کالج کے زمانے میں ہمیں یعنی آرٹس گروپ کے طلبہ کو اپنا کیمپس چھوڑ کر ایک پرانے ، خستہ حال کیمپس منتقل ہونے کا حکم ملا۔ یہ ہمیں ہرگز منظور نہ تھا۔ کہاں نئی نویلی دلہن جیسی آراستہ و پیراستہ عمارت اور کہاں وہ پرانی بلڈنگ جہاں واش رومز تک کی سہولت موجود نہ تھی؟ خیر، کچھ ’’انقلابی‘‘ دوستوں نے ہمیں ساتھ ملاکر پورے کالج میں یہ خبر پھیلا دی کہ ’’ہم اس ظلم کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے۔ اپنی بات پرنسپل صاحب تک پہنچائیں گے اور حق لے کر رہیں گے۔‘‘ طے پایا کہ اگر پرنسپل صاحب نے پھر بھی کوئی شنوائی نہ کی، تو کالج کے ساتھ بچھی سڑک پر احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔ پرنسپل صاحب کے دفتر جانے سے پہلے کچھ دوستوں نے نوجوان خون کے سامنے اپنی تقاریر جھاڑنے کا شوق بھی پورا کیا، جس میں خاکسار بھی شامل تھا۔ جوانی کا گرم خون اپنا رنگ دکھا رہا تھا۔ ایک ایک جملے پر زبردست قسم کی نعرہ بازی اور تالیوں کی سماعت خراش گونج سنائی دیتی۔ اتنی گرمجوشی دیکھ کر ذرا اونچائی پر کھڑے مقررین اپنی اپنی تقریر کو طول دینے لگے۔ دوسری طرف ماحول بنتا دیکھ کر ایک آدھ نئے مقرر بھی سیڑھیوں کے سٹیج پر دو بول کہنے اور بھرپور داد وصول کرنے تشریف لائے۔ ہر ایک نے مقدر بھر پُرجوش خطابات کیے۔ اور تو اور، سیاق و سباق سے ہٹ کر کچھ انقلابی اشعار بھی پڑھے گئے۔ جب بولتے اور سنتے سب تھک گئے تو باری آئی عملی پیش قدمی کی، یعنی اب طلبہ کے اس جم غفیر کو سڑک کے اس پار موجود کیمپس میں پرنسپل کے آفس تک جانا تھا۔ تمام طلبہ ایک گروہ کی شکل میں قدم سے قدم ملاکر بڑھنے لگے۔ اس بیچ کچھ جذباتی دوستوں نے بنا مشاورت کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ ’’سیدو شریف سڑک پہ سائیکل کو بھی نہیں آنے دیں گے، ’’پورا سیدو شریف بند نہ کیا، تو میرا نام فلاں نہیں۔‘‘ خیر ابھی مرکزی کیمپس کے پاس پہنچے، تو دیکھا انقلابی جوانوں کا یہ ٹولا دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔ پچاس فیصد انقلابی سڑک کے اُس پار ایسے کھڑے تھے جیسے ہم سے ان کی کوئی شناسائی نہ ہو۔ گومگو کی اس کیفیت میں بچے کھچے دوست اعتماد بحال کرکے دوبارہ پرنسپل آفس کی طرف پیش قدمی کرنے لگے۔ فاصلہ کے ساتھ کارواں بھی گھٹتا گیا۔ آفس پہنچتے پہنچتے آٹھ دس لڑکے باقی رہ گئے۔ ہمیں اندر بلایا گیا۔ پہلے تو یہ بحث شروع ہوئی کہ کون سب سے پہلے اندر داخل ہوگا؟ خدا خدا کرکے ایک نے حامی بھرلی، تو ہم بھی ساتھ چل دیے۔ اندر داخل ہوئے، تو پرنسپل صاحب کا غضب ناک چہرہ ہمارا استقبال کر رہا تھا۔ سب پروحشت طاری ہوگئی، جس دوست کے ہاتھ میں عرضی کی پرچی تھی، وہ اس کے ہاتھوں سے عنقریب گرنے والی تھی۔ پرنسپل صاحب نے اپنی بارُعب آواز میں آنے کی وجہ پوچھی۔ ہم نے بڑی مشکل سے اپنا مدعا بیان کیا۔ اس کے بعد پرنسپل صاحب نے وہ تاریخی جملہ کہا کہ جس نے اس ’’سیسہ پلائی دیوار‘‘ کی طرح کھڑی تحریک کو ریزہ ریزہ کر دیا: ’’اس سے پہلے کہ میں چند گالیوں کے ساتھ تم سب کی خوب مرمت کرکے کالج سے نکال دوں اور سب کا تعلیمی کیریئر خراب کردوں، دفع ہوجاؤ میری نظروں سے!‘‘ تاریخ گواہ ہے کہ اس کے بعد کسی نے پرانے کیمپس کی پرانی عمارت کے حوالہ سے ایک لفظ تک نہیں کہا۔
اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج کل ہر کوئی گھر بیٹھے مختلف تحاریک یا ان کو چلانے والوں پر بلا وجہ تنقید کرتا ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو کسی کو بنا سنے، بنا کچھ پڑھے ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگا کر مخالفت اور تنقید کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے عرض ہے کہ کوئی تحریک بنانا یا چلانا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ پہلے چیزوں کو سمجھنے کی زحمت کریں۔ اس کے بعد اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی غیر قانونی یا غیر آئینی ہے، تو ہی تنقید کا حق استعمال کریں۔ ایسے کسی کی سالوں کی محنت کو خراب کرنے کے لیے گھر بیٹھے اس میں اپنا حصہ ڈالنے سے گریز کریں۔
منظور پشتین کی مثال ہم سب کے سامنے ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے آج تک اس کی تنظیم کو پڑھا ہی نہیں ہے۔ بس سب اندھے مقلد بن کر پی ٹی ایم کے خلاف بنائے گئے ایک مصنوعی راستے پر چلتے ہی جا رہے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ ان کا ٹویٹر پر ٹرینڈ چلتا ہے۔ آپ مقابلے میں ٹرینڈ چلواتے ہیں۔ وہ جلسہ کرتے ہیں، آپ بھی جلسہ کرواتے ہیں۔ وہ اپنے لوگوں کا مجمع اکھٹا کرکے ان سے بات کرتے ہیں، آپ کسی کو جھنڈا تھما کر پروگرام کے تحت ایک الگ بحث کھڑی کر دیتے ہیں۔ وہ لاہور میں جلسہ کرتے ہیں، آپ کارکنان اٹھوادیتے ہیں۔ وہ کراچی جانا چاہتے ہیں، آپ ٹکٹ کینسل کروادیتے ہیں۔کیا چوہے بلی کے اس کھیل سے بہتر نہ تھا کہ آپ ایک جگہ بیٹھ کر انہیں سنتے اور سارا کھیل ہی ختم کر دیتے؟
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔