چڑھتے سورج کی سرزمین، دید و شنید (چودھواں حصہ)

تقریباً پانچ دن کے مصروف وِزٹ کے بعد ہم واپس ٹوکیوآئے، تو آئی ہاؤس میں ہمیں دوبارہ وہی کمرے دیے گئے جس میں پہلے سے ہمارا قیام تھا۔ مجھے ذاتی طور پر اپنے کمرے سے اُنس سی ہو گئی تھی۔کمرہ چھوڑتے وقت میں نے اس کے تمام اطراف پر بار بار نظر ڈالی تھی اور اداس سا باہر گیا تھا۔ لیکن جب مجھے دوبارہ اسی کمرے کی چابی دی گئی، تو انتہائی خوشی ملی۔میں نے سامان رکھا اور اپنے بیڈ پر دراز ہوا، تواچانک کیکو کا خیال آیا۔ میں فوراً اُٹھ کر باہر چلا گیا اور کیکو کے سپر سٹور کی طرف چل پڑا ۔ جب میں سٹور کے اندر داخل ہوا، تو کیکو کاؤنٹر کے پیچھے کھڑی سودا سلف دینے میں مصروف تھی۔ اس لیے اس کی نظر مجھ پرنہیں پڑی۔ میں غیر ارادی طور پر سٹور کی الماریوں میں مختلف چیزوں کوتلاشتے کیکو کی جانب کنکھیوں سے دیکھ کر معلوم کرتا کہ وہ فارغ ہوگئی ہے یا نہیں۔ تاہم گاہک زیادہ تھے اور وہ مسلسل اپنے کام میں مگن تھی۔ کچھ دیر بعد جب گاہک ختم ہوئے، تو میں اس کے عین سامنے والی الماری کے ساتھ کھڑے ہوکر ہاتھ کے اشارے سے کیکو کی توجہ اپنی طرف دلانے کی کوشش میں لگ گیا، مگر وہ کاؤنٹر پر دوسرے کاموں میں مصروف تھی۔ ’’جناب! آپ کو کوئی پریشانی ہے؟‘‘ پیچھے سے زنانہ آواز میں مجھ سے کسی نے پوچھا۔ نتیجتاً میں یک دم روبوٹ کی طرح ساکت ہوا۔ پیچھے دیکھا تو چھوٹے قد کی ایک جاپانی لڑکی کو پایا جو سٹور میں کیکو کی طرح ملازمہ تھی۔ ’’نہیں نہیں میرے ہاتھ میں موچ آئی تھی، اس لیے اس کو اوپر جھٹک رہا تھا۔ تاکہ تھوڑا آرام محسوس کرسکوں۔‘‘میں نے فوراً جواب دیا جس پر وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ واپس چلی گئی۔ میں ابھی کھڑا ہی تھا کہ پیچھے سے میرے کاندھے پر کسی نے نرم سا ہاتھ رکھا جس سے میرے وجود میں ایک گرم سی لہر دوڑ گئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، تو گلابی رنگت والی کیکو کو پایا جس کی آنکھوں میں اُداس غصہ اور گال قدرے لال دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے بات کرنا چاہی، تو وہ اپنا ہاتھ جھٹک کر الٹے قدموں کاؤنٹر کی طرف چل دی اور ساتھ ہی جاپانی زبان میں کچھ بڑ بڑائی۔ میں کچھ لمحوں کے لیے حواس باختہ سا کھڑا رہا اور پھر تیزی سے کیکو کے پیچھے چل پڑا، مگر وہ گودام کے دروازے سے اندر گئی اور زور سے دروازہ بند کر دیا۔ مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا کروں؟ اس لیے میں نے کئی بار کیکو کو پکارا مگر وہ نہیں نکلی۔ زندگی میں شائد پہلی بار میں تذبذب کا شکار ہوا۔ اس وقت میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماؤف سی ہو گئی تھی۔کچھ لمحے کی کوشش کے بعد جب کیکو نے دروازہ نہیں کھولا، تو میں پیچھے مڑا اور سٹور سے باہر جانے لگا۔ نکلتے وقت جب میں نے پیچھے مڑ کردیکھا، تو سپر سٹور کا تمام عملہ اور چند گاہک خاموشی سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں باہر نکلا، تو اندھیرا چھا گیا تھا۔ سڑک کے کنارے بوجھل قدموں کے ساتھکیکو کے رویہ کے بارے میں سوچتے ہوئے آئی ہاؤس کی جانب چل پڑا۔ کمرے میں داخل ہوا، تو بیڈ پر لیٹ گیا اور کیکو کی سوچوں میں گم پتا نہیں کس وقت نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ میری آنکھ ٹیلیفون کی گھنٹی پر کھلی۔ اس وقت رات کے دس بجے تھے۔ جلد ہی فون اٹھایا، تو فرنٹ ڈیسک سے پیغام تھا کہ مجھ سے کوئی ملنے آیا ہے۔ میں کمرے سے نکل کر لفٹ میں داخل ہوا اور نچلی منزل کی طرف چلا۔ جوں ہی لفٹ کے دروازے کھل گئے، تو سامنے فرنٹ ڈسک کے ساتھ ہی کیکو کھڑی تھی۔ کیکو کو دیکھ کر مجھے جیسے 440 وولٹ جھٹکا لگا۔ لمبی تڑنگی حسین جاپانی کیکو سفید یونیفارم میں ملبوس تھی اور صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ سٹور سے چھٹی کے بعد سیدھا یہاں آئی تھی۔میں بھی سیدھا اس کے پاس گیا۔اس نے لپک کر میرے شانے پر سر رکھ دیا اور مجھ سے سٹور کے اندر روا رکھنے والے رویے پر معافی مانگنے لگی۔سامنے ڈسک پر دو ملازم کھڑے تھے، جو مجھے جانتے تھے۔ کیکو کا اس طرح سب کے سامنے مجھ سے گلے ملنا، میرے لئے نہ صرف عجیب تھا بلکہ شرم بھی محسوس ہورہی تھی۔ میں نے کوشش کی کہ اس کو ذرا پرے لے جاؤں، تاکہ ہم کم از کم ان ملازمین کی نظروں سے اوجھل تو ہوں، مگر وہ بدستور اسی جگہ کھڑی مجھ سے لپکی رہی اور معافی مانگتی رہی۔ کچھ لمحے بعد جب کیکو مجھ سے جدا ہوئی، تو کہنے لگی کہ وہ مجھے ٹوکیو ٹاور لے جانا چاہتی ہے۔ میں نے بھی بلاچوں چرا حامی بھری۔ہم آئی ہاؤس سے نکل کر ٹوکیو ٹاور کی طرف پیدل چلنے لگے۔

ٹوکیو ٹاور (Photo: hdwallsbox.com)

ٹوکیو ٹاورآئی ہاؤس سے تقریبا آدھے گھنٹے کے فاصلے پر واقع لوہے سے بنا مواصلاتی اور مشاہداتی ٹاور ہے، جس کی اونچائی تین سو تینتیس میٹر ہے۔ تاہم یہ ٹوکیو میں مقامی، ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ہے، جہاں ہر وقت سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ٹوکیوٹاور کو سفید اور نارنجی رنگ دیا گیا ہے جو رات کو درجنوں برقی قمقموں کی روشنی میں دور دور سے چمکتا ہوا نظرآتا ہے۔ رات کو یہاں پریمی جوڑوں کی بھی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ کیکو نے خاموشی توڑتے ہوئے پہلی دفعہ میری پانچ دن غیر حاضری کی وجہ پوچھی جو اس کی ناراضی کی وجہ بھی تھی۔ میں نے وضاحتاً پورے پروگرام کے بارے میں بتایا، جس پر اس نے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر جانے سے پہلے مجھ کو بتا دیا ہوتا، تو مجھے خوشی ہوتی۔ میں نے معافی مانگی، تو اس کا چہرہ کھل اٹھا اور خوشی سے اپنا بایا ں ہاتھ میرے دائیں ہاتھ میں دیا۔ آگے بڑھتے ہوئے کیکو نے کہا کہ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہے اور آج کل وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔ کیوں کہ اس کے والدہ کو طلاق ہوگئی ہے۔ وہ صبح سویرے کام کے لئے نکلتی ہے اور رات کے دس بجے ہی گھر واپس جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے پانچ سال انہوں نے کوئی چھٹی نہیں کی اور اسی دوران میں وہ اپنے رشتہ داروں تک سے نہیں ملی ہے۔ اس کا کوئی قریبی دوست اور سہیلی نہیں اس لئے وہ زندگی سے جڑے احساسات، خوشیوں اور مزوں سے ناواقف ہے۔ وہ لمبے عرصہ سے صرف اپنا گھر اور کام کی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ نہیں گئی۔ اس کے بقول وہ اکثرجاپان کی خوبصورت جگہوں کے بارے میں سنتی ہے، مگر نہ تو اس نے ’’ہکونے‘‘ دیکھا ہے، نہ ’’ فوجی پہاڑ‘‘ اور نہ ’’ کیوٹو‘‘ہی گئی ہے۔اس نے کہا کہ جاپان کے زیادہ تر لوگوں کی یہی روٹین ہے۔ کیو ں کہ ان کے پاس کام کے علاوہ اضافی وقت نہیں ہوتا۔ ’’ہماری زندگی کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا،بس دن کو کام کرتے ہیں اور رات کو تھکے ہارے گھر جا کر سوجاتے ہیں۔اگر میں سچ کہوں، تو بعض اوقات کئی دنوں تک میری امی سے بھی ملاقات نہیں ہوپاتی۔ کیوں کہ جب رات کو گھر جاتی ہوں، تو امی سوئی ہوئی ہوتی ہے اور صبح جب جاگتی ہوں، تو وہ مجھ سے پہلے کام پر گئی ہوئی ہوتی ہے۔ آپ یوں سمجھیں کہ ہم مشین بن گئے ہیں۔ـ‘‘ اس نے کہا۔
اس دوران میں ہم ٹوکیو ٹاور کے قریب پہنچے، تو وہ میرا ہاتھ کھینچتے ہوئی مجھے ساتھ والے چھوٹے سے پارک لے گئی۔ یہ چھوٹا پارک جس کے ایک طرف ٹوکیو ٹاور اور باقی تینوں اطراف سڑکیں ہیں، گھنے درختوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس میں ایک طرف پانی کی چھوٹی سی ندی بہتی ہے، جب کہ جگہ جگہ لوگوں کے بیٹھنے کے لئے بنچ بنائے گئے ہیں۔ ہم جب پارک میں داخل ہوئے، تو ہمارے علاوہ اس میں چند ہی لوگ تھے جن میں زیادہ تر پریمی جوڑے ہی تھے۔ ہم بھی ایک بنچ پر بیٹھ گئے جہاں سے ٹوکیو ٹاور کا آخری حصہ نظر آرہا تھا۔ کیکو نے کہا کہ یہ تمام پریمی جوڑے جو آپ کو نظر آرہے ہیں، ان میں زیادہ تر یا تو جاپان کے امیر طبقے کے بچے ہیں اور یا ٹوکیو سے باہر کے وہ نوجوان ہیں جو یہاں پڑھتے ہیں۔ کیکو نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کہ کئی سالوں پر محیط میری بے رونق اور بے مزہ زندگی میں آپ پہلے شخص تھے کہ جس نے مجھ سے میرے بارے میں پوچھا، مجھے اہمیت دی اور پہلی دفعہ میرے اندرونی جذبات کھلنے لگے۔ مرد اور عورت کے درمیان احساسات کا جو رابطہ اور کشش ہوتی ہے، وہ مجھ میں بھی پیدا ہونے لگی اور میں جبلی طور پر آپ کا انتظار کرنے لگی۔ کیوں کہ آپ سے چند لمحوں کی باتیں مجھے اس دنیا میں اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ پھرجب آپ ایک دن نہیں آئے، تو میں بے قرار ہوگئی اور میری انتظار کی شدت بڑھ گئی، مگر جب آپ دوسرے روز بھی نہیں آئے، تو میں پریشان ہوگئی اور جب نوبت پانچ دنوں تک پہنچ گئی، تو بے چینی اور بے قراری نے مجھے پاگل کرنا شروع کیا۔

ٹوکیو ٹاور کے قریب پارک کا منظر جہاں پریمی جوڑے اکھٹے بیٹھتے ہیں۔ (فوٹو: لکھاری)

اب چوں کہ رات کے ساڑھے گیا رہ بج چکے تھے، اس لیے میں نے کیکو کو یقین دلایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ یہ سن کر وہ کھل اٹھی ۔ ہم کھڑے ہوئے اور آہستہ آہستہ واپس چلنا شروع کیا۔ٹوکیو ٹاور کے نیچے لوگوں کی بھیڑ لگی تھی۔ ہم ’’اذابوجوبان سب وے سٹیشن‘‘ کے قریب پہنچے، تو کیکو نے مجھ سے اجازت لی اور چلی گئی۔ میں بھی آئی ہاؤس کی طرف روانہ ہوا۔ (جاری ہے)

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔