ہم مین سڑک سے دائیں جانب ایک گلی کی طرف مڑے، تو میری نظر مکانوں کے سامنے پانی کے نالے پر پڑی، جس میں رنگ برنگی خوبصورت مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ کیکو میری حیرانی بھانپ گئی اور مسکراتے ہوئے گویا ہوئی: ’’میں نے کہا تھا ناں کہ یہاں فطرت اور انسانوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہاں کے رہایشیوں نے اپنے گھروں کے سامنے بہنے والی نالیوں میں مچھلیوں کو پال رکھا ہے۔ صدیوں سے انسان اور یہ آبی مخلوق محبت بھری زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘ کیکو نالے کے ساتھ بیٹھ گئی اور رنگ برنگی مچھلیوں کو دیکھنے لگی۔
شیمابارا کی گلیوں میں انسان کم نظر آتے ہیں مگر یہاں ہر گلی میں پانی کی چھوٹی چھوٹی ندیوں یا نالوں میں خوبصورت رنگ برنگی مچھلیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ کیکو نے کہا کہ یہاں سیکڑوں چشمے ہیں جس کا پانی مذکورہ نالوں کی شکل میں ہر گلی میں بہتا ہے۔ زیادہ تر گھروں کے باورچی خانوں کے نیچے بھی یہ نالے گزارے گئے ہیں۔ اس پانی کو اتنا صاف رکھا گیا ہے کہ خواتین اس میں برتن کنگالتی ہیں اور اسی پانی کو کھانا پکانے کی غرض سے استعمال میں بھی لاتی ہیں۔ جب میں ان نالوں کو دیکھ رہا تھا او ر ان میں رنگ برنگی مچھلیوں کو دیکھ رہا تھا، تو مجھے سوات کی مرغزار اور جامبل سے نکلنے والی ندیوں کا خیال آیا، جنہیں ہم نے اتنا گندا کرکے رکھ دیا ہے کہ اب وہ بدبودار گندے نالے بن گئی ہیں۔مذکورہ ندیاں محض دس پندرہ سال پہلے صاف و شفاف بہتی تھیں، جہاں مقامی لوگ نہاتے تھے اور خواتین کپڑے دھویا کرتی تھیں۔ اس طرح شام کے وقت نوجوان ان کے کنارے بیٹھ کر گپ شپ لگاکر اپنا وقت گزارتے تھے۔بس گنتی کے چند سالوں میں ہم عوام کی غفلت اور حکومتی نااہلی کی وجہ سے مینگورہ بھر کی نکاسیِ آب اور کچرے نے ان قدرتی اور شفاف پانی کی ندیوں کا حلیہ ایسا بگاڑ دیا کہ اب ان سے گھن آتی ہے۔ ہم مسلمان صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیتے ہیں، پر یہ نصف ایمان ہم ہر سطح پر کھو چکے ہیں۔ ہم باتیں تو بڑی بڑی کرتے ہیں مگر عملاً ہم زیرو ہیں۔ ہم میں اور جاپانیوں میں جو سب سے بڑا فرق مجھے محسوس ہوا، وہ یہ تھا کہ جاپانی من حیث القوم خاموش طبع مگر عملی لوگ ہیں۔ جب کہ ہم اس کے برعکس بڑ بولے اور گفتار کے غازی ہیں۔ عملی طور پر ہم کچھ نہیں کرتے بلکہ یوں کہیں کہ ہم کچھ کرنا چاہتے ہی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جاپانیوں نے ’’صفائی نصف ایمان‘‘ والا ارشاد عملی طور پر اپنایا ہے جب کہ ہم نے اس جملے کو توتے کی طرح رٹ لیا ہے۔زبانی طور پر ہر کوئی اس کی مشق کرتا رہتا ہے اور بس!’’کیکو‘‘ اُٹھی اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا، چلو! کسی اچھی جگہ کھانا تناول فرماتے ہیں۔ مَیں نے حامی بھری، یوں ہم آگے بڑھے۔

شیمابارا کی گلیوں میں انسان کم نظر آتے ہیں مگر یہاں ہر گلی میں پانی کی چھوٹی چھوٹی ندیوں یا نالوں میں خوبصورت رنگ برنگی مچھلیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ (Photo: decorunits.com)

اس خوبصورت اور پُرسکون شہر کی گلیاں نفاست سے بنی تھیں، جب کہ ہر گھر میں درخت لگے ہوئے تھے۔ یہ گاؤں حقیقی طور پر قدرتی حسن، سادگی اور فطرت کا امتزاج تھا، جہاں ہر لمحہ سکون اور طمانیت کا راج رہتا ہے۔ ہم ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ گئے، جو ایک چھوٹے ہال، باورچی خانے، سرسبز لان اور چھوٹی سی جھیل نما تالاب پر مشتمل تھا۔ لان اور جھیل کے کنارے مہمانوں کے لیے کرسیاں رکھی گئی تھیں جب کہ مختلف جگہوں پر برقی قمقموں کے لیے کھمبے لگائے گئے تھے۔ ہم جھیل کنارے کرسیوں پر بیٹھ گئے، جہاں سے ’’ماؤنٹ اونزن‘‘ کی چوٹی نظر آ رہی تھی اور تالاب میں مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ ’’کیکو‘‘ نے کھانے کا آرڈر دیا جس میں مچھلی اور سبزیاں شامل تھیں۔ اُس نے کھانا پلیٹوں میں ڈالتے ہوئے کہا کہ جب وہ چھوٹی سی تھی، تو اس کے بے شمار خواب تھے۔ وہ بڑی ہوکر ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور اس شہر میں اپنا ذاتی گھر بنانا چاہتی تھی، مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور ٹوکیو کی تیز رفتار زندگی نے طالب علمی کے دور سے ہی اسے کام کرنے پر مجبور کیا۔ وہ میڈیکل فیلڈ میں گئی اور نہ اعلیٰ تعلیم ہی حاصل کرسکی۔ اب مختلف سٹورز میں کام کرنا اس کا مقدر بن گیا تھا۔ اس کے بچپن کے تمام خواب چکنا چور ہوگئے تھے۔ اب وہ ایک مشین تھی، جو تقریباً پندرہ سال بعد ایک پاکستانی لڑکے کے ساتھ کہیں گھومنے نکلی تھی۔

ماونٹ اونزن (Mount Unzen) جاپان کی ایک خوبصورت تصویر۔ (Photo: jpninfo.com)

’’کیکو‘‘ پاکستان میں سماجی زندگی پر بات چیت میں دلچسپی رکھتی تھی۔ اس لیے اس نے مجھ سے کئی سوالات کیے۔ میں نے اسے سوات کے بارے میں بتایا اور یہاں کے قدرتی حسن اور مہمان نوازی کے حوالے سے بھی اُسے ’’بریف‘‘ کیا۔ ہم رات گئے تک گپ شپ لگاتے رہے اور ایک دوسرے کے قرب سے لطف اٹھاتے رہے۔ جب میں نے ’’کیکو‘‘ سے کہا کہ کافی دیر ہوگئی ہے، اس لیے ہوٹل جا کے آرام کرتے ہیں، تو وہ اداس سی ہوگئی اور کہنے لگی کہ برسوں بعد اسے زندگی سے لگاؤ ہونے لگا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ رات اسی جھیل کنار ے گزا ریں۔
اُس رات آسمان صاف تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں اردگرد پھولوں کی خوشبوؤں کو پھیلانے میں مصروف عمل تھیں۔ جب کہ دور درختوں میں پرندوں کی چہچہاہٹ سے ماحول سحر انگیز ہو رہا تھا۔ ایسے میں جب میری نظر ’’کیکو‘‘ کے خوب صورت چہرہ پر پڑتی، تو میرے اندر جذبات کا طوفان موجزن ہوتا۔ میں اس جادوئی ماحول میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ رات کے کس پہر میری آنکھیں لگ گئی؟ کچھ پتا نہیں، اورجب کھلی، تو ’’کیکو‘‘ کے ہنستے چہرے اور سلامِ صبح کے ساتھ دن کا آغاز ہوا۔ میرا سر ’’کیکو‘‘ کی گود میں پڑا تھا۔ کیکو نے میرے گال پہ تھپکی دی اور کہا کہ چلو چلتے ہیں دن چڑھ چکا ہے۔ ہمیں واپس ٹوکیو بھی جانا ہے۔ سفر لمبا ہے۔ میں نے سر کے اشارے سے نفی میں جواب دیا، مگر وہ مسکرائی اور مجھے زبردستی جگانے کی کوشش کرنے لگی۔
ہم صبح ہوٹل واپس آئے، ناشتہ کیا اور ٹرین سٹیشن گئے۔ ٹرین پکڑ کر جب ہم ’’شین اوساکا‘‘ پہنچے اور ٹوکیو کے لیے ’’شین کین سن ٹرین‘‘ میں بیٹھ گئے، تو کچھ ہی دیر بعد ’’کیکو‘‘ کا سر میرے کندھے سے آ لگا۔ اس موقع پر وہ بڑے آرام سے سور رہی تھی، جب کہ اس کے خراٹے اردگرد کے مسافروں میں بے چینی پھیلا رہے تھے۔ ایک آد ھ مسافر تو ہماری طرف گلہ کرنے والی نظروں سے دیکھ بھی لیتا تھا، مگر میں نے ’’کیکو‘‘ کو جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ چار گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد جب ہم ٹوکیو پہنچے، تو کیکو گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔اب اُس کے خراٹوں کی آواز دھیمی پڑ چکی تھی۔اُس کے منھ اور ناک سے نکلنے والی گرم ہوا، مجھے بھلی لگ رہی تھی۔ میں نے جگانے کی خاطر اس کے گال پر ہلکی تھپکی دی، تو اس کی آنکھ کھل گئی اور فوراً سیدھی بیٹھ گئی۔ ٹرین رُکی۔ہم نیچے اتر آئے، تو شام کے سائے گہرے ہوچکے تھے۔ ’’کیکو‘‘ کے ساتھ دو دن سفر اور رات کھلے آسمان تلے گزار کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے مَیں کسی حسین خواب سے اٹھا ہوں۔ ٹرین سے باہر نکلے، تو ’’کیکو‘‘ نے اجازت لی اور لوکل ٹرین میں سوار ہوئی۔ میں بھی نہ چاہتے ہوئے ٹیکسی میں بیٹھ کر ’’آئی ہاؤ س‘‘ کی طرف روانہ ہوا۔ (جاری ہے)

…………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔