گذشتہ انتخابات کہ جو بھارت جیسے بڑے ملک میں منعقد ہوئے اُن کے نتائج بہت غیر متوقع سامنے آئے۔ ایک بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ آزادی کے بعد بھارت نے سول اِدارے نہ صرف بنالیے، بل کہ بہت حد یہ تمام ادارے بہتر سے بہتر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے بھارت میں انتخابات ہوتے ہیں بالکل ترتیب اور آئینی مدت میں، لیکن ان میں جو شخصیات یا جماعتیں حصہ لیتی ہیں، اُن کی پالیساں یا ایک دوسرے پر الزامات جو بھی ہوں، نتائج پر کبھی کوئی سوال اُٹھا، نہ کوئی اعتراض ہی ہوا، بل کہ ان نتائج کو تمام حلقوں نے خوش دلی سے تسلیم کیا۔ کبھی کسی طرف سے دھاندلی یا مینجمنٹ کا الزام نہیں آیا۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
بہ ہرحال ہندوستان ایک بڑا ملک ہے اور سیکڑوں قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں اور 100 فی صد کاملیت ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے اگر کئی کوئی مس مینجمنٹ، بدمعاشی وغیرہ ہو بھی، تو وہاں ذاتی طور پر الیکشن کمیشن میں شکایت کر دی جاتی ہے اور اس کا فیصلہ نظام کے تحت ہو جاتا ہے۔ نہ تو اعلا عدلیہ کا وقت ضائع ہوتا ہے اور نہ آئے دن جلاو گھیراو اور دھرنا کلچر یا لانگ مارچ ہی ہوتے ہیں۔
بہ ہرحال ہمارا آج کا موضوع بھارتی نظام اور سول اداروں کی مضبوطی نہیں بلکہ مذکورہ انتخابات کے نتائج اور اس کے اثرات ہیں۔ اس دفعہ شاید تاریخ میں پہلی دفعہ تمام سروے اور توقعات سے ہٹ کر نتائج آئے۔ کیوں کہ انتخابات سے پہلے کانگریس کے راہ نما اور اندرا گاندھی کے پوتے راہول گاندھی اور عام آدمی جماعت کے سربراہ اروند کجریوال کو مختلف مقدمات میں اُلجھا دیا گیا تھا۔ میڈیا کی مدد سے نرندر مودی نے یہ تاثر پیدا کرلیا تھا کہ اس وقت بھارت میں صرف مودی کا توتی بول رہا ہے۔ بی جے پی نے بہت محنت سے یہ تاثر پیدا کرلیا تھا کہ بھارت کی ترقی کا عروج صرف مودی سرکار سے وابستہ ہے۔ گذشتہ انتخابات میں اَب کی بار مودی سرکار کا نعرہ بہت پُراثر ثابت ہوا تھا، جب کہ اس بار بھارت کی چاند پر آمد، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور ’’شائننگ انڈیا‘‘ کو بہت خوب صورتی سے پروجیکٹ کیا گیا تھا۔ گذشتہ نعرہ ’’اَب کی بار مودی سرکار‘‘ کی جگہ اس بار دوسرا نعرہ اس اعتماد سے دیا گیا کہ ہماری فتح کا تو سوال ہی نہیں، بل کہ دو تہائی اکثریت ہمارا نصیب ہے۔ اسی وجہ سے یہ بیانیہ دیا گیا کہ ’’اب کی بار آنکڑا چار!‘‘ ہندی میں ’’آنکڑا‘‘ تعداد کو کہتے ہیں۔
گذشتہ انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحاد نے 392 کے قریب نشستیں جیتی تھیں، اس بار ان کا خیال تھا کہ ہم 400 سے زیادہ نشستیں جیت کر ایک نہایت ہی مضبوط حکومت تشکیل دیں گے…… لیکن جب نتائج سامنے آئے، تو معلوم ہوا کہ تمام نعرے تمام اندازے تمام سروے فیل ہوگئے، اور بی جے پی اور اس کا اتحاد اس دفعہ تین سو نشستیں بھی نہ جیت سکا، اور خود اگر بی جے پی کی بات کی جائے، تو وہ سادہ اکثریت بھی نہ لے سکی اور اب کی بار وہ بہ ہر صورت اتحادیوں پر انحصار کرے گی، لیکن اس بات سے قطعِ نظر ہمیں ہماری نوجوان نسل اور خاص کر اعلا سیاسی قیادت کو یہ غور کرنا ہوگا کہ سب کچھ پروپیگنڈا اور ایک خیالی ایجنڈا نہیں ہوتا۔ ایک بڑے فلاسفر کا یہ قول ہے کہ آپ لوگوں کو کچھ وقت تک احمق بناسکتے ہیں، لیکن سب لوگوں کو ہمیشہ کے لیے احمق نہیں بنا سکتے۔ ہم بھارت کے عوام کے سیاسی شعور کو بھی داد دیں گے کہ اُنھوں نے بی جے پی کی کچھ جعلی اور محض پاپولر پالیسیوں کو بہت دلیل سے ختم کر دیا۔
مَیں نے مہارا شٹر میں مقیم کہ جہاں کبھی بی جے پی بہت مضبوط تھی اور اس دفعہ اُس کو مار پڑی، اپنے ایک پرانے دوست انیل کمار سے رابطہ کیا اور وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ انیل میڈیا اور پاپولر اداروں سے ہٹ کر حالات اور سیاست کو سمجھنے والا شخص ہے۔ انیل کبھی بی جے پی کا حمایتی نہیں رہا، بل کہ وہ ہمیشہ مودی کو بھارت کا گورباچوف سمجھتا رہا، کا انتخابات سے قبل بھی یہی خیال تھا کہ اب کی بار آنکڑا چار نہیں بلکہ اب کی بار دیکھ لینا ہار والا معاملہ تھا۔
بہ قولِ انیل، اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی پہلی باری میں مودی سرکار نے انفراسٹرکچر اور تعلیم پر بہت کام کیا۔ عام ہندوستانی میں تاثر پیدا ہوا کہ اب مودی بال ٹھاکرے کا پالتو نہیں اور نہ جن سنگھ کا فکری وارث ہی ہے، بل کہ اب مودی مولانا ابو کلام آزاد اورمہاتما گاندھی کی طرح ایک بڑے وِژن کا راہ نما ہے۔ اس وجہ سے لوگوں نے دوسری بار مودی کو بہت کنفرم اور بہتر اکثریت دی۔ حتی کہ گذشتہ انتخابات میں مسلمانوں اور سکھوں کے علاوہ جنوب کے عیسائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے مودی کو ووٹ دیا، لیکن جب مودی کو دوسری بار بھاری اکثریت ملی، تو مودی کی اصلیت ظاہر ہوگئی۔ بالکل مولا علی سرکار کے بیان کے مطابق کہ ’’طاقت اور دولت انسان کو بدلتی نہیں بلکہ بے نقاب کر دیتی ہے۔‘‘ کیوں کہ جو منفی خصلتیں انسان اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے چھپائے رکھتا ہے، طاقت و دولت کے ملنے پر وہ باہر ظاہر ہوجاتی ہیں۔
سو مودی کے اندر کا گجرات کا قصائی باہر آگیا۔ اُس نے اقلیتوں پر ظلم کرنے والے بدمعاشوں کو کھلی چھٹی دے دی اور جلسۂ عام میں مسلمانوں کے خلاف زہر گھولنا شروع کر دیا۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
نرندرا مودی بھارت کی تباہی کے لیے کافی ہے 
لداخ، مودی کی سیاست کو لے ڈوبے گا  
مودی سرکار، بھارتی سیکولر ازم کی موت 
مودی سرکار سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے
گروپتونت سنگھ پنو کے قتل کی بھارتی سازش
اس کے ساتھ مودی حکومت یہ اندازہ بھی نہ لگاسکی کہ اَب بھارت میں سوشل میڈیا والی نئی نسل پروان چڑھ چکی ہے۔ وہ غیر ہندو دشمنی سے متاثر نہیں ہوسکتی۔ اُن کے نزدیک اب ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کچھ خاص کام نہیں۔ شاید اسی وجہ سے اس بار ایودھیا کی نشست بھی مودی جی ہار گئے قریب 70 ہزار کے مارجن سے۔
دراصل یہ نئی نسل چندر ماہ جیسے ڈراموں سے بالکل متاثر نہیں اور نہ وہ کشمیر کو مکمل بھارت میں ضم کرنے والی حماقت پر جذباتی ہوتی ہے۔ یہ نسل اصل میں عام بھارتی شہری کی زندگی میں بدلاو چاہتی ہے اور وہ مودی سرکار سے کسی حد تک دہلی کی صوبائی حکومت جیسا طرزِ عمل چاہتی ہے۔ وہ روزمرہ کے معاملات میں آسانیاں تلاش کرتی ہے، لیکن مودی حکومت اس قول کا درست تجزیہ نہ کرسکی کہ آپ کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے احمق بنا سکتے ہیں اور سب لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں، مگر آپ سب لوگوں کو ہمیشہ کے لیے احمق نہیں بناسکتے۔
بہ ہرحال مودی سرکار تیسری ٹرم کے لیے حلف تو لینے جا رہی ہے، بے شک بہت واجبی اکثریت سے سہی۔ سو اس بارمودی سرکار کے پاس مزید پانچ سال تک موقع ہے کہ وہ اپنے اندر سے ’’جن سنگھ والا‘‘ متعصب اور انسان دشمنی کا رویہ بدلے اور قومی سطح پر سیاسی و معاشرتی پالیسیوں کو اس طرح طے کرے کہ بھارت صحیح ایک مہاتما گاندھی کا ہندوستان نظر آئے۔ ایک سیکولر نظام اپنی روح میں نظر آئے، جہاں غیر ہندو اقوام بہ حیثیت ہندوستانی شہری مکمل تحفظ اور سکون محسوس کرے۔ ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی ہواور مکمل معاشرتی مواقع۔
مودی حکومت کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہاں اب اقلیتی مذہبی برادریاں اور صرف مسلم نہیں، بل کہ عیسائی اور سکھ بھی غیر محفوظ ہیں۔ حتی کہ آپ ایک عام عقیدہ والے مسلم کو تو چھوڑیں وہاں بالی وڈ کے ستارے جو صرف نام کے مسلم ہیں، ان کی بیگمات اور شوہر تک ہندو ہیں، لیکن وہ بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
مودی حکومت نے گذشتہ 10 سالوں میں مسلمان دشمنی کی انتہا کی اور معاشرے میں ہندو جذباتیت کو خوب استعمال کیا۔ اس کا جواب ہندوستانی عوام خاص کر ہندو برادری نے یوں دیا کہ بی جے پی اور اس کے انتہا پسند اتحادیوں کو انھیں کے علاقوں جیسے مہاراشٹر، ایودھیا اور گجرات میں خوب پھینٹا لگا۔ حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ اب بی جے پی اتحادی بیساکھیوں پر کھڑی ہے…… یعنی خود سادہ اکثریت بھی نہیں رکھتی۔ اس کے علاوہ اب ہندوستانی حزبِ اختلاف جس میں ظاہر ہے بڑی جماعت ہندوستان کو آزادی دینے والی کانگریس ہے۔ اس کے علاوہ سماج وادی پارٹی، ہندوستان کمیونسٹ پارٹی، عام آدمی پارٹی وغیرہ شامل ہیں، کا بھی فرض ہے کہ وہ اب خم ٹھوک کر مودی سرکار کی انتہا پسندی کے خلاف نہ صرف آواز بلند کریں، بل کہ اس کو ہندوستانی عوام کے سامنے بے نقاب کریں۔ جب حزبِ اختلاف ایک عام ہندوستانی کو مودی سرکار کی سیاسی چال بازیوں سے آگاہ کرنے میں کام یاب ہوگئی، تو پھر ہندوستانی میڈیا بھی مودی سرکار کے پنجوں سے نہ صرف آزاد ہو جائے گا، بل کہ مودی سرکار پھر ہندوستانی میڈیا کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے گا۔ بہت حد تک ممکن ہے کہ پھر ہندوستانی میڈیا بھی بالی ووڈ کی چکا چوند پرائیوٹ چینل پر چلنے والے عجیب و غریب غیر حقیقی ڈراما سوپ فیشن شوز کی مدد سے پیدا کیے گئے جعلی شائننگ انڈیا کے فراڈ سے نکل کر ہندوستان کے عوام کو اصل رُخ دِکھائے کہ ہندوستان محض ممبئی یا مدراس کے فلم سٹوڈیو کا نام نہیں، بلکہ اصل ہندوستان ممبئی اور دہلی کے فٹ پاتھوں پر کھلے آسمان کے نیچے مقیم ہے۔
حکومت کو پہلے فیشن شو اور چندرماہ کے بہ جائے پنجاب کے کسانوں جنوبی ہند کے مچھیروں پر توجہ کی ذیادہ ضرورت ہے۔ امرتسر میں سکھ گوروداروں، حیدر آباد اور گجرات کی مساجد اور چنائی کے گرجوں کی حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے۔ عام بھارتی شہری کو سب سے پہلے تحفظِ جان، پھر تحفظِ عزت و روزگار کی زیادہ ضرورت ہے…… لیکن اگر مودی سرکار محض ایک خاص قسم کی ہندو ذہانت کو مطمئن کرنے کے لیے چندرماہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے جیسے پاپولر فیصلہ جات کرتی رہے گی، اور صرف بالی وڈ اور فیشن شو دکھا کر چمکتا ہوا ہندوستان بنانے کی کوشش کرتی رہے گی، تو یہ محض ایک نظر کا دھوکا اور سراب ہی ہوگا، حقیقت سے سیکڑوں سال دور۔
اس کی ایک بڑی مثال کچھ عرصہ قبل چین سے تبت کی طرف پنجہ آزمائی میں سامنے آچکا ہے، جہاں آپ کو چین نے بہت توہین آمیز طریقے سے مار بھگایا تھا۔ اس وجہ سے یہ جعلی اجارہ داری اور نفرت کی سیاست سے نکل کر ہندوستانی عوام اور ہندوستان کی خدمت کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔