سوات میں گنتی کے چند شعرا ہی ہیں جو ترنم میں کلام پیش کرتے ہیں۔ان میں محمد گل منصورؔ کا نام گلِ سر سبد کی مانند نمایاں ہے ۔جس بھی محفل میں وہ ترنم سے گنگناتے ہیں، بلا شبہ محفل لوٹ لیتے ہیں۔کلام میں جب سوز بھی ہو، گداز بھی ہو اور اوپر سے جادوئی آواز بھی ہو، تو مشاعرے لُٹ ہی جاتے ہیں۔
اُن کی یہی صفت ان کی مقبولیت اور شہرت کا سبب بنی۔یہی وجہ ہے کہ آج آپ کی آواز کا جادو صوبہ بھر تو کیا افغانستان میں بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
اُسے بالی عمر یا میں عشق ہو گیا تھا۔جس نے اسے خوب رگیدا۔ اندر کی آگ نے ہڑبونگ مچار رکھی تھی ۔ایسے میں اندرونی کرب کو خارج میں ظاہر کرنے کے لیے اسے کسی تخلیقی اظہار کی ضرورت تھی۔ جس سے غم کچھ کم ہو جاتا۔اگر وہ ایسا نہ کرتا، تو پاگل ہو جاتا۔ لہٰذا اُس نے قلم اور مو قلم سے سیکچز بنانا شروع کئے۔اس کے دل میں محبوب کی تصور اتی تصویر بنانے کا جنونی جذبہ تھا۔وہ کسی شاعر کے اس مصرعے تک پہنچنا چاہتا تھا کہ
’’ تاتہ بہ نہ گورم او تالہ بہ تصویر جوڑوم ‘‘
لیکن گردشِ لیل و نہار نے اسے جلد ہی غم ِدرواں کی رسیوں میں جکڑ لیا۔ معاش کی چکی نے جب اسے خوب پیسنا شروع کیا، تو اس نے دیارِ غیر کا رُخ کیا ۔
وہ چودہ سال تک دبئی کے ریگستانوں کی خاک چھا نتا رہا۔ وہاں بھی اسے محبو ب کی یاد نے بے کل رکھا۔ایسے میں شعر کی دیوی اس پہ مہربان ہوئی۔ وہ اپنی آواز محبوب تک پہچانے کے لیے ہفتہ وار چھٹی میں تپتے صحراؤں میں گھنٹوں پیدل چل کر ریڈیو ایشیا کے دفتر جاتا ۔ ادبی پروگرامو ں کی میزبانی کرتا۔اور بے ساختگی میں ایسے ایسے شعر بھی کہتا ۔
د کلی والے مینے اوور پہ زڑہ کی بل کہ زما
رومال راولیگہ نامہ و رباندے گل کہ زما
پردی راوڑی نہ خپلیگی خویوسوال کوومہ
خدایا بس دغہ یو پردے راوڑے خپل کہ زما
چودہ سالہ دور میں ریڈیو ایشیا کے ساتھ ساتھ ’’ امارات ادبی ٹولنہ ‘‘ میں بھی اپنی خدمات سر انجام دیتا رہا ۔’’ زما دلرے وطن یارہ‘‘ کی شکل میں اس نے مسافر شعرا کا کلام یکجا کرکے کتابی شکل میں تالیف کیا۔بنیادی طور پر وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔پہاڑوں کا باسی ہے۔بڑا خاکسار،ملنسار اور یاروں کا یار بندہ ہے۔مہمان نواز بھی بڑا ہے۔ اسی لیے تو دور دراز سے یار لوگ اسے ملنے آتے ہیں اور خوشی سے نہال ہو کر چلے جاتے ہیں، جن کے لیے وہ لکھتا ہے ۔
منصورہؔ ! دا خو ٹول خلوص دے دیارانو گِنی
ماسرہ سہ دی چی یاران ورپسی مالہ رازی
شاعری کے حوالے سے منصورؔ ایک رومان پرست شاعر ہے۔اس کے کلام میں خارجیت کی بجائے داخلیت زیادہ ہے۔اس نے زیادہ تر حقیقی مشاہدات کو الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں لفظی محاکاتی عکس جابجا آہ اور واہ کی صورت میں بکھرا نظر آتا ہے۔
چی پہ شاگور ے رانہ زے ’’نو‘‘ زہ بہ نہ ژاڑمہ؟
دا تہ چی اوخکے تویوے’’ نو‘‘ زہ بہ نہ ژاڑمہ؟
ان کے محبوب کے نام کا پہلا حرف ’’ن‘‘ ہے۔انہوں نے ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار ؔ اور اختر شیرانی کی طرح روایت سے بغاوت کرتے ہوئے اس کا اظہار اپنے شعروں میں کیا ہے، لکھتے ہیں:
ٹنگیدے نہ شمہ اوس پہ ڈاگہ وایم
دیو خکلی یارانہ راسرہ شتہ دے
چی ما ھیر نہ کڑو’’نو ‘‘ زہ بہ ورتہ یاد یم
دا ثبوت دے دا دعوئی راسرہ شتہ دے
حال ہی میں ’’ تہ د غوگونو والئی مہ خرسوہ ‘‘ نامی ان کا شعری مجموعہ منظر عام پہ آیا ہے۔جو ادبی حلقو ں میں خوب سراہا جارہا ہے۔دو سو آٹھ صفحات کے اس کتاب کے ٹائٹل پہ اک طرف مراد آرٹسٹ کا فن دعوت فکر دیتا ہے، تو پشت پہ منصورؔ اپنی تصویر کے بیک گراؤنڈ میں اپنی شہرہ آفاق غزل کے ساتھ چُھپتا دکھائی دیتا ہے، جس کا مطلع ہے۔
ارمانی کور کی اوسیگی ارمانی کور تہ رازی
زینی خلق بے تپوسہ د زڑگی کورتہ رازی
کتاب کے آخر میں انہوں نے اپنے محبوب کے نام کھلا خط بھی لکھا ہے جو درد ِدل رکھنے والوں کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ اس کی سلگتی یادیں اسے بغاوت پہ اُکسا کے کبھی یہ بھی کہلوا ڈالتی ہیں کہ
رسوائی سہ دہ؟خو ریبار خفہ کول دی اشنا
کیدے شی اوس خفہ ریبار کڑمہ تیار اوسہ
بعض اوقات لفظ احساسات کو بیان نہیں کر سکتے، چھوٹے ہوتے ہیں۔ذراان اشعار کے تیور دیکھیں جن میں علامت،حقیقت،تشبیہہ اور تضاد کی کیفیات بہ یک وقت موجود ہیں:
ما د سپو گمئی پہ شپہ دیدار ستاد سپین مخ کڑے دے
ما ستا د زلفو پہ تیارو باندے گمان کڑے دے
وئیل ئی زڑہ زما ھم خوگ دے خو سہ نہ وایمہ
دا خو منصورؔ دے چی ئی کلی کی اعلان کڑے دے
یا یہ کہ
ھغہ کہ لاڑ شو نو د چا ورپسی زڑہ خوگیگی
ما پیژندلے وو،زما ورپسی زڑہ خوگیگی
منصورؔ کی زیادہ تر غزلیں غزلِ مسلسل کی طرز پہ ہیں، جن میں ایک ہی مضمون اور موضوع ہوتا ہے۔وہ موضوع ’’محبت ‘‘ کے سواکچھ اور نہیں ہوتا۔گزرے لمحے،پرانی یادیں اور کسک بھری ٹیسیس ہی اس کا سرمایہ ہیں اور یہی یادیں درد بن کر ان کے شعروں میں ڈھل کر ’’ تہ غوگونو والئی مہ خرسوہ‘‘ کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔
پرنٹنگ کی بعض غلطیوں کے باوجود کتاب پڑھنے کے لائق ہے ۔جس کے لیے آپ کو ایک سو پچاس روپے ضرور خرچنا ہوں گے۔کیونکہ کسی کو کتاب تحفتاً دینے کے حوالے سے منصورؔ کافی کفایت شعار واقع ہوا ہے ۔