معاشی ترقی کے لیے سماجی انصاف بہت اہمیت رکھتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں اقوام نے ترقی اس وقت کی جب انھوں نے اپنے شہریوں کو ہر شعبۂ زندگی میں مساوی مواقع فراہم کیے۔ اگر ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات مثلاً: صحت، تعلیم، رہایش، پینے کا صاف پانی وغیرہ دینے میں ناکام ر ہے، تو اس کا لازمی نتیجہ معاشرتی بے اطمینانی ، لاقانونیت، مایوسی، معاشی بدحالی اور ترقی کی نمومیں نمایاں سست روی کی صورت نکلتا ہے۔
اور جب معاشرے میں لوگوں کو انصاف کے یکساں مواقع نہیں ملتے، تو اس سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ معاشرے میں غربت، کرپشن اور جرائم میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگ جنگ و جدل کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سماجی انصاف کا عالمی دن منانے کی قرار داد 2007ء میں منظور کی اور ہر سال 20 فروری کو سماجی انصاف کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ تمام ریاستیں اور حکومتیں اپنے شہریوں کے لیے مساوی حقوق کو یقینی بنائیں۔ غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں اور سب کو روزگار کے بھرپور اور یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔ دنیا میں ترقی کرنے والی اقوام نے اپنے شہریوں کو صرف صنعتی ترقی اورآگے بڑھنے کے مواقع ہی نہیں دیے بلکہ اپنے پورے معاشرے پرانصاف کو غالب کرکے انھیں بہت سی فکروں اور پریشانیوں سے آزاد کیا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کا شماربھی ان ممالک میں ہوتا ہے جس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہاں پرسماجی انصاف کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ لوگ پینے کے صاف پانی، صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جب کہ صرف پچاس فی صد پاکستانیوں کو بنیادی سہولتیں میسر ہیں۔ اقربا پروری اور عدم مساوات کے سبب پاکستان میں معاشی ترقی انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ رول آف لا انڈیکس میں دنیا کے 126 ممالک میں پاکستان 118ویں نمبر پر ہے…… جب کہ انسانی ترقی کے عالمی انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 154واں ہے (اس انڈیکس میں کل 189 ممالک شامل ہیں۔) حکومتی اقدامات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادِ کار میں اضافے کے باوجود معاشرے میں روز بروز بڑھتے جرائم، چوریاں، ڈکیتیاں، رسہ گیری اور رہزنی کے واقعات لمحۂ فکریہ ہیں…… جب کہ معاشرے کی درست تشکیل و تعمیر کے لیے سماجی انصاف بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر مذاہب کی بات کی جائے، تو ہمارا دین اسلام سماجی انصاف اور معاشرتی مساوات کا قائل ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے آخری خطبے میں انسانوں کے درمیان ہر طرح کی تفریق کو رد کرتے ہوئے معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام پر زور دیا تھا۔ اقوام و مذاہب کے تقابلی مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام سماجی انصاف کی فراہمی اور معاشرتی مساوات کا سب سے بڑا علم بردار، قائل اورسچا داعی مذہب ہے، جس نے معاشرے میں موجود تمام انسانوں کو ایک جیسے مقام سے نوازا ہے۔ اسلام میں رنگ و نسل، قوم و قبیلہ، ذات پات، دولت و ثروت، اختیار و اقتدار، غریب و امیر، پختون و پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی وغیرہ ہونے پر کوئی امتیاز روا نہیں رکھاگیا…… بلکہ اس کی تقسیم کا واحد قاعدہ اور اصول صرف اور صرف ’’تقوا و للہیت‘‘ پرقائم ہے۔
اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے: ’’ اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے…… اور تم کو مختلف شاخوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا، تاکہ تم ایک دوسروں کو پہچان سکو، اللہ کے نزدیک زیادہ متقی ہی عزت والا ہے۔‘‘
بلا امتیاز عدل و انصاف کا قیام اسلامی معاشرے کا ایک اہم اور بنیادی ستون ہے، بلاشبہ عدل و انصاف ہی کی وجہ سے ہی حق دار حق پالیتا ہے اور مجرم سزا۔ اللہ تعالا کا فرمان ہے: ’’ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو عدل کے ساتھ کرو۔‘‘
خاتم الانبیاکا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں، انھیں اسی چیز نے ہلاک کیا کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے، اور جب کوئی کم زور چوری کرتا، تو اس پر سزاجاری کردیتے، اور اللہ کی قسم اگرمحمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی، تو میں اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹوں گا‘‘۔
لیکن اگر ہم آج کے معاشرے میں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، تو ہمیں سماجی انصاف کی صورتِ حال اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے۔ کیوں کہ ہم اسلام کی روشن تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر اغیار کی ننگی تہذیب کے دل دادہ ہوچکے ہیں۔ اسی وجہ سے معاشرے میں محبت و الفت ناپید ہوگئی ہے اوربدامنی و انتشار بڑھ گیا ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے۔ الفت و محبت کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم مسلمان صحیح طور پر تعلیماتِ اسلام کے مطابق دیانت دارانہ زندگی گزارنے والے بن جائیں…… اور ہماری حکومت وسائل کی منصفانہ تقسیم، غربت کے خاتمے اور سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ، روز گار کے مواقع ، اعلا تعلیم، معیاری صحت کی سہولیات سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی آسان بنائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔