پختونوں کی تاریخی روایات کے مطابق دلہ زاک قبیلہ 750ء اور 850ء کی دہائی سے کوہِ سلیمان کی وادیوں میں آج تک رہائش پذیر ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق "دلہ زاک قبائل” پختونوں کے "عنعنوی” اور "دودیزی” شجرہ کے تحت "کرلانڑی” کی نسل سے ہیں۔
دلہ زاک قبیلے کے حوالے سے تاریخ دان لکھتے ہیں کہ یہ سب سے پہلے وادئی پشاور میں دریائے اباسین کے کنارے آکر آباد ہواتھا۔ یہ ہندو بادشاہوں کے دورِ حکومت میں یہاں آکر ان علاقوں پر قابض ہوا تھا۔ جب سلطان محمودِ غزنوی نے 997ء میں ہندوستان پر حملے شروع کیے، تو دلہ زاک قبائل نے باقاعدہ طور پر ان کی مدد کی۔ دلہ زاک قبیلے نے اپنے ایک بزرگ ملک یحییٰ کی سرپرستی میں سومنات مندر پر حملے میں شرکت کی تھی۔
اگر تاریخی صفحات سے گرد اُڑائی جائے، تو کچھ ایسی روایات بھی ملتی ہیں کہ لاہور پر ایک ہندو راجا کی کمزور ریاست قائم تھی۔ دلہ زاک قبائل نے ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔ خیبر کے تاریخی در ے سے ہوتے ہوئے پشاور پر حملہ آور ہوئے اور اپنے زورِ بازو پر یہاں آکر آباد ہوئے۔ اس علاقہ کو اس زمانے میں "بگرام” کہا جاتا تھا۔ اس طرح دلہ زاک قبائل نے سردریاب کے جنوبی حصوں پر دور دور تک اپنا قبضہ جمالیا۔
آج سے 150 سال پہلے پختونوں کی تاریخ پرلکھی گئی کتاب "تاریخِ حیاتِ افغانی” میں مصنف ان قبائل کے حوالے سے کچھ یوں لکھتے ہیں: "دلہ زاک قبیلے کے بڑے بوڑھے اپنے آبا ؤ اجداد کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ آغاز کے دور میں یہ قبیلہ افغانستان کے مشرقی علاقے میں آکر آباد ہوا۔ اس کے آنے سے پہلے پشاور اور سردریاب کے مشرقی اور جنوبی کناروں پر ہندو آباد تھے، جن کو "سرہ کافر” (یعنی اپنے عقیدہ کے پکے کافر) کہا کرتے تھے۔ یہ نسلاً "گریک” اور "بکٹرین” تھے۔ آغاز میں "دیگان” اور اصل سواتیوں کے بزرگ پشاور، راولپنڈی اور جلال آباد کی حدود میں آباد تھے۔ دلہ زاک قبیلے کایہاں پر قابض ہونے کے بعد انہوں نے سواتیوں کو وقفہ وقفہ سے یہاں سے نکالا اوراپنا قبضہ مضبوط بناتے گئے۔ قصہ کوتاہ، یوسف زئی قبیلہ کابل کے حکمران "مرزا الغ بیگ” کے دور میں بہت مشہور تھا، لیکن جب یہ اپنی کثرت اور طاقت کے غرور میں مست ہوئے اور پشاور پر قبضہ کرنے کی غرض سے یہاں پر حملہ آور ہوئے، تو اس (یوسف زئی قبیلہ) نے دلہ زاک اور مومند قبائل سے نہ صرف مات کھائی بلکہ پشاور چھوڑنے پر بھی مجبور ہوا۔
اُس زمانے میں پشاور، دوآبہ، باجوڑ، ننگرہار، کلپانڑہ اور ہزارہ تک کے علاقوں میں دلہ زاک آباد تھے۔ اُسی دور میں یوسف زئی کابل کے حکمران "مرزاالغ بیگ” سے مار کھا کر پشاور آئے اور یہاں آباد ہوئے۔
یوسف زئی قبیلے کے ایک بزرگ نے دلہ زاکوں سے یہاں آباد ہونے کے لیے ایک علاقہ مانگا، جس پر انہوں نے دو آبہ کا علاقہ یوسف زئیوں کے نام کر دیا۔ "دو آبہ” میں آباد ہونے کے کچھ عرصہ بعد یوسف زئیوں نے دلہ زاکوں سے کہا کہ ان کے لیے یہ زمین ناکافی ہے۔ انہیں آباد ہونے کے لیے کچھ اور علاقے درکار ہیں۔ دوبارہ درخواست پر یوسف زئی قبیلے کو دانشکول، عنبر اور باجوڑ کے علاقے حوالہ کیے گئے۔ حوالگی کے وقت دلہ زاک قبیلہ نے یوسف زئیوں سے کہا کہ دو آبہ، اشنغر تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر زور اور طاقت رکھتے ہو، تو اپنی تلوار سے یہ علاقہ بھی شلمانی قبیلے سے چھین سکتے ہو۔
اس کے بعد دلہ زاک اور یوسف زئی قبائل کے درمیان زمینوں کی تقسیم پر ڈھیرساری لڑائیاں ہوئیں، جن میں دونوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑا۔ آخرِکار ان لڑائیوں کا اختتام دونوں قبائل کے سرداروں کی صلح پر ہوا۔ اس جرگہ میں دلہ زاکوں کے سردار "ملک محمد خان دلہ زاک” اور یوسف زئیوں کے "ملک احمد خان بابا” خود شریک تھے۔
مغل بادشاہ جہانگیر کے دورِ حکومت میں "ظفر خان کوکہ” نے دلہ زاک قبائل کی فوج کو شکست دینے کے لیے ایک دستہ فوج کا مقرر کیا۔ "ظفر خان کوکہ” کی فوج نے دلہ زاکوں کے بزرگوں کو پکڑ کر قید میں ڈال دیا، اور ان کے گھرانوں کو پنجاب اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہونے پر مجبور کیا، جن میں ایک بڑی تعداد آج بھی ان علاقوں میں آباد ہے۔ دلہ زاک قبائل کے ڈھیر سارے گھرانے مغل دورِ حکومت میں ہی خیبر پختون خوا میں آباد ہوچکے تھے۔
آئیے، اب دلہ زاک قبائل کی شاخوں پر تھوڑی سی روشنی ڈالتے ہیں، جن کے نام کچھ یوں ہیں: نوری خیل، یعقوب خیل، احمد خیل، دتک زئی، عمر خیل، یحییٰ زئی، زکریا خیل، سموزئی، شمشیر خانی، نصرت خیل، عنایت خیل، امازی، یاسین خیل، مونڈازی، موتی زی ، وحید رزئی، مومازئی، حسین زئی وغیرہ۔
دلہ زاک پختون خوا میں چارسدہ، مردان، سوات، بونیر، مانسہرہ، شب قدر، چکدرہ، باجوڑ (خار)، پشاور، حسن ابدال، ٹیکسلا، راوالپنڈی، ہری پور، چچ، ہزارہ، اٹک اور ایبٹ آباد میں آباد ہیں۔
ہری پور کے علاقہ کے دلہ زاک گاوؤں اور مختلف بانڈہ جات جیسے سرائی صالح، شاہ محمد، لبن بانڈی، مراد آباد، مونن، غیبہ، بگرا، شاہ مقصود، چور، پرانا باکہ، ہری، اخون بانڈے، تیر، تالوکیر، بھیرا، کولیان، کلنوان اور چمبہ میں بسیرا کرتے ہیں۔
اس طرح ہندوستان میں دلہ زاک اُترپردیش، دایالت، میرٹھ، ولسوالی (ڈسٹرکٹ) میں ڈیرا ڈالے سب دلہ زاک پٹھان آباد ہیں، جن میں بعض قبائل اب بھی پشتو بولتے ہیں۔ دلہ زاک قبیلے کے "غوب احمد خان” جو شاہ جہان پور میں رہتے ہیں، اپنے قبائل کے حوالہ سے انہوں نے ڈھیر سارا کام کیا ہے، جس میں سرخ منادی، شیوگئی، مصری خیلو، جلال پور، رسول پور کے دلہ زک، میرٹھ کے ڈسٹرکٹ "شاہ جہاں پور” تک بسیرا کیے ہوئے ہیں۔
ہندوستان میں دلہ زاک قبائل کے حوالے سے ہمیں یہ تاریخی معلومات وہاں کے بزرگ شخصیات کی مدد سے ملی ہیں۔ ان بزرگوں میں ایک محمد عباس خان دلہ زاک جو مغل دورِ حکومت میں اپنی پانچ ہزار فوج کے ساتھ ہندوستان آئے تھے، نے مغل بادشاہ کا قرب حاصل کرکے شاہی منصب پایا تھا۔
ہندوستان کی دوسری مشہور شخصیت جس نے پختون قبیلہ دلہ زاک کے حوالے سے ہمیں معلومات فراہم کی ہیں، وہ محمد خان ہیں۔ موصوف کو مغل بادشاہ کے دربار سے "اوڑیسہ” کی ذمہ داری دی گئی تھی، جس میں ہوگلی، بنگاپور اور بِہار تک کا علاقہ آپ کی راجدھانی میں شامل تھا۔ محمد خان کا ہندوستان میں "ہوگلی” میں بسیرا تھا۔ اس نے ایک قومی لڑائی میں شہادت پائی۔ شاہ جہان پور کے شہید باغ میں ان کا مزار ہے۔
پختون دلہ زاک "جنید خان” بھی رسول پور میں آئے تھے۔ یہ جگہ اب "ننپور” کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ یہ علاقہ شاہ جہان پور کے ساتھ جڑا علاقہ ہے۔
ایک اور پختون دلہ زاک دلاور خان تھے جن کو اس علاقے میں بھیجا گیا تھا۔ وہ بھی شاہ جہان پور میں دلہ زاک محلہ جلال پور میں آکر آباد ہوئے تھے۔
مغل بادشاہ اور نگ زیب کے دور میں بھی اس کی فوج میں مصری خان، عنایت خان اور نہر خان نامی مشہور پختون دلہ زاک شامل تھے۔ ان کے علاوہ ہندوستان کے بنگال، اُترپردیش، پنجاب کے جالندھر اور راجھستان کے حصوں میں بھی پختون دلہ زاک آباد ہیں۔
دلہ زاک قبائل کی ایک مشہور بہادر خاتون "شاہ بورئی” تھی، جو عبدالرحمان عمر خیل دلہ زاک کی بیٹی تھی۔ اس کی جرأت اور بہادری کے قصے اور کہانیاں پشتو لوک ادب میں بہت مشہور ہیں۔ (پشتو ماہنامہ "لیکوال” ماہِ اپریل، 2019ء میں شائع شدہ "ڈاکٹر لطیف یاد” کے مضمون "دلہ زاک” کا اردو ترجمہ)
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔