عام انتخابات کو لے کر اب بھی بعض سیاسی حلقوں میں ابہام پایا جاتا ہے۔ گو الیکشن کمیشن ایک سے زاید بار یقین دہانی کروا چکا ہے کہ الیکشن کا انعقاد 8 فروری ہی کو ہوگا، مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن بھی حالات کے سامنے بے بس ہوسکتا ہے۔ اس لیے بعض حلقے اس تاریخ پر الیکشن کے انعقاد کو بے یقینی سے دیکھ رہے ہیں۔ ان شکوک کو جنم دینے والی دو وجوہات ہیں:
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
٭پہلی وجہ تو وزیرِ اعظم کاکڑ صاحب کی غیر ملکی دوروں کے بعد واپسی پر اصلی مقتدر حلقوں کو دی جانے والی یہ رپورٹ ہے کہ دورۂ امریکہ و یورپ کے دوران میں ہونے والی ملاقاتوں میں اُن سے کسی نے الیکشن کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ دیکھا جائے، تو اُن کے ساتھ یورپی یا امریکی حکم ران یا قابلِ ذکر حکومتی نمایندے ملے ہی کب ہیں، جو ان سے اس موضوع پر بات چیت کی جاتی۔ اس کے علاوہ سب کو معلوم ہے کہ نگران وزیرِ اعظم کتنے بااختیار ہیں اور اقتدار کے اصل سوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں!
اقتدار ویسے بھی بہت ظالم چیز ہے۔ یہ تو ایک طرح کی چاٹ ہے، جسے لگ جائے پھر وہ بار بار بلکہ ہر بار اس کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔
جنابِ کاکڑ کو تو یہ منصب مفت ہاتھ آیا ہے۔ وہ اس سے دست بردار ہونا کب چاہیں گے۔ شاہانہ پروٹوکول، سرکاری خرچ پر ایفل ٹاور پر فیملی ڈنر، خصوصی طیارے پر عمرہ، اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں بطورِ وزیرِ اعظم شرکت اور ’’سیلفی‘‘ کوئی معمولی چیزیں تو نہیں۔
انتخابات کے مقررہ تاریخ کو انعقاد میں ابہام کی دوسری وجہ مولانا فضل الرحمان کا یہ بیان ہے کہ بلوچستان اور کے پی میں الیکشن کے حوالے سے حالات سازگار نہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی سیاست بھی انھی دو صوبوں تک محدود ہے۔ اس وقت گذشتہ ایک سال سے عملی طور پر نگران حکومت کے روپ میں اُن کی پارٹی خیبر پختونخوا میں عنانِ حکومت سنبھالے ہوئے ہے۔ گورنر بھی انھی کا ہے۔ ایسی صورت میں مولانا کو الیکشن وارا نہیں کھاتا۔ وہ جانتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں نگرانوں کی ناقص کارکردگی پورا ایک سال لگانے کے باوجود عمران خان کا طلسم نہیں توڑ سکی۔ اگر کہیں کم زوری ہوئی بھی ہے، تو اس کا فائدہ پرویز خٹک اٹھائیں گے۔ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عام انتخابات کی مخالفت کر رہے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
انٹرا پارٹی الیکشن، قانونی تقاضے اور غیر جمہوری رویے 
سلیکشن نہیں، الیکشن کروائیے 
الیکشن نہ کروانے کے لیے نیا بہانہ گڑلیا گیا 
انتخابات کے التوا کا خدشہ
سوات، سیاسی جماعتوں کی انتخابات کے لیے تیاریاں شروع   
اگر پیپلز پارٹی کی بات کی جائے، تو بلاول بھٹو زرداری اپنی انتخابی مہم طوفانی انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بھرپور جلسوں اور اپنے جارحانہ بیانات کی وجہ سے عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔ اُنھیں یہ شکوہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو لیول پلینگ فیلڈ نہیں دی جا رہی، لیکن مستقبلِ قریب میں اُن کا یہ شکوہ کسی حد تک دور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آصف زرداری کے چند روز بعد دورۂ بلوچستان کے موقع پر قدآور سیاسی شخصیات کی ایک معقول تعداد پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرنے جا رہی ہے۔
مسلم لیگ ن کی بات کی جائے، تو میاں نواز شریف نے بغیر شور شرابے کے بہت سے انتخابی اور اتحادی معرکے سر کرلیے ہیں۔ بلوچستان کی بڑی شخصیات اور باپ پارٹی کے علاوہ ق لیگ، ایم کیو ایم، استحکامِ پاکستان پارٹی کے ساتھ ان کا انتخابی اتحاد ہوچکا ہے۔ سندھ میں مزید اتحاد بننے کے منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔
مسلم لیگ ن نے الیکٹیبلز کے لیے بھی اپنے دروازے کھول دیے ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہیں کہ میاں نواز شریف کو الیکشن مقررہ وقت پر ہونے کا یقین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مسلم لیگ ن اپنی انتخابی مہم شروع کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف نے جلال پور جٹاں میں پاکستان مسلم لیگ ن ورکرز کنونشن کے انعقاد سے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کنونشن میں حیرت انگیز طور پر مریم نواز شریف نے اپنی تقریر میں بلاول بھٹو زرداری کو بالکل نظرانداز کر دیا۔ حالاں کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی انتخابی مہم میں مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔
مریم نواز شریف کی تقریر سے سمجھنے والے جان چکے ہیں کہ الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنانے کی کوشش کریں گی۔ یہ تمام حالات اس بات کا بھی واضح اظہار ہیں کہ مقتدر حلقے بھی مقررہ تاریخ یعنی 8 فروری کو انتخابات کروانے میں سنجیدہ ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ بھی انتخابات کے انعقاد کو مقررہ تاریخ سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے بھی تمام حالات اور ڈویلپمنٹس پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔ اس نے موجودہ سہ ماہی کی قسط بھی اسی لیے موخر کر دی ہے کہ اسے نگران حکومت کی نیت پر شک ہوگیا تھا۔ اگر یہ قسط رُک گئی، تو حکومت کے لیے بہت سی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔
اس لیے نگران وزیرِاعظم اور مولانا فضل الرحمان کی تمام تر خواہشات کے باوجود الیکشن 8 فروری ہی کو ہوں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔