(نوٹ: بلاگ کے لیے استعمال ہونے والی تصویر خیالی ہے۔ اس کا لکھاری سے کوئی تعلق نہیں۔ مدیر لفظونہ)

یہ جو احسان الحق حقانی المعروف بابو وغیرہ جیسے بے کیف و بے سرور لوگ ہوتے ہیں۔ اُن میں دیگر کے علاوہ ایک بڑی بُری عادت یہ بھی ہوتی ہے کہ ہر کام میں ٹانگ اَڑاتے ہیں بابا۔ یہاں تک کہ وہاں بھی، جہاں اُس (ٹانگ) کو اَڑانے کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ کروٹیں چاچا ٹرمپ لیتا ہے، چھلانگیں یہ لوگ مارنا شروع کرتے ہیں۔ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان بھیا جی نوازکرتے ہیں، تو اُن کے گرد جمع ہو کر ’’ہو ہائے‘‘ کا شور یہ شروع کر دیتے ہیں۔ ملالہ سانس لیتی ہے، تو ’’تو تو، میں میں‘‘ کی شروعات یہاں ہوتی ہیں کہ کتنی لی؟ کوئی مرتا ہے، تو لحد تک پیچھا یہ کرتے ہیں کہ دیکھ لیں کیوں مرا؟ کوئی مرتا نہیں، تو جاکے وجوہات پوچھتے ہیں ’’کیوں نہیں مرتا، سالا کہیں کا؟‘‘ یہ بھی چھوڑیئے، بات ہے دل گردہ کی، خدا نے دیا ہے، تو ٹھیک ہے استعمال کریں۔ لیکن ابھی ابھی انہوں نے ایک خلافِ معمول کالم لکھ کر ہمیں بھی ٹانگ اَڑائی کا موقع دیا ہے۔ عنوان ہے اس کا ’’بی بی جی، ایک آف دی ریکارڈ ہستی۔‘‘ پڑھا، تو بڑا عجیب لگا، کیوں کہ اول، مائیں آف دی ریکارڈ نہیں ہوتیں بلکہ ’’آؤٹ آف کورس‘‘ ہو تی ہیں۔ دوم ، جب خیر سے بقیدِ حیات ہوتی ہیں ، تو اُن پر لکھنے کا قصد نہیں کرتے۔ ’’چائلڈ لیبر‘‘ پر تو دنیابڑا لکھتی ہے، لیکن ’’مدر لیبر‘‘ پر نہیں۔ کیوں کہ یہ ’’آؤٹ آف کورس سبجیکٹ‘‘ ہے بابو! ہمارا تو ویسے بھی عقیدہ تھا کہ بقیدِ حیات لوگوں پر کچھ لکھنا وِکھنا نہیں اور پھر کسی مزدور ماں کی اوقات ہی کیا، جس پر قلم اُٹھایا جائے۔ شاد مان رہے بی بی جی اوراُن کے اہل و عیال۔ رہے حقانی صاحب، تواُن کی ٹانگ اَڑانے کی عادت اپنی جگہ غلط، لیکن انہوں نے ماں کی کہانی چھیڑکر ہمارے ساتھ پنگا لیا ہے، تو ہم بھی کوئی لنڈورے نہیں، ایک قابلِ داد والدہ کی اولاد ہیں۔
ہماری والدہ ماجدہ کا نامِ گرامی ’’بخت نظیرہ‘‘ تھا۔ ہم اُن کو ’’مور‘‘ کے علاوہ موڈ میں ’’بی بی بے نظیر‘‘ بھی کہتے رہتے، جس پر وہ پھولے نہ سماتی۔ دیگر لوگ اُن کو ’’تَل بی بی‘‘ کہتے تھے۔ پشتو لفظ ’’تَل‘‘ کا مطلب ہے ہمیشہ۔یعنی ہمیشہ رہنے والی بی بی۔ نام کے مصداق وہ ہمیشہ تو نہیں رہی، لیکن ہمارے دلوں میں، ہماری رگوں میں اور ہمارے خون میں اب بھی وہ ہمیشہ کی طرح رواں دواں اور زندہ و تابندہ ہیں۔ تل بی بی حسب نسب سے میاں گان صاحبان کے خاندان کی ’’چراغ‘‘ تھیں۔ لفظ ’’چراغ‘‘ سے پہلے ’’چشم‘‘ پڑھنا ضروری ہو، تو پڑھ لیں۔ ویسے تکلف برطرف، ہم میاگان صاحبان اور پھر پاپین خیلوں کو بڑی عزت سے یاد کرتے ہیں کہ اُن سے دشمنی مول لینے کا یارا نہیں۔ خواتین کے محاذ میں ’’دادی بزرگواری‘‘ کے بعد ماں ہی اپنے ’’قبیلے‘‘ کی ’’سر خیلہ‘‘ تھیں۔ وہ مضبوط ستون تھیں، دور دور کے رشتوں کو قائم و دائم رکھنے کا۔ وہ ایک ’’وِنڈو‘‘ تھیں، جان پہچان کا۔ پُل تھیں، اپنوں اور پرایوں کے درمیان ربط کا۔ فوکل پوائنٹ تھیں، محبتوں کو بڑھانے اور نفرتوں کو دبانے کا۔ وہ ایک علامت تھیں، عاجزی اورسادگی کی، صبر و استقامت کی، محنت اورخدمت کی، شرافت و متانت کی، محبت و شگفتگی کی، صلح و آتشی کی۔ کبھی کوئی بات زیادہ ناگوار گزرتی یا اُن کی کسی بات سے کوئی اختلاف کرتا، تو انصاف کا دامن پکڑنے کی بجائے اپنے بھائیوں کا دامن پکڑتیں اور اُن کے نام سے سب کو ڈراتیں۔ بڑی ’’نوابن‘‘ بن کر بھائیوں کا حوالہ دیتیں۔ میرے غصہ کو پیار سمجھ کر پیتیں۔ ہم اکثر اُن کو کہتے: ’’نام تیرا بے نظیر ہے اور خاندان میں میاں نواز شریف کی شراکت دار ہو۔‘‘ یعنی دو وزیر اعظموں کے ساتھ نسبت ہے۔ تو چہچہا اُٹھتیں اور تین اُنگلیاں اُٹھا کے کہتیں: ’’دو نہیں، تین۔ ہمارا بیٹا وزیر اعظم سے کم ہے کیا؟‘‘ گویا اُن کے کھاتے میں ہم صاحبان وزیرِ اعظم کے پلڑے میں پڑے تھے۔ بے شک وہ تو ہمارے ناز نخروں، اُٹھک بیٹھک، رموز و اوقاف اور’’نشے وشے‘‘ سے ہی عیاں تھا۔ بات آپس کی ہے، بہت سارے وزیروں اور اُن کے بڑوں کے وطیرے اور حرص و لالچ کے غضب ناک واقعات یاد کرکے ہمیں تو اِن عہدوں اور ناموں سے گھن آنے لگی ہے، بخدا۔ لیکن یہ واقعات پھر سہی۔
’’سٹریٹ شاعری‘‘ میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ بے حساب شعر، ٹپے اور مصرعے اُن کو اَزبر تھے۔ باتوں باتوں میں اکثر ’’باہنگم‘‘ اور حالات کی مطابقت سے شعرو شاعری شروع کرتیں، تو لوگ سنتے رہ جاتے۔ پشتو کے اقوالِ زریں اور متل کا چلتا پھرتا خزینہ تھیں۔ ہم اکثر سوچتے کہ اتنے اقوال اور شعرو شا عری کا مجموعہ انہوں نے سیکھا کہاں سے اور یاد کیسے رکھا؟ اُن کے ہاتھوں کی پکی ہوئی ہانڈی میں زبردست ذائقہ ہوتا تھا۔انڈا بھی اُبالتیں، تو اُس کی برکت اورذائقہ منفرد ہوتا، چہ جائیکہ کوئی سالن۔ مکئی کے دانے بنتیں، گندم کے آٹے کا حلوہ بناتیں، دہی کی لوبیاکڑی کو علاقے میں دور دراز تک پھیلانے کا سہرا اُن کے سر ہے۔ بیگمی چاول کا تنہا اور پھر مختلف ڈشز کے ساتھ آمیزش کا فارمولا، ہماری نظروں میں ہماری ماں کی کئی پکوانی ایجادات میں سے ایک ’’نان پیٹنٹ‘‘ ایجاد ہے، جو ابھی تک اپنی سٹیٹس کے لحاظ سے جانی پہچانی ’’ڈش‘‘ گردانی جاتی ہے۔ خود بیمار پڑتیں، تو ڈاکٹروں کے پاس جانے کی ضد کرتیں لیکن عمومی صحت عامہ کے بارے میں ہماری ماں کا ماننا تھا کہ
ما د طب پہ کتابونو پہ بابونو کی دی لوستی
دا دہ ہر مرض دارو دہ حریڑہ دہ حریڑہ دہ
بہرحال اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ میری ماں کا وہ جھوٹا حلیہ معاف فرمائے، جو وہ کسی رشتہ دار کے گھر جانے کے لیے خواہ مخوہ بیمار ہونے کا روپ دھار کر بناتیں۔ اریڑہ کے علاوہ کئی خود رو پہاڑی پودوں کے بیج یا پتے ( وینالے، کوَرے وغیرہ) ہمارے ذریعے جمع کرتیں، سکھاتیں، ’’چٹو‘‘ (ہاون) میں خوب رگڑا کرتیں اور پھر برتنوں میں رکھتیں۔ کئی پودوں سے رَس نکالتیں اور بیماروں کو کھلا تی پلاتیں۔ یہ مشغلہ اُن کے مرغوب و محبوب مشا غل میں سے ایک تھا۔
دعاؤں میں ان کی معروف دُعا تھی: ’’دَ منگی اوبہ دی دارو شہ۔‘‘
میاں بی بی ہونے کے ناتے دم درود کے معاملے میں بڑی شفا بخش خاتون جانی جاتی تھیں۔ وہ اپنے پاؤں مبارک کو جسم کے مختلف حصوں میں درد کا علاج گردانتیں۔ قطعِ نظر اس کے کہ دم درود میں جو بھی کہتیں وہ تو کہتیں، لیکن ’’سفید پشتو‘‘ میں کہتیں اور کچھ خفیہ خفیہ کہتیں۔ وہ دوسرے برائے نام حکیموں کی طرح ’’تو تو، میں میں‘‘ تھوڑی کرتی تھیں۔ ہم پرخالی خولی دم چپ کرتیں اور اپنے لعاب مبارک کے چند دھارے ہماری طرف ’’پھونکتیں‘‘ تو ہم ہوتے کون تھے، جو فوری طور پر سٹینڈ بائی نہ ہو تے کہ اُن کو اپنی دم کی پختگی کا اندازہ ہو ، اور یہ مستقبل کی ایک بڑی پیر نی صاحبہ کا اعزاز حاصل کریں۔
یہ پینڈو عورت مزاروں کی آمد و رفت کی دلدادہ تھیں۔ سیرسپاٹے کا بھی یہی ایک بہانہ ہوا کرتا تھا۔ وہ خواتین کے ساتھ عام لوگوں کی سماجی رویوں سے نابلد تھیں۔ حصار بابا سے لے کر زیارت کاکا صاحب اور کئی اور بزرگوں کے مزار اگر ہم نے بہ چشمِ خود دیکھے ہیں، تو وہ اس خاتون کے طفیل دیکھے ہیں۔ ورنہ کہاں ہم اور کہاں یہ مقام! کوئی کسی میاں بابا کے روضہ بارے بات کرے اور یہ کچھ ہی دیر میں وہاں جانے کی تاویلیں نہ ڈھونڈتی پھریں، تو میرا نام بدل دیں۔
بابو کی بی بی جی کے برخلاف اپنی ماں بڑی ماڈرن قسم کی میڈم بھی تھیں۔ ہم نے اُن کو کبھی برقعہ پہنے دیکھا نہیں۔ اُن کے چہرے کادماغ میں جو نقشہ بنتا ہے، تو اس مصرعہ کے مصداق بنتا ہے:
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اُن کی وجہ سے تمام رشتہ داروں اور خاندان کے افراد کے مابین تعلقات کاتسلسل قائم تھا۔ بہاول پور سٹیٹ کی قد آور خواتین کی طرح بھاری بھر کم چادر میں بڑے شان کے ساتھ گھر سے نکلتیں، مع اپنی ’’سہیلیوں‘‘ کے گلی کوچوں کی خاک چھانتیں اور تمام رشتہ داروں اور محلہ داروں کا احوال معلوم کرکے آتیں، تو بی بی سی والے ’’مارک ٹیلی‘‘ کی طرح چہار سو اطلاعات پھیل جاتیں۔ کہاں کیا ہو رہا ہے، کس کی منگنی یا شادی ہو رہی ہے، کہاں سے مہمان آئے ہیں، کس کے گھر میں ایک اور، اور پھر ایک اور حضرتِ انسان کی تخلیق ہوئی؟ تخلیق کے ساتھ اگر تجلی بھی ملا کر پڑھا جائے، تو تب میرا کلیجہ پھٹنے سے رہ جائے، کہاں ختنہ اور کہاں نکاح ہونا قرار پایا ہے، کون سی بہن ہم سے ناراض ہے اور کون سی ’’رضا بہ رغبتِ الٰہی‘‘ ہے، کون بیمار ہے اور کون گھر سے باہر؟ سرِ شام، دن بھر کی یہ تمام باتیں فنگر ٹپس پر بیان کی جاتیں، اور وہ بھی ’’تختہ پوش‘‘ پر بیٹھے بیٹھے۔ عشا کی نماز ذرا زیادہ اہتمام سے پڑھتیں۔ اجتماعی دُعا کرنے کا اعلان فرماتیں اور تھکی ماندی کسی جگہ سر رکھ کرسو جاتیں۔ صبح سویرے پھر سے تازہ دم سب کی چائے روٹی کا نظام سنبھالنے بیٹھ جاتیں اور ایک ایک بچے کو سکول رخصت کرتیں۔
بابو کی بی بی جی کی طرح اُن کے بھی بعینہٖ دس عدد بچے تھے، لیکن اُنہوں نے انصاف کا دامن تھامتے ہوئے ’’اولادِ نرینہ‘‘ اور ’’اولادِ خزینہ‘‘ کے درمیان مساوات کاپلڑا برابر رکھ کر ثابت کیا کہ مرد و خواتین ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دس بندوں، ایک شوہر اور روزانہ کئی مہمانوں کا بوجھ یہ ہستی کس خوش اسلوبی اور اہتمام کے ساتھ اُٹھاتیں، یہ وہ جانے، ہمیں تو ایک دو بندوں کا کیا اپنا بھی بوجھ برداشت کرنانہیں آیا۔ کبھی اُن کو بے کار بیٹھے گپیں ہانکتے نہیں دیکھا۔ یہ لو، غلے دانے کی صفائی کی۔ ابھی جھاڑو چلے گا، برتن دھونے چل پڑی ہیں، تو ہنڈی بھی شور شرابا کر رہی ہے، یہ دال ہے یا لاوا، جو اُبل رہا ہے، اسی چل چلاوے میں پانچ مارچ 2012ء کو دارِ فانی سے ’’دارِ باقی‘‘ تشریف لے جانے کے لیے اپنے پاؤں سے ہسپتا ل پہنچیں اور دوسروں کے پاؤں سے واپس گھر پہنچائی گئیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ کسی کو صفحۂ ہستی سے ’’صفحۂ نیستی‘‘ تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ہمارے سرکاری ہسپتا ل ہوتا ہے۔ لوگوں کی جان، جانِ آفرین کو سپرد کرنے کا کنٹریکٹ اِن کے سر ہے۔ قرونِ اولیٰ سے پتا چلتا ہے کہ عہدِ قدیم سے عہدِ جدید تک زندگی کی موت کے ساتھ ’’بریجنگ اَپ‘‘ کا یہ ٹھیکا وہ یعنی سرکاری ہسپتال ’’بخوبی و بہ خوش اسلوبی‘‘ اور ڈنکے کی چوٹ پر نبھاتے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔ شوگر لیول گر گیا تھا، جس کو ہسپتال والوں نے مزید گرا کر زندگی اور موت کے بیچ موجود پردے کو بڑے آسانی سے کھینچ لیا۔ شام گئے،ہم جیسے پینڈو کھانا کھا چکے تھے۔ پشاور کے یونیورسٹی ٹاؤن میں خان باچا اور دیگر دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے۔سناؤنی سنائی گئی۔ بارہ بجے رات گاؤں پہنچے۔ گھر میں خواتین کے جمگھٹے میں ماں کے کمرے تک جانے کاراستہ دیا گیا۔ ماں کے چہرے سے کپڑا ہٹایا گیا، تو پہلی نگاہ میں دل حلق تک آیا ہی چاہتا تھا۔ دوسری نگاہ ڈالی، تو لگا جیسے بڑی پُرلطف نیند سو رہی ہیں، جیسے ابھی ابھی سستانے لیٹی ہیں، جیسے زندگی کی تھکاؤٹ سے چور چور وہ عارضی طور پرحالتِ سکتہ میں چلی گئی ہیں۔ وہ تصویر میرے ذہن کے کمپیوٹرمیں ہارڈ ڈیسک کی طرح پیوست ہوگیا، جو ابھی تک جوں کا توں موجود ہے۔ کئی دفعہ سوچا، ماں کے متعلق کچھ لکھنے کا، ذہن مانتا ہی نہیں کہ اب وہ ہم میں نہیں۔ زندہ بندے پر لکھیں، تو کیا لکھیں؟ حقانی صاحب کے کالم سے اندازہ ہوا کہ کسی کے متعلق کچھ لکھنے کے لیے فوت ہونا ضروری نہیں۔ ہاں ماں، تیرا فوت ہونا ضروری نہیں۔ اپنی کائنات ویران ویران ہو جائے گی، لق و دق صحرا بن جائے گی۔
مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی
دکھاں دی روٹی، سولاں دا سا لن
آہیں دا بالن بال نی
مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی

……………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔