سکون کیا ہے؟ لذت کیا ہے؟ ابتدائے آفرینش سے انسان کا وجود اس کائنات میں کئی سوالوں کی کھوج میں رہا ہے۔ پہلا مرد اور پہلی عورت اور پہلا گناہ، آدم علیہ السلام، حوا بی بی اور گندم۔
مفہومِ قرآن ہے کہ ہم نے عورت کو مرد کے لیے سکون کا ذریعہ بنایا۔ عورت اور مرد ایک دوسرے کا لباس ہیں (مگر جب میاں بیوی ہوں تب)۔ کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کے عیب چھپاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے بہت قریب جیسے بیرونی مادی چیزوں میں لباس انسان کے سب سے قریب ہوتا ہے۔ اسی لیے انہیں ایک دوسرے کا لباس کہا گیا۔ یہ سکون کیسا ہے؟ مرد تھکا ہارا گھر آتا ہے۔ اُس کا کرخت وجود دن بھر کی صعوبتوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ بیوی اُس کی دلجوئی کرتی ہے۔ جب وہ اُداس ہوتا ہے، تو دل کی بات اُسے بتاتا ہے۔ بیوی جسمانی قربت سے اُسے شاد کام کرتے ہوئے ایک سکون بخش لمحہ فراہم کرتی ہے۔ مگر یہی عورت جب غیر مرد کی بانہوں میں جھولتی ہے، جب شوہر اپنی بیوی سے بے وفائی کرتا ہے، تو یہ قربت سکون نہیں بلکہ ایک گناہ آلود ’’لذت‘‘ بن جاتی ہے۔ ایک نشہ جس میں ضمیر کی خلش کی کڑواہٹ ملی ہوتی ہے۔ ہیجان کا لمحہ اور جوار بھاٹا جب دم توڑ کر خاموش ہوتا ہے، تو آنکھیں ندامت سے جھکی ہوتی ہیں۔ بہ شرط یہ کہ ضمیر میں زندگی کی رمق باقی ہو۔
کچھ دوست اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں کہ جب انگلینڈ یا کسی دوسرے یورپی ملک کی یاترا کے دوران اپنی گرل فرینڈ سے ہم اپنے ملک کی باتیں کرتے ہیں، تو وہ حیرت سے چیختے ہوئے پوچھتی ہیں: "How?” I mean how can a man live with his wife without a girl friend?” یعنی ساری عمر ایک ہی کھونٹے پے بندھی گائے کے ساتھ کیسے نباہ ہوتا ہوگا۔ یہ تو بڑی خشک زندگی ہوئی۔ اس میں تو کوئی چارمنگ کوئی رومانس نہیں، مگر کچھ دوستوں نے بتایا کہ ان غیر ملکی مردوں یعنی شوہروں کا بھی کچھ عجیب معاملہ ہوتا ہے۔ مثلاً ایرک کی کہانی کو سن لیجئے۔ میرے دوست نے فیس بک کے چھوٹے بھائی میسینجر پے اُس کی بپتا چھاپتے ہوئے کہا: ’’ایرک جیسے ہی تھکا ہارا گھر آتا اُس کی بیوی شانزا اپنے ’’ہی فرینڈ‘‘ کے ساتھ کسی ’’بیچ‘‘ یا ’’شاپنگ پلازا‘‘ وغیرہ پے ہوتی۔ بے چارہ تھکا ہارا فریج سے کھانا نکالتا، گرم کرتا اور مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا: ’’یہ بھی کیا زندگی ہے؟‘‘ ایک دن تو حد ہی ہوگئی جب ایرک نے اپنی بیوی کو اپنے ہی گھر میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ اُس روز میں بھی ایرک کے ساتھ ہی تھا۔ بیوی نے ہنستے ہوئے کہا: "Just Kiding.” اچانک ایرک نے قریب پڑے ایش دان کو رقیب رو سیاہ کے سر پر دے مارا۔ خون کا فوارہ اُس کے چہرے کو رنگتا گیا۔ لڑکی شوہر پر حملہ آور ہوئی۔ مجھ پر ایک عجیب سا انکشاف ہوا کہ مرد اپنی فطرت نہیں بدل سکتا۔ خواہ روشن خیالی اور نئی تہذیب کتنا ہی اُسے برین واش کرے۔ خواہ وہ کتنا ہی لبرل کیوں نہ ہو۔ اچانک مجھے احساس تغاور کی ایک لہر اپنے بدن میں سرسراتی سی محسوس ہوئی۔ ایسے ہی واقعات سے بچنے کے لیے مذہب کتنا بڑا سہارا ہوتا ہے۔ مجھے اپنے مشرقی ہونے پر خوشی کا احساس ہوا۔ یہ لوگ جو غیرت اور حیا نامی دو لفظوں کو سرے سے جانتے ہی نہیں، یہ دونوں آج عملی طور پر اُس گھر کے صحن میں اپنا ماورائی وجود گویا سب کو دکھا رہے تھے۔ اور مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ واقعی ہمارا مذہب اسلام، انسانی فطرت اور مزاج کے مطابق ہے۔ یہ زندگی کا ایک مکمل ضابطہ ہے۔ یہ برسبیل تذکرہ ایک دوست کا واقعہ تھا۔ ہمیں بنانے والا عظیم خدا کہتا ہے: ’’اے ایمان والو، اپنی نگاہیں نیچی رکھا کرو۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ فطرت سے بغاوت کرکے آج عورت ایک ’’سیکس سمبل‘‘ بن گئی ہے۔ اسے چراغ خانہ کی بجائے چراخِ محل و انجمن بنادیا گیا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ خدا فراموشی خود فراموشی ہے۔ جب وہ خدا کو بھول جاتا ہے، تو پھر اپنی ایک الگ حیثیت بنا لیتا ہے۔ اس کی ساری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے۔ پھر وہ بہت سوں کی بندگی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دولت کا، حرص کا اور عورت کا بندہ بن جاتا ہے۔ اُس کی عریانی اُسے لبھاتی ہے۔ اُس کا ظاہری حسن اُسے دیوانہ بناتا ہے۔ اُس کی تصاویر، اُس کی حرکات پھر اُس کے موبائل، اُس کے لیپ ٹاپ اور دل میں جگہ بنالیتی ہیں۔ جو شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے، دراصل خود اپنے آپ کو نہیں جانتا۔

فطرت سے بغاوت کرکے آج عورت ایک ’’سیکس سمبل‘‘ بن گئی ہے۔ اسے چراغ خانہ کی بجائے چراخِ محل و انجمن بنادیا گیا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ خدا فراموشی خود فراموشی ہے۔ (Photo: karolanegb – DeviantArt)

خدا سے غافل ہو کے ہی انسان اپنے آپ سے غافل ہوجاتا ہے۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی۔ بے شرمی اور بے حیائی کا سیلاب ہماری گلی کوچوں اور مارکیٹوں میں اُمنڈ آیا اور ہمیں خبر ہی نہ ہوئی۔ سورۂ رحمان میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’(جنت) کی ان نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی۔‘‘ مرشد عام صاحب نے تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’یہ عورت کی اصل خوبی ہے کہ وہ بے شرم اور بے باک نہ ہو بلکہ نظر میں حیا رکھتی ہو، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے درمیان سب سے پہلے اُن کے حسن و جمال کی نہیں حیا داری کا ذکر فرمایا ہے اور ان کی عفت مابی کی تعریف فرمائی ہے۔ حسین عورتیں، تو مخلوط کلبوں، یونیورسٹیوں اور فلمی نگار خانوں میں بھی جمع ہوجاتی ہیں اور حسن کے مقابلوں میں تو چھانٹ چھانٹ کر ایک سے ایک حسین عورت لائی جاتی ہے، مگر صرف ایک بد ذوق ہی اُن سے دلچسپی لے سکتا ہے۔ کسی شریف آدمی کو وہ حسن ’’اپیل‘‘ نہیں کرسکتا، جو ہر بد نظر کو دعوتِ نظارہ دے اور ہر آغوش کی زینت بننے کے لیے تیار ہو۔‘‘
انسان جب اپنے بنانے والے کے راستے سے ہٹتا ہے، تو پھر کبھی اُس کی لذت کوشی اُسے ایڈز کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے یا ہم جنس پرستی کے راستے پے ڈال دیتی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ حلال اور جائز سکون کا راستہ جو کہ فطری ہے کو چھوڑ کر مسلمان بھی اب اس یلغار میں گردنوں ڈوب چکے ہیں۔ ہمارے نوجوان اس ظاہری چکا چوند سے مرعوب ہوچکے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ خدا (معاذ اللہ) ایک چوپٹ راجہ ہے جس کی اندھیر نگری میں نیکی کرنا گویا اُسے دریا میں ڈال دینا ہے۔ اللہ کے احکامات پر عمل نہ کرنا گویا اُس کو نہ ماننا ہی تو ہے۔ دراصل آج کے دور میں حکومت کی بے بس مشینری یہ جاننے کے قابل ہی نہیں رہی کہ ہماری قوم کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے؟ کونسا تعلیمی نظریہ و نصاب ہمارے لیے فائدہ مند اور کونسا مضر ہے؟ خاندان جو کہ معاشرے کا بنیادی یونٹ ہے جس طرح دیوار کی اینٹیں ہوتی ہیں، یہ خاندانی اینٹیں مل کر معاشرے کی دیوار بناتی ہیں۔ مغرب نے، عورت اور مرد کو بے لگام آزادی دے کر اپنے خاندانی سسٹم کو ملیامیٹ کردیا ہے۔ وہاں والدین بے چارے غیروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ چند ماہ پہلے اسی اخبار میں ایک بہت ہی غمناک خبر چھپی تھی کہ ’’بوڑھے باپ نے دل کے بہلاوے اور تنہائی دور کرنے کے لیے پولیس کو فون کرکے اپنے پاس بلوایا۔‘‘
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی اسی راستے پے چلے جارہے ہوں۔
ذرا سوچیے!

…………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔