بونیر کے بعد میاں گل عبدالودود نے اپنی توجہ کانڑا، غوربند، چکیسر اور چغرزئی علاقہ کی طرف مبذول کی۔ جون 1923ء میں یہ رپورٹ پہنچی کہ "پورن، غوربند، لیلونئی، چکیسر اور غیر مصدقہ طور پر چغرزئی کے باشندوں نے پُرامن طور پر میاں گل کی حکمرانی کو تسلیم کرلیا ہے اور آپس میں ایک دفاعی معاہدہ کرلیا ہے” لیکن حقیقت میں یہ بات صرف پورن کی حد تک صحیح تھی اس لیے کہ غوربند اور لیلونئی پر جون کے اواخر میں قبضہ کیا گیا اور نومبر 1923ء میں عبدالودود نے کانڑا اور چکیسر پر قبضہ کا عزم کیا۔
علاقہ کی ایک بااثر شخصیت پیر داد خان کے دوستانہ مشورہ پر عمل کرتے ہوئے سوات کے حکمران نے بظاہر تو کانڑا کی طرف فوج روانہ کی لیکن فوج کی اصل منزل چکیسر تھی۔ اس کے لیے غوربند کا راستہ استعمال کیا گیا۔ سپہ سالار کی قیادت میں قریباً 4 ہزار افراد پر مشتمل یہ فوج بہ ظاہر کانڑا فتح کرنے کے لیے نکلی لیکن دراصل اسے چکیسر جانا تھا۔ یہ حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی۔ اچانک سواتی فوج اپنے سامنے پاکر یہ لوگ ششدر رہ گئے اور بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے۔
کانڑا نے بھی سوائے نویکلی کے جو کہ حکیم خان کا مرکز تھا، اطاعت قبول کرلی لیکن اس علاقہ پر مکمل فتح آسانی سے حاصل نہ ہوسکی۔ اس کے لیے عبدالحکیم خان اور عبدالجلیل خان آف کانڑا نے متحد ہوکر مزاحمت کی ٹھان لی۔ سپہ سالار 14 نومبر کو چکیسر سے کانڑا روانہ ہوا اور اُپل کے مقام پر ایک سخت لڑائی کے بعد بالآخر سوات کی فوج کامیاب ہوگئی۔ کانڑا اور چکیسر کے جرگوں نے سیدو جاکر باچا صاحب کی وفاداری کا حلف لیا۔ اس طرح دیر اور امب کی حملہ آور افواج کو نکال باہر کرکے سوات کے "حکمران نے اپنی حکومت” کو سوات خاص سے باہر "بونیر، سوات کوہستان کے نچلے حصہ، اور غوربند، کانڑا چکیسر اور پورن تک پھیلا لیا جوکہ سوات واٹر شیڈ اور اباسین کے درمیان واقع ہے۔”
دسمبر 1923ء میں مارتونگ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے ایک لشکر روانہ کیا جس پر بسی خیل اور نصرت خیل چغرزئی قبائل نے حملہ کرکے قبضہ کرلیا تھا۔ لشکر نے صرف مارتونگ پر دوبارہ قبضہ نہیں کیا بلکہ اباسین کے کنارے تک کا پورا علاقہ تاراج کر دیا۔ 1923ء میں عبدالودود "فقط بونیر اور چملہ پر قابض نہیں ہوا بلکہ سوات اور بونیر کے قبائل کے قبضہ میں وادئی سوات سے اباسین تک کا پورا علاقہ اُس کے زیرنگیں آ گیا۔”
میاں گل عبدالودود اپنی کامیابی پر نازاں تھا۔ اُس نے چکیسر اور کانڑا کی فتح پر اپنے سپہ سالار کو انعامات دیے اور اپنی فوج کی خدمات اور بہادری کی تعریف کی۔ 8 فروری 1924ء کو سیدو میں منعقدہ ایک پارٹی میں اُس نے 5 میجروں کو کمانڈنگ افسر اور 9 دیگر فوجیوں کو میجر بنا دیا اور تمام فوجی افسران کو تمغے اور انعامات دیے گئے۔ مارچ 1924ء میں چکیسر کے دو چھوٹے قلعے گڑھی جبہ اور گڑھی داریال سفارت کاری کے ذریعہ برادر خان آف ٹاکوٹ سے باچا آف سوات اسٹیٹ کو منتقل ہوئے۔
اُس سمت میں مزید توسیع 1930ء تک معطل رہی جب سوات کے حکمران نے اباسین کے دائیں جانب چغرزئی علاقہ کے ایک چھوٹے سے کونے کو روند ڈالا،جو کہ اب تک آزاد چلا آ رہا تھا، اور برطانوی حکومت سے کیے جانے والے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حسن زئی علاقہ کے ایک حصہ پر بھی قبضہ کرلیا۔  (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 108 تا 109 سے انتخاب)