بس یہی انگریز اور ہم میں فرق ہے

آڈٹ کوڈ کا ایک فقرہ ہے کہ قومی بجٹ سے خرچ کرتے وقت ایک سرکاری ملازم اتنا محتاط اور کنجوس ہونا چاہیے، جتنا کہ ایک عام آدمی اپنی ذاتی رقم کو خرچ کرتے وقت ہوتا ہے۔ یہ انگریز کا بنایا ہوا اصول ہے۔ کیوں کہ وہ ہندوستان کے خزانے کو اپنی حکومت کی ملکیت سمجھتا تھا۔ چوں کہ غیر انگریز سرکاری اہلکار مغلوں کے زمانے ہی سے سرکاری املاک کو چرانے کے عادی تھے، اس لیے مغلوں کے بعد بھی اُن کی یہ بد عادت موجود رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہندوستانیوں کے ساتھ احساسِ غلامی تھا۔ وہ بجا طور پر سمجھتے تھے کہ مغل اور انگریز بیرونی غاصب اقوام تھیں، جنہوں نے اُن کو مغلوب کیا ہوا تھا اور اُن کے وسائل پر قابض ہوگئے تھے۔ انگریز اقلیتی لوگ تھے، خود ہر کام نہ کرسکتے تھے اور نہ نگرانی کرسکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے سرکاری کاموں اور خریداریوں کے لیے ٹھیکیداری نظام کو ہندوستان میں متعارف کروایا۔ جب تک وہ قابل اور جابر لوگ ہندوستان کے حکمران تھے، کرپشن کی مقدار کم تھی۔ اُس دور کی عمارات ڈیڑھ دو سو سال بعد بھی صحیح سلامت اور قابل استعمال ہیں۔ بھارت کا ہمیں علم نہیں لیکن کلمہ گو حضرات کے کاموں کا معیار سب کے سامنے ہے۔
1948ء ہی سے قوم کی عمدہ تربیت کی ضرورت تھی جس سے مجرمانہ غفلت تا حال کی جاری ہے۔ پاکستان کے ساتھ یا اس سے بعد کے آزاد شدہ وہ ممالک جس کی لیڈر شپ محب وطن اور قابل تھی، آج بہت آگے ہے، جب کہ ہماری حالت قابلِ رحم ہے۔ ہماری قوم کی بہترین تربیت منبر و محراب سے ہوسکتی ہے، لیکن وہاں سے قومی اور بین الاقوامی حالات پر خاموشی ہے۔ حلال و حرام کی تعلیم پر زیادہ تر خاموشی ہے۔ حقوق العباد کی تعلیمات پر خاموشی ہوتی ہے۔ قرآن و سنت کے ننانوے فی صد تعلیمات عوام اور خواص دونوں کو نہیں پہنچتیں جس کی وجہ سے ہم بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بن گئے ہیں۔
اگر ہم ایمانداری کے ساتھ اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں، تو دیکھتے ہیں کہ حرام خوری کا احساس ہی ختم ہوگیا ہے اور اس کی دوسری وجوہات میں ایک وجہ روزِ آخرت میں ذرے ذرے کے حساب کتاب کی حقیقت سے بے خبری ہے۔ فضول خرچی کیا چیز ہے؟ اس کا مطلب ہے ہر وہ خرچہ جس کے بغیر بھی کام چلتا ہو۔ نالائق افسران نے یہ خام خیالی دفاتر میں پھیلائی کہ اگر آپ تمام کا تمام بجٹ خرچ نہیں کریں گے، تو آپ کی جواب طلبی ہوگی۔ حالاں کہ جواب طلبی یا وضاحت اُس وقت دینی پڑتی ہے جب ضرورت بھی ہو اور پیسہ بھی ہو اور پیسے کو خرچ نہیں کیا جاتا۔

فضول خرچی کا مطلب ہے ہر وہ خرچہ جس کے بغیر بھی کام چلتا ہو۔ (Photo: Aaj Urdu News)

ٹھیکیداروں اور کمیشن خور ملازمین کی ملی بھگت اور افسران جن کی اکثریت رولز ریگولیشنز سے ناواقف ہے، کی اصلاح ہوجائے، تو بہتری آسکتی ہے۔ آپ سرکاری دفاتر میں جائیں، وہاں چھوٹے درجے کے ملازم آفیسرز کے دفاتر مکمل شیش محل ہیں۔ دروازے اور فرنیچر قیمتی اور بلور کے بنے ہوتے ہیں۔ دوسری اشیا بھی غیر معمولی ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ چوں کہ سرکاری اخراجات میں فی صد کے حساب سے کمیشن لیا جاتا ہے، اس لیے جتنا خرچہ زیادہ ہو، اتنا کمیشن زیادہ ملے گا۔ سرکاری اداروں کو سپلائی ہونے والی مختلف قسم کی اشیا معیار میں کمتر اور قیمت میں زیادہ تر ہوتی ہیں۔ یہاں بھی وہی کمیشن والی لالچ کار فرما ہوتی ہے۔
سرکاری عمارات اور تعمیرات میں اس انداز سے گھپلے کیے جاتے ہیں، جو عام لوگوں کو نظر نہیں آتے نہ آڈٹ والے اُن میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک شہر میں کئی کلومیٹرز لمبی پردہ دیوار تعمیر کی گئی۔ اُس کے آدھے حصے کو معمولی نوعیت کے جنگلے سے سجایا گیا، کسی کو یہ احساس تک نہ ہوا کہ اصل پی سی ون کو بھی دیکھ لو کہ وہاں کیا تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پوری دیوار اینٹوں کی ہو اور ’’اَجی صیب‘‘ نے سستے جنگلے کے ذریعے اپنی بچت بڑھادی ہو۔
گذشتہ دورِ حکومت میں سوات کے اچھے خاصے علاقے میں سڑکوں اور بازاروں میں ایک بڑا پائپ گاڑا گیا۔ اس پر کتنا خرچہ آیا؟ کس نے یہ کام کیا اور پانچ سال گزرنے کے باوجود اس کا مصرف کیوں نہیں ہے؟ موجود ایم پی اے صاحبان اور ایم این اے صاحب کی طرف سے کوئی آواز ہم نے نہیں سنی۔ مینگورہ میں یہ غلط رواج عشروں سے چلا آرہا ہے کہ پکی گلیوں کو ہر سال مزید کنکریٹ ڈال کر پکایا جاتا ہے۔ ایک طرف گلیوں کو کنکریٹ سے پکانا خلافِ قانون ہے، پھر پکی گلی کو بار بار پکانے سے گھروں سے نکاسئی آب متاثر ہوئی ہے۔ تقریباً ہر محکمے میں چند روپوں کے لیے لاکھوں کی گاڑیاں مٹی میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ کسی سردار کو یہ احساس تک نہیں کہ اُن کو یا تو کار آمد بنایا جائے یا فروخت کیا جائے۔ گورنر اور وزیراعلیٰ کی انسپکشنز ٹیموں کی موجودگی کا سنا ہے، اگر وہ موجود ہوں، تو شاید اُن کے معائنے دفاتر کی نرم کرسیوں اور گرم خوراکوں تک محدود ہوں گے، ورنہ فیلڈ میں تو بے شمار حقائق توجہ طلب ہیں۔ منتخب نمائندے بھی مصلحت پسند ہیں۔
ایک خبر کے مطابق اس وقت ملک 84 ارب ڈالرز کا مقروض ہے۔ ہمارا ہر کام سودی قرضے کے پیسوں سے ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال کے باوجود اگر فضول خرچیاں ہوں، تو اس خود غرضی پر خدا کی گرفت بہت سخت ہوگی۔ شریعتِ اسلامی نے فضول خرچ کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ ہماری تقریباً ہر حکومت بدانتظامی کا شکار رہتی ہے۔ اچھے خاصے سنجیدہ سیاسی حکمران بھی حقیقی مسائل کی طرف توجہ نہیں کرسکتے۔ اس لیے بہتر بات ہوگی اگر بدعنوانی کی روک تھام کرنے والے اداروں کو مضبوط کیا جائے۔ اُن کا دائرہ کار بڑھایا جائے اور میڈیا کا درست استعمال کیا جائے تو بہتری آسکتی ہے۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔