اپنی تاریخ، تنوع، تاریخی اور ثقافتی ورثے اور فطری حسن کی وجہ سے وادیِ سوات نہ صرف پورے پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں منفرد مقام رکھتی ہے۔ گندھاری تہذہب کا مرکز یہاں رہا ہے اور اس سے پہلے یہاں کی مقامی ثقافت بھی منفرد تھی۔ جب بدھ مت اُبھرا، تو اس خطے کی اشرافیہ بھی اس سے بہرہ ور ہوئی۔ 11ویں صدی سے پہلے یہاں بدھ مت عروج پر تھا اور اس صدی کے بعد یہاں اسلام نے قدم جمائے، جس کے نقوش 16ویں صدی تک اس قدر گہرے نہیں تھے۔ 16ویں صدی میں جو یہاں اسلام کی آمد ہوئی، تو مقامی مذاہب آہستہ آہستہ دم توڑ گئے اور 18ویں صدی کے اَواخر تک یہ خطہ پوری طرح اسلام کے نور سے منور ہوا۔ وادیِ سوات میں جہاں سب سے آخر ی غیر مسلم مسلمان ہوئے، تو وہ خطہ موجودہ تحصیلِ بحرین کا علاقہ ہے۔ اس علاقے کو توروال کہا جاتا اور یہ گجو خان کی حکومت کے تحت نہیں تھا۔ یہاں مغربی توروال یعنی دریائے سوات کے مغربی کنارے سے ریاست چترال نے بھی کسی زمانے میں خراج لیا ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
خوشحال خان خٹک جب سوات آکر چلے گئے، تو اُن کو ملکِ توروال اور شوال دیکھنے کی حسرت رہی۔ اسی طرح روہیل کھنڈ کے نواب حافظ رحمت خان کے نام سے موسوم سوات کی نسلی و نسبی تاریخ ’’تواریخِ حافظ رحمت خانی‘‘ بھی خان کجو/ گجو کی حکومت کی سرحد توروال اور تیرات بتاتی ہے یعنی توروال کی سرحد موجودہ پیا خوڑ تک تھی۔
ریاستِ سوات نے اس علاقے پر 1921ء اور 1922ء میں قبضہ کیا۔ مدین اور بشیگرام درّے پر ریاست کی حکومت 1921ء کو آئی، جب کہ بحرین کے علاقے پر ریاست 1922ء کو کئی جنگوں کے بعد قائم ہوئی۔ اسی دوران میں کئی توروالی رہنما علاقہ بدر بھی ہوئے، جو ریاست کی عمل داری کے مخالف تھے اور ریاستِ سوات کو نہیں مانتے تھے۔ اُن میں کئی رہنما پنج کوڑہ میں پناہ گزین ہوئے جب کہ کئی لوگ داریل اور تانگیر کی طرف چل دیے۔
ریاستِ سوات جب یہاں قائم ہوئی، تو اس کی انتظامی سرحد قاروندکے تک رہی اور کالام اور اتروڑ بہ دستور انگریز پولی ٹیکل ایجنٹ کے براہِ راست ماتحت رہے۔ کیوں کہ اس علاقے پر ریاستِ دیر اور چترال کا بھی دعوا تھا۔ کالام اور اتروڑ کے علاقے پر ریاستِ سوات نے 1947ء میں قبضہ کیا، لیکن اس کو نئے ملک پاکستان کی حکومت نے کبھی تسلیم نہیں کیا اور 1954ء میں کالام کو دوبارہ اپنے قبضے میں لیا اور اس کو قبائلی علاقوں کی طرح فاٹا بنالیا۔ اس لیے اس کو کئی لوگ ایجنسی بھی کہا کرتے تھے۔ حکومتِ پاکستان کی بھی یہاں شروع میں کچھ خاص عمل داری نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کالام اور اُتروڑ کے علاقوں میں 1970ء، 1980ء اور 1990ء تک لوگ بازاروں میں بغیر کسی روک ٹوک کے اسلحہ لے کر گھومتے تھے۔ یہاں سیاحت بھی 1980ء کے بعد آہستہ آہستہ شروع ہوئی۔
ریاستِ سوات نے برانیال/ بحرین کو انتظامی مرکز بنالیا۔ یہاں حاکم بٹھا دیا جب کہ مدین اور کالام (کالام کے انصرام کے لیے ریاست سوات کو انگریز حکومت تنخواہ دیتی تھی) میں تحصیل قائم کیے، جو بحرین میں حاکم کے ماتحت ہوتے تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ریاستِ سوات کے دوران میں حاکمیت کی مثال صوبے کی تھی اور حاکم گورنر/ وزیرِ اعلا ہوتا، جب کہ تحصیل اس ریاست میں گویا ضلع ہوتا تھا۔
اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بعد میں بحرین ہی کو انتظامی لحاظ سے اس پورے علاقے کا مرکز بنالیا گیا جو ابھی تک جاری ہے۔ تحصیل بحرین کو کئی لوگ ’’سوات کوہستان‘‘ یا ’’کوہستان سوات‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کئی لوگ اپنے اپنے علاقے کو کوہستان کہتے ہیں۔ مثلاً: چیل درہ والے اسی درے کو ’’چیل کوہستان‘‘، کالام والے ’’کالام‘‘ اور گرد و نواح کو ’’کالام کوہستان‘‘ جب کہ بحرین کوہستان کا لفظ اگرچہ کم مستعمل ہے، تاہم کئی لوگ اس پر بھی زور دینے لگے ہیں۔ فارسٹ محکمے کی ایک تحقیق کے مطابق تحصیلِ بحرین پورے ضلع سوات کا رقبے کے لحاظ سے 60 فی صد سے زیادہ بنتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سوات، قومی اسمبلی کے تینوں حلقوں کا جائزہ  
سوات، پی کے 3، 4، 5 اور 6 کا جائزہ  
سوات، پی کے 7، 8، 9 اور 10 کا جائزہ  
نظریاتی کارکن پر ایک پیراشوٹر کو ترجیح دی گئی ہے، ملک آصف شہزاد 
ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے باوجود کپتان کے ساتھ ہیں، انجینئر ریاض خان 
اسی طرح کئی غیر پشتون اور غیر گوجر لوگوں کا خیال ہے کہ سوات کوہستان میں صرف توروالی اور گاؤری شامل ہیں، مگر مدین اور بشیگرام کے کئی لوگ بھی خود کو کوہستان سے منسلک کرتے ہیں۔ اسی طرح یہاں مقیم گوجر لوگ بھی خود کو کوہستانی نام سے موسوم کرتے ہیں۔ تحصیلِ بحرین کو ’’سوات کوہستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ حالیہ تاریخی اعتبار سے مدین (چیریڑ) توروال کا اہم قصبہ رہا ہے اور یہی توروال بعد میں پشتو استعمال اور پھر ریاستِ سوات کے دور میں سرکاری طور پر زور دینے سے یہ ’’سوات کوہستان‘‘ معروف ہوا ہے۔
’’سوات کوہستان‘‘ کوئی انتظامی اصطلاح نہیں، بلکہ جغرافیائی اور ثقافتی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ چوں کہ یہاں بسنے والوں کو پشتون لکھاری اور علما نے ایک عمومی فارسی نام کوہستانی کہا، اس لیے مرورِ ایام کے ساتھ یہ شناخت مقامی باشندوں میں عام ہوگئی۔ کئی مقامی لوگ اس علاقے کو اَب کوہستان کہتے ہیں اور اس سے ایک ابہام بھی پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری طور پر کوہستان صرف اُس علاقے کو کہا جاتا ہے، جو بشام سے آگے گلگت کی طرف شاہراہِ ریشم پر دریائے سندھ کے دونوں کناروں چلاس تک موجود ہے۔ مَیں جب اپنے مضامین میں انگریزی میں "Swat Kohistan”لکھتا ہوں، تو اخبار کا ایڈیٹر اس کو "Swat and Kohistan” لکھتا ہے۔ انتظامی لحاظ سے سوات کوہستان ابہام پیدا کرتا ہے، صرف انتظامی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اور طرح سے بھی۔ توروالی شعر
گشُو کوٹے چمن گے آپ تأنگی سی ڈھأرا
آ دیریلے کا بھان کیئی بڑی سی باوا
تو کئی لوگوں نے سنا ہوگا۔ اس کے پیچھے یہ کہانی ہے کہ دیریل گاؤں کا مذکورہ شاعر کوئٹہ سے واپس پنڈی آیا، تو وہاں بس اڈے پر کلینڈر کوہستان کوہستان پکار رہا تھا۔ شاعر اُسے اپنا کوہستان سمجھ کر اُسی بس میں چڑھا اور وہ اُس کو لے کر شتیال اُتار گئی۔ وہ وہاں سے پھر تانگیر درّے چڑھ کر دوبیر درہ کے اُوپر سے ہوکر مانکیال درہ اُترا اور یہاں بڈئی بابا کو مخاطب ہوکر یہ شعر کہا کہ میں کوئٹہ اور چمن گیا تھا، لیکن واپس تانگیر کے راستے آیا، تو اَب میں گاؤں میں کیا بہانہ کروں کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟
اس علاقے کے توروالی اور گاؤری لوگ گندھاری داردی ہیں اور اُن کو سوات کی تاریخ اور کلچر سے کسی طور الگ نہیں کیا جاسکتا۔ پراکرت زبان کی گندھاری زبان کا جو لہجہ آج تک موجود ہے، وہ کھوٹان سنکیانگ (چین) میں موجود نیِا زبان ہے ۔ یہ زبان ساری داردی زبانوں سے قریب ہے اور ماہرین اس کا رشتہ توروالی سے قریب ترین بتاتے ہیں۔ مَیں نے خود اس زبان کی لغت میں ایک گھنٹے میں 50 ایسے الفاظ پالیے جو توروالی ہی کے لگتے ہیں۔
تحصیلِ بحرین میں 2017ء کی مردم شماری کی رُو سے توروالیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جن کی یہاں تعداد 84000 کے قریب ہے، جب کہ گاؤری اور پشتو بولنے والوں کی تعداد تقریباً 60000 اور 62000 ہزار بنتی ہے۔ دیگر زبانیں یعنی اشوجو، کھوار اور انڈس کوہستانی زبانیں بولنے والے بھی سیکڑوں میں رہتے ہیں۔ (توروالیوں کی کوئی 55000 کے قریب آبادی یہاں سے مستقل طور پر نقلِ مکانی کرچکی ہے اور پاکستان کے شہروں جیسے کوئٹہ، کراچی، حیدر آباد، نوشہرہ، پشاور، راولپنڈی/ اسلام آباد، سیالکوٹ، لاہور اور منگورہ و سیدوشریف میں آباد ہے۔)
تحصیلِ بحرین کی ہر بڑی وادی بحرین، کالام اور مدین کی اپنی اہمیت ہے۔ بحرین انتظامی مرکز ہے، تو کالام سیاحتی جنت ہے اور مدین تجارتی اور کافی حد تک تعلیمی مرکز ہے۔ اگر انتظامی لحاظ سے علاقہ بحرین کے نام سے منسوب ہے، تو جنگلات کے اعتبار سے سرکاری طور پر یہ علاقہ کالام کے نام یعنی کالام فارسٹ ڈویژن سے موسوم ہے۔ اسی طرح پولیس سرکل کا مرکز مدین ہے اور تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال مدین ہی میں واقع ہے۔ تینوں ایک دوسرے سے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اور ان کے بیچ کوئی بڑا تنازع بھی نہیں۔ گوجر بھائیوں کے ساتھ جنگلات اور چراگاہوں پر مسائل موجود ہیں، تاہم ایسے مسائل توروالیوں کے آپس میں میں بھی ہیں اور گاؤریوں کے ہاں بھی موجود ہیں۔ یہ اتنے بڑے مسائل نہیں، تاہم سردرد ضرور ہے کہ خاص مواقع میں یہ تنازعات سر اُٹھاتے ہیں۔
سیاسی اعتبار سے یہاں کوئی تنازع نہیں ہونا چاہیے، تاہم کئی اشاروں (Indicators) کو دیکھ کر سابقہ نمایندگان سے گلے شکوے ضرور پیدا ہوجاتے ہیں۔ گو کہ نہیں معلوم ایسا کیوں اور کس نے کیا……! تاہم سامنے تو منتخب نمایندہ ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا نظریں اُن پر پڑتی ہیں۔
مثلاً: ہائی سکول مدین ہائیرسیکنڈری سکول بن کر ماڈل ہائیر سکنڈری سکول بن گیا، جب کہ مانکیال ہائیرسیکنڈری سکول میں سٹاف کبھی مکمل نہ ہوا۔ یہی صورت کالام سکول کی ہے۔ بحرین ہائی سکول باوجود کوشش کے ہائیر سکنڈری سکول نہ بن سکا۔
گورنمنٹ ڈگری کالجز (گرلز اور بوائز) دونوں مدین میں بن گئے۔ مدین ہیڈ کوارٹر ہسپتال جدید ہوگیا، تاہم کالام کا ہسپتال سٹاف کی کمی کا شکار رہا ہے اور بحرین صرف ایک بی ایچ یو تک محدود ہوگیا ہے۔ مانکیال میں ہسپتال ابھی تک نہیں بن سکا۔
کیدام مدین ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ کا نام سکڑ کر صرف مدین ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ رہ گیا۔ حالاں کہ یہ منصوبہ کیدام ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ کے نام سے خود ورلڈ بنک کی ویب سائٹ پر ایک عرصے تک موجود تھا۔
درال خوڑ ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ کا ڈیزائن تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں مانا گیا، نہ اس میں مقامی یونین کونسل کو بھرتیوں میں ترجیح دی گئی ماسوائے کلاس فور کے۔ اس سے منسلک کالج ابھی تک نہ بن سکا۔ اس منصوبے کی رائلٹی کئی وعدوں کے باوجود متعلقہ یونین کونسل نہیں لائی گئی۔
بحرین کے علاقے میں کالج بنانے کے لیے زمینوں کا بہانہ بنایا گیا، تاہم یہی کالج بڑے عرصے تک مدین میں بھی کرایہ کے مکانوں میں قائم رہے۔
سوات یونیورسٹی کا کوئی کیمپس کالام میں نہیں بنایا گیا، نہ کالام میں کوئی فارسٹ کالج کا قیام ہی عمل میں لایا گیا۔ ’’فارسٹ ڈویلپمنٹ فنڈز‘‘کو اس علاقے میں نہیں لایا گیا۔ کالام اور بحرین میں مختلف محکموں میں مقامی نوجوان کم جب کہ غیر مقامی زیادہ ہیں۔ سیاحت کے شعبے میں تربیت غیرمقامی نوجوانوں کو دی گئی۔
یہاں ٹراؤٹ فشریز میں لوگوں کو تحصیل سے باہر کے علاقوں سے بھرتی کیا گیا۔ اسی طرح کالام فارسٹ ڈویژن میں باہر سے لوگوں کو لایاگیا۔ مقامی نوجوانوں کو ہنوز کسی بہانے لٹکایا رکھا ہے۔
بحرین بازار کی بحالی کو ایک سال سے زیادہ اس بہانے ٹالے رکھا گیا کہ یہ عمارات ان کے نزدیک دریا میں تجاوزات تھیں۔ وہ حکومت چلی گئی، تو اس روڈ کی بھرائی بھی شروع ہوئی اور اب سنا ہے کہ یہاں دریا کی کھدائی بھی جاری ہے جس کا کریڈیٹ اُس وقت کے مقامی ایم پی اے لے رہے ہیں۔
یہاں جنتے بھی پن بجلی کے منصوبوں پر کام کیا جانا ہے، اُن میں مقامی لوگوں کے فائدے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی ہے اور نہ کسی نے اس پر احتجاج ہی کیا ہے۔
پیڈو کے ملازمین کو مستقل کرنے کے لیے مقامی ایم پی اے نے اسمبلی میں واحد بل پیش کیا جو پاس کی گئی، جب کہ موصوف نے ایسی کوئی بل ان پن بجلی منصوبوں کے حوالے سے پیش نہیں کیا۔
یہاں کے مقامی سکولوں کو اساتذہ کی بھرتی کی خاطر باہر سے لائے گئے لوگوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا گیا اور جب وہ یہاں سے تبادلے کرواتے رہے، تو اس پر کوئی ردعمل دیا گیا نہ احتجاج۔ کئی لوگوں کے خیال میں ایسا مقامی ایم پی اے کے ایما پر ہوتا رہا۔
گبین جبہ تک پکی سڑک بن سکتی ہے، لیکن ایسا درال درّے تک نہیں کیا جاسکتا۔جو سڑک پراجیکٹ کی سڑک سے آگے شروع کی گئی تھی، وہ سیلاب کی نذر ہوئی۔اس کے بعد کام بند پڑا ہے۔ اس طرح کالام اور اتروڑ کے لیے میڈیکل کالج اور ایگریکلچر یونیورسٹی میں سیٹ مختص کی گئی (جو کہ خوش آیند ہے) تاہم اس سیٹ کی حدود کو یونین کونسل مانکیال اور بالاکوٹ تک لانا مناسب اور حق پر مبنی تھا، پر ایسا نہ کیا گیا۔
تحصیلِ بحرین کو تحصیل چیئرمین کے لیے تقسیم کرنے کی مذموم کوشش کی گئی اور اس کے لیے مشورے کیے گئے، تاہم وقت نہ ملا۔ اَپر سوات ضلع کی بات کئی بار کی گئی، مگر اس کو بنانے کی نوبت نہ آئی۔ کیوں کہ وزیرِ اعلا نہیں چاہتا تھا۔
اپر سوات ترقیاتی اتھارٹی بنائی گئی، تاہم اس میں اپر سوات یعنی بحرین، کالام، مدین وغیرہ سے کسی بندے کو ملازم رکھا ہو، تو بتادیجیے گا۔
اس قسم کے موازنے سے گلے بڑھتے ہیں۔ لہٰذا میں مزید موازنہ نہیں کروں گا۔ ہماری بقا اس میں ہے کہ ان علاقوں کو ترقیاتی طور پر ترجیح دیں جو ترقی کے لحاظ پس ماندہ ہیں۔ اُن لوگوں کو سہارا دیں جو کم زور اور دھتکارے ہوئے ہیں۔ آپ کو ان کی اہمیت کا احساس الیکشن کے وقت تو ہوا ہوگا کہ ان کا ووٹ بھی کسی نواب سے کم نہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔