فلاڈلفیا ریاست میں اُس رات موسلادھار بارش برس رہی تھی، فلاڈلفیا میں جب بھی بارشیں زور پکڑتی تھیں، تو قریبی ہوٹلوں کے تقریباً سارے کمرے "بُک” ہو جاتے۔ ہم انسانوں کو جینے کے تین بہانے چاہیے ہوتے ہیں۔ عزت، دولت اور سکون۔ فلاڈلفیا کے باسی دن بھر دولت اور عزت سمیٹنے کے بعد گھروں کو لوٹتے تو بارش اور پُھوار اُن کا راستہ روک لیتے۔ چناں چہ سکون کی تلاش میں یہ لوگ قریبی ہوٹلوں میں پناہ گزین ہوجاتے۔ اب ویران گلیوں کی مدھم روشنیاں بارش کے قطروں سے ملتیں، تو فلاڈلفیا کی سنسان گلیوں میں سات رنگوں کا سمندر بہتا دکھائی دیتا تھا۔ یوں لگتا جیسے بارش نہیں آتش فشاں برس رہی ہو۔ اگلی صبح شہر کے باسی جاگتے اور کھڑکیوں سے پردے ہٹاتے، تو بھیگی سڑک پر خشک پتوں کے جم جانے کا منظر دیکھ لیتے۔ یہ گذشتہ رات کی بارش کا "ڈراپ سین” ہوتا تھا۔ وہ بھی ایسی ہی اِک رات تھی جب بارش آتش فشاں بن کر فلاڈلفیا ریاست کے اوپر برس رہی تھی۔ ایک بوڑھے مرد نے اپنی بوڑھی بیوی کے ساتھ درمیانے درجے کے ایک ہوٹل پر دستک دی۔ نوجوان کلرک نے دونوں کا استقبال کیا اور معذرت کرتے ہوئے بولا: "سر! ہاؤس فل ہے۔” نوجوان کا جواب سن کر بوڑھے میاں بیوی مُڑے اور ہوٹل سے باہر نکلنے لگے۔ دروازے کے قریب پہنچ کر نوجوان کلرک نے عمر رسیدہ جوڑے کو آواز دی۔ کلرک کی آواز سن کر میاں بیوی کلرک کی طرف متوجہ ہوئے۔ کلرک بولا: "باہر بارش برس رہی ہے، اگر آپ چاہیں، تو میرے کمرے میں ٹھہر سکتے ہیں۔ یہ اِک عام سا کمرہ ہے لیکن آپ کے لیے محفوظ ہے۔” بوڑھے جوڑے نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر کلرک کی تھکاوٹ کو دیکھا، تو بولے: "نہیں شکریہ، آپ خود تھک چکے ہیں، ہم اپنے لیے کسی دوسرے ہوٹل میں کمرہ ڈھونڈ لیں گے۔” نوجوان کلرک شائد جیتا جاگتا انسان تھا، بولا: "مجھے کوئی تکلیف نہیں، ہاں! آپ کو تکلیف ضرور ہوگی، کیوں کہ بارشوں کے موسم میں سارے ہوٹلوں کے کمرے "بُک” ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا آپ کو واپس میرے کمرے میں آنا ہوگا۔” کلرک بولا: "سر! آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ آپ باہر برستی بارش میں خود کو بھگوئے بغیر میرے کمرے میں آرام کرلیں، کیوں کہ ایک کلرک ہونے کے ناتے میں جانتا ہوں سارے ہوٹلز بھر چکے ہیں۔” کلرک کے اصرار پر میاں بیوی نے اس کے کمرے میں رات گزار دی جب کہ وہ ساری رات کرسی پر بیٹھا انگڑائیاں لیتا رہا۔ اگلی صبح میاں بیوی جاگ گئے اور کاؤنٹر پر بِل ادا کر رہے تھے۔ بوڑھا آدمی بولا: "آپ کو اِس معمولی سی، گمنام سی ہوٹل میں کلرک نہیں ہونا چاہیے تھا، آپ کو کسی پاپولر فائیو اسٹار ہوٹل میں منیجر بننا چاہیے۔” نوجوان کلرک کے چہرے پر روشنی سی پھیل گئی اور بِل وصول کرکے دونوں کو رخصت کیا۔ یہ کلرک کی قربانی تھی، لیکن اس قربانی کا صلہ ابھی باقی تھا، جیسے یہ تو صرف "ٹریلر” تھا۔ "پکچر ابھی باقی ہے دوست۔” دو سال کے وقفے کے بعد کلرک کے حافظے سے اُس طوفانی رات کی ہمدردی محو ہو چکی تھی۔ وہ بھول چکا تھا کہ بعض ہمدردیاں اور بعض واقعات وقت کے چٹان پر اَن مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں، ٹھیک دو سال بعد کلرک کے ہاتھوں میں ایک خط تھا۔ یہ خط نیویارک سے موصول ہوا تھا اور اس خط میں اُسے دعوت دی گئی تھی کہ وہ نیویارک کے ایک نئے ہوٹل کا منیجر بنے۔ یہ اگلے ہی لمحے نیویارک پہنچا۔ وہاں کئی منزلوں پر مشتمل ایک عمارت ایک معمولی سی کلرک کے انتظار میں تھی۔ عمارت کے اوپر ہوٹل کا نام تحریر تھا "والڈورف آسٹوریا” (Waldorf Astoria)۔

"والڈورف آسٹوریا” کا بیڈ روم۔

عالیشان ہوٹل کے سامنے ایک بوڑھا شخص کھڑا تھا۔ بوڑھے شخص کو دیکھ کر کلرک کے ذہن میں ایک جملہ گونج اُٹھا: "آپ کو اِس معمولی سی، گمنام سی ہوٹل میں کلرک نہیں ہونا چاہیے تھا، آپ کو کسی پاپولر فائیو اسٹار ہوٹل میں منیجر بننا چاہیے۔” جی ہاں، اس بوڑھے شخص کا نام تھا "والڈورف آسٹر” جب کہ اُس سابقہ کلرک اور موجودہ منیجر کا نام تھا "جارج بولٹ۔” جارج بولٹ کو اُس کی قربانی کا صلہ مل گیا اور وہ امریکہ کے ایک ایسے ہوٹل کا منیجر بن گیا، جس ہوٹل میں بعد ازاں امریکی صدور نے بھی وقت گزارا، جہاں دنیا بھر کی عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں، جہاں تھیٹرز بھی ہیں، ہالز بھی اور انتہائی مہنگے سویمنگ پولز بھی۔ ایران کے رضا شاہ پہلوی نے بھی یہاں راتیں بسر کیں، امارات کے امیروں اور دبئی کے شیوخ نے بھی یہاں عیاشیوں کے نشانات چھوڑے۔ ناروے، آئرلینڈ، انگلینڈ اور نیدرلینڈ کے بادشاہ بھی اس ہوٹل کی دیواروں کے سائے میں کافی پی چکے ہیں۔ فرانس کا صدر ہو، ہندوستان کا وزیر اعظم یا پھر روس کا "ولادی میر پیوٹن” یہ سب امریکہ جاتے ہیں، تو قیام بہرحال "والڈورف آسٹوریا” میں ہی کرتے ہیں۔ سرخ اینٹوں سے بنے اس ہوٹل میں میاں نواز شریف بھی قیام کر چکے ہیں، آٹھ لاکھ یومیہ کے حساب سے۔ میاں صاحب کو شائد معلوم نہیں ہوگا کہ ساڑھے ایک ہزار کمروں پر مشتمل اس پچاس منزلہ عمارت کی اصل کہانی کیا ہے؟ میاں صاحب اپنے وزرا سمیت کئی بار اس ہوٹل میں راتیں گزار چکے ہیں لیکن اس ہوٹل کی بنیادوں سے قربانی کی جو بُو آتی ہے، وہ آج تک ہمارے کسی وزیر، کسی مشیر اور کسی بیوروکریٹ نے محسوس نہیں کی۔ یہ لوگ بقر عید پر کیمروں کے سامنے لاکھوں کروڑوں روپوں کے جانور قربان کرکے ریاکاری کی مثالیں چھوڑ دیتے ہیں لیکن ان کا آج ان کے کل سے بہتر نہ ہو سکا۔ کیوں کہ یہ لوگ قربانی کی "سینس” سے ناواقف ہیں۔ ان کے پاس سب کچھ ہے لیکن کسی بوڑھے کے لیے کمرہ اور چھت نہیں، کسی بے روزگار کے لیے روزگار نہیں، کسی یتیم کے لیے سہارا نہیں، ملکی مسائل کے لیے ان کے پاس وقت نہیں، مریضوں کے لیے ان کے پاس دوا ہے اور نہ ہی دعائیہ کلمات، چناں چہ ہم گلے سڑے معاشرے کے وہ پاک دامن مسلمان بن چکے ہیں جو صرف حاجی بننے کے لیے حج کو جاتے ہیں اور جو صرف چھری پھیرنے کے لیے قربانی کرتے ہیں۔
…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔