اس حساس اور نازک موضوع پر لکھنے سے پہلے ایک وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ میری ذاتی رائے اور نظریہ کے مطابق جو بھی اس ملک و قوم اور علاقے کی بہتری کے لیے کام کرے گا، ہم اس کے ہاتھ مضبوط کریں گے، اس کے شانہ بہ شانہ رہیں گے۔ اور جو کوئی بھی اس ملک و قوم اور علاقے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا، ہم اس کا راستہ روکیں گے، اس کے سامنے دیوار بنیں گے۔ یہی میرے نزدیک حب الوطنی، انسان دوستی اور اسلامی تعلیمات ہیں۔ ایک سیاسی کارکن اور علاقے کے باشندے کی حیثیت سے میرے ذہن میں اپنے سوات کے متعلق جو خدشات، مسائل، وسائل اور تعمیر و ترقی کے بارے میں سوچ ہے، میرا فرض بنتا ہے کہ میں اس کا اظہار کروں۔ اس لیے یہاں میں اس حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
سوات میں عوام سے مشورہ کیے بغیر فوجی چھاؤنی کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے۔ میاں نواز شریف کی گذشتہ حکومت نے اس مقصد کے لیے سوات کے پہلے دورہ کے دوران اس کے لیے ابتدائی طور پر دو ارب روپے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے لیے فوجی حکام نے کچھ زمینیں اپنے من مانے نرخ پر پہلے بھی لی تھیں اور اب عمران خان کی حکومت نے حال ہی میں 75 کنال اور 9 مرلہ کی زمین سوات میں فوجی چھاؤنی کی ضروریات کے لیے مرحمت فرمائی ہے۔ اس میں 19 کنال 14 مرلہ کا رقبہ جنگلات سے دیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق جنگلات پر مشتمل زمین کسی کو نہیں دی جاسکتی، لیکن اس نیک اور اعلیٰ مقصد کے لیے کابینہ نے قوانین میں تبدیلی کرکے راہ ہموار کی۔ ہم نے سوات میں فوجی چھاؤنی کے قیام کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک مضمون میں کچھ تجاویز پیش کی تھیں جس کے تحت ہم نے عرض کیا تھا کہ:
’’اگر ریاست اور حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ سوات میں فوجی چھاؤنی بنانا ضروری ہے اور اس سلسلے میں چند ابتدائی اعلانات اور اقدامات ہوچکے ہیں تو سو بسم اللہ، لیکن میرے ، کچھ ہم خیال دوستوں اور سول سوسائٹی اور عمومی طور پر سوات کے تمام لوگوں کے ذہنوں میں ایک سوال یہ اُبھرتا ہے کہ یہ چھاؤنی سوات میں کہاں اور کب بنے گی؟ ابھی تک اس کے مکمل خدوخال سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔ اس بارے میں مسلسل افواہیں یقینا لوگوں کے ذہنوں کو مزید الجھن اور غیریقینی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ سوات میں چھاؤنی کے قیام کے لیے اہلِ سوات کے ساتھ مکمل مشاورت کی جائے اور عام لوگوں کو دلیل کے ساتھ اس کے فوائد و نقصانات بتا دیے جائیں اور اس کے مختلف عوامل کا جائزہ لیا جائے، تو میں سمجھتا ہوں اس سے خیر کا نتیجہ نکلے گا اور باہمی مشورہ سے جو بھی فیصلہ کیا جائے گا، وہ یقینا سوات کی ترقی اور خوشحالی میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ اگر سوات میں چھاؤنی شہری آبادی سے دور مختلف پہاڑوں کے قرب وجوار میں بنائی جائے، جس طرح مری میں بنائی گئی ہے، تو اس سے ایک طرف سوات کی قیمتی زرعی زمین بچ جائے گی اور دوسری جانب ہمارے پہاڑ جو سوات کے رقبہ کے قریباً 80 فی صد پر مشتمل ہیں، آباد ہوجائیں گے۔ اگر مختلف جگہوں پر پہاڑوں کے دامن میں چھاؤنی کے لیے جگہوں کا تعین کیا جائے، تو سوات کے پس ماندہ علاقے ترقی کرکے 10 0سالوں کا سفر چند سالوں میں طے کریں گے۔ اس کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہوگا کہ پہاڑوں کی ملکیت کے حوالے سے سوات کے لوگوں اور صوبائی حکومت کے مابین جو تنازعہ چلا آ رہا ہے، وہ بھی حل ہوجائے گا اور اس کے ساتھ پاک فوج پر یہ الزام بھی نہیں لگایا جائے گا کہ وہ شہری آبادی کے بیچ چھاؤنی بناکر مسائل پیدا کر رہی ہے بلکہ آبادی سے دور رہ کر فوجی جوان اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں مزید بہ طریق احسن ادا کرسکیں گے اور اس طرح سوات دفاعی طور پر چاروں طرف سے مزید محفوظ بھی ہوسکے گا۔‘‘
ظاہر ہے ہماری تجاویز کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا تھا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں فوجی چھاؤنی بنے گی، وہاں سڑک، بجلی، گیس کی سہولتیں فوری طور پر مہیا کی جائیں گی جس سے راستے میں آنے والے پس ماندہ علاقے ترقی کرسکیں گے۔ علاوہ ازیں پہاڑی علاقوں میں جتنی بھی جنگلات کی کٹائی ہوئی ہے، وہاں نئے درخت لگیں گے اور چند ہی سالوں میں سوات کے پہاڑ ایک بار پھر سرسبز و شاداب ہوسکیں گے، جس سے سوات کی آب و ہوا اور قدرتی حسن پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ تھوڑی سی محنت اور ثابت قدمی سے اگر ہم ان ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے پہاڑوں پر زیتون اور دیگر پھل دار درخت لگانے میں کام یاب ہوگئے، تو ہم اربوں روپے کا زرِمبادلہ بچاسکیں گے۔ خوردنی تیل کی درآمد پر ہم سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں، زیتون کے درخت لگانے سے ہم نہ صرف یہ رقم بچاسکتے ہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ تیل بیرونِ ملک برآمد بھی کرسکیں گے جس سے ملک کو زرِمبادلہ کی شکل میں مزید فائدہ حاصل ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے سوات کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے جس میں ایک بہت بڑی نعمت پانی کی وافر مقدار ہے۔ ہم نے ابھی تک اس نعمت سے بھرپور استفادہ نہیں کیا ہے۔ دریائے سوات میں پانی کے تیز قدرتی بہاؤ کی گریویٹی استعمال کرکے ہم بہت سارے فوائد سمیٹ سکتے ہیں۔ وادئی مدین سے لے کر سوات کی آخری حدود تک دریائے سوات کے دونوں طرف بڑی پائپ لائن پہاڑوں کے دامن میں بچھائی جائے، تو اس سے ایک طرف سوات کے ہر علاقے کو صاف پانی مہیا کیا جاسکے گا بلکہ اسی پائپ لائن کو بنجر پہاڑوں کو سیراب کرنے کے لیے بھی کام لایا جاسکے گا اور اس سے مختلف مقامات پر چھوٹے پن بجلی گھر بھی بنائے جاسکیں گے ۔ یہ سب کچھ قدرتی گریویٹی سے ممکن ہوسکے گا جس سے سیکڑوں ٹیوب ویل پر خرچ ہونے والی بجلی بھی بچائی جاسکے گی۔ اس کے علاوہ علاقے کی بجلی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے دریائے سوات بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے، بہ شرط یہ کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور دریا میں جگہ جگہ مناسب مقامات پر پانی کے چھوٹے بڑے ٹربائن نصب کیے جائیں۔ اگر سو سال قبل انگریز ملاکنڈ ٹنل بناسکتا ہے، فرانس اور انگلینڈ کو سمندرکے اندر ٹنل بناکر زمینی راستہ کے ذریعے ملایا جاسکتا ہے، جاپان میں ایک مختصر عرصے میں سمندر کے اوپر ائیرپورٹ بنایا جاسکتا ہے، تو اس منصوبہ کے لیے تو کسی راکٹ سائنس کی بھی ضرورت نہیں۔ اس معاملے میں ہمارے دوست جو اپنے اپنے شعبوں میں ماہر ہیں، مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ اس میں آرکی ٹیکٹ انجینئرشوکت شرار اور زرعی ماہر فضل مولا زاہد کے ساتھ ساتھ دوسرے دوست بھی بخوشی اپنی خدمات پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ دریائے سوات کے دونوں کناروں پر اگر پختہ پشتے تعمیر کئے جائیں، تو اس سے ہزاروں ایکڑ پر پھیلی ہوئی زمین کو دریا برد ہونے سے بچایاجاسکتا ہے۔ اس قطعۂ اراضی میں باغات لگاکر ان سے معقول آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس میں جگہ جگہ سیاحوں کی دلچسپی کے لیے تفریح گاہیں بھی بنائی جاسکتی ہیں جس سے علاقے میں سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا اور اس سے عوام کی معاشی حالت میں مثبت تبدیلی آئے گی۔
2009ء میں سوات میں سیلاب نے جو تباہ کاریاں کی تھیں، ہم نے اس وقت روٹری کلب سوات کے دوستوں کی معیت میں محکمۂ ماحولیات کے ذمہ دار حکام سے ملاقات کی تھی اور ان کی خدمت میں سیلاب کی مابعد صورت حال کے حوالے سے چند تجاویز پیش کی تھیں، لیکن ہماری ملاقات ’’نشستند و گفتند و برخاستند‘‘ ہو کر بے فائدہ ثابت ہوئی۔ ہم نے ان کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ سیلاب دریائے سوات کے قرب و جوار کی بہت سی زمین بہاکر لے گیا ہے، لیکن اس کے بدلے میں دریائے سوات نے ریت، بجری اور پتھروں کی صورت میں ایک بہت بڑا فائدہ بھی دیا ہے۔ اگر حکومتِ وقت ہنگامی بنیادوں پر دریائے سوات کے کنارے کنارے سڑک کی تعمیر کی شروعات کرے، تو سڑک بنانے کے لیے صرف سیمنٹ اور سریا کی ضرورت پڑے گی، باقی ضروری لوازمات مفت پڑی ہوئی ہیں اور اس کے لیے حکومت کو کوئی اضافے اخراجات اٹھانا نہیں پڑیں گے۔جن کے گھر بار دریا کے انتہائی قریب واقع تھے اور دریا برد ہوئے ہیں، سڑکوں کی تعمیر پر اراضی کے ان مالکان کو بھی اعتراض کا موقع نہیں ملے گا، لیکن اُس وقت ہماری اس تجویز کو کوئی پزیرائی نہیں بخشی گئی اور اب وہی آبادیاں دوبارہ دریا کے انتہائی قریب تعمیر ہونا شروع ہوچکی ہیں اور کبھی دوبارہ سیلاب آیا، تو انھیں پھر تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی تیار میٹریل بعد ازاں مقامی ٹھیکے دار نکال کر بیچتے رہے اور لاکھوں کروڑوں روپے ان کی جیبوں میں جاتے رہے۔
ہم نے متعلقہ حکام کو دوسری تجویز شجرکاری کی دی تھی جس پر عمل درآمد کوئی مشکل کام نہیں تھا، لیکن اس کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ ہم نے ایک اور تجویز یہ بھی دی تھی کہ سوات کے لوگ سالانہ کروڑوں روپے کی مچھلی پنجاب سے منگوا کر استعمال کرتے ہیں۔ اگر حکومت تھوڑی سی توجہ دے، تو سیلاب کی وجہ سے قرب و جوار کے کھیتوں میں جو چھوٹے بڑے جوہڑ بن گئے ہیں، ان ہی جگہوں پر ماہی پروری کے لیے فارم بنائے جائیں اور حکومت اس سلسلہ میں اگر مقامی لوگوں کو نہ صرف تربیت دے بلکہ فارم بنوانے میں ان کی مدد بھی کرے، تو سوات میں مچھلیوں کی افزائش بڑھائی جاسکتی ہے، جس سے نہ صرف مقامی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ فاضل مچھلی کو ملک کے دوسرے حصوں میں بھیجا بھی جاسکے گا، جس سے سوات کی مجموعی معیشت پر نہایت خوش گوار اثرات مرتب ہوں گے، لیکن محکمۂ ماحولیات کے حکام نے ان تمام تجاویز کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا تھا۔
حکومت نے سوات اور اہلِ سوات کو مکمل طور پر این جی اوز کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ میرے کچھ دوست ناراض ہوں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی ملک کو این جی اوز نے ترقی یافتہ بنادیا ہو۔ ان انٹرنیشنل مافیاز کے اپنے مخصوص ایجنڈے ہوتے ہیں، انھیں ہماری ترقی و خوش حالی سے کیا سروکار؟ جب تک حکومت اور عوام مل کر اپنے مستقبل کے اہداف پوری توجہ اور یک سوئی سے متعین نہیں کرتے، اس وقت تک کسی ملک و قوم کی ترقی ممکن نہیں۔
اگر حکومت نئے پاکستان اور نئے پختون خوا کی بات کرتی ہے، تو پھر ہمیں ادارے بنانا ہوں گے۔ شیرشاہ سوری نے پٹواری نظام کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس وقت اس نے جرنیلی سڑک (Great Trunk Road) بنایا تھا۔ سڑکوں کے دونوں جانب درخت لگوائے تھے۔ جگہ جگہ سرائے بنوائے تھے اور ان سب کی دیکھ بھال پٹواری کے ذمہ تھی۔ ابھی تک وہی ادارہ کچھ ردو بدل کے ساتھ چلا آ رہا ہے۔ پولیس ایکٹ انگریزوں کا بنایا ہوا ہے، وہ بھی ابھی تک نافذ چلا آ رہا ہے۔ اس طرح بیشتر ادارے ہمیں وراثت میں ملے ہیں، لیکن ہم نے ان میں وقت کے نئے تقاضوں کے مطابق کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ہمیں ان اداروں میں نئی ضروریات کے مطابق تبدیلیاں کرنی پڑیں گی اور نئے ادارے بھی بنانا ہوں گے۔ خالی خولی نعروں یا میٹرو ٹرین یا موٹر ویز بنانے سے نیا پاکستان وجود میں نہیں آسکتا۔ ہمیں ترقی کے عمل کا آغاز بنیادی مسائل کو حل کرنے سے کرنا ہوگا اور ترقی کا عمل بہ تدریج آگے بڑھانا ہوگا۔ جو کام اس وقت یہ لوگ کر رہے ہیں، یہ نہیں رہیں گے، تو ان کا نام بھی نہیں رہے گا۔ اداروں کے ساتھ ادارے بنانے والوں کا نام بھی زندہ رہتا ہے۔
سوات کے قدرتی وسائل میں ایک نہایت اہم عامل سیاحت ہے۔ میرے خیال میں سوات کی سیاحتی ترقی کے لیے ’’سوات ٹوورزم ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘‘ کے نام سے ایک مستقل ادارہ بنانے کی ضرورت ہے جو سوات میں سیاحت کی ترقی کے لیے ہمہ وقت کام کرے۔ نیز سوات میں سیاحت کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی معیار کی سڑکیں بنائی جائیں۔ دریائے سوات کے دونوں کناروں پر سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پکنک سپاٹ اور دلچسپ تفریح گاہیں بنائی جائیں۔ سوات کے وہ دور افتادہ پسماندہ لیکن نہایت خوب صورت علاقے، جہاں روڈ، بجلی اور دیگر بنیادی سہولتیں عنقا ہیں، انھیں ترقی دی جائے، اس سے سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوگا۔ سوات میں سیاحت کی ترقی کے لیے اگر کوئی ایک سرکاری ادارہ بھی خلوصِ نیت اور ایمان داری سے کام کرے، تو سوات بہت ترقی کرے گا اور اہلِ سوات کو باہر کے ممالک میں کام کے لیے نہیں جانا پڑے گا۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ ملک ہوگا، تو ہم ہوں گے ۔ اگر خدانخواستہ یہ ملک نہیں رہے گا، تو ہم سب دربدر ہوجائیں گے۔ ہم اہلِ سوات نے اپنے ہی ملک میں دربدری کا عذاب دیکھا اور سہا ہے ۔ اس لیے ہمیں پاکستان جیسی قدرت کی ان مول نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور مل جل کر اس کی ترقی و خوشحالی میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔