن کر ان کا ازالہ کرتا اور پوری ریاست کا پیادہ پا سفر کرتا۔”
باچا صاحب سے منسوب روداد میں مستقل بندوبست اراضی کی اس دشوار مہم کو سرکرنے کا سہرا صرف انہی کے سر باندھا گیا۔ حالاں کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے جس کا والی صاحب نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اس ضمن میں وزیر برادران نے بھی ہر طرح سے شب و روز ایک کرکے ان کا ساتھ دیا۔ پوری ریاست میں اس کام کو مکمل کرنے میں پانچ سال لگ گئے۔ باچا صاحب بیان کرتے ہیں: "مجھے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں پورے پانچ سال لگ گئے۔ بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کام اُن فوجی مہموں سے زیادہ دشوار اور سخت جاں گسل ثابت ہوا، جن میں کئی برسوں تک جان کھپانی پڑی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں اپنوں کی ناراضگی اور غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود میں اس کام سے پیچھے نہیں ہٹا، تاکہ اپنے لوگوں کو خانہ بدوشی کی تکلیف دہ زندگی سے نجات دلا کر انہیں خوشحالی اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرسکوں۔ بالآخر کامیابی نصیب ہوئی اور اپنے عوام کی اصلاح و بہتری کی کوششیں بار آور ثابت ہوسکیں۔”
مستقل ویش کے ساتھ سوات امن و ترقی کی راہ پر گامزن ہوا اور خوب صورت عمارات، فارمز اور گھر معرضِ وجود میں آئے۔ (کتاب "ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 195 تا 196 انتخاب)