لواری ٹنل دنیا کی شاید واحد ٹنل ہوگی جس میں سے موٹر سائیکل چلا کر نہیں لے جائی جاسکتی۔ اس کی لاجک میری ناقص سمجھ میں تو نہیں آئی۔ ہاں اسے کسی لوڈر گاڑی یا جیپ پر لوڈ کرکے کراس کیا جاسکتا ہے۔ لواری کے دونوں اطراف لوڈر گاڑیوں والوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ ٹنل کراس کرانے کے وہ فی بائیک پانچ چھے سو روپے چارج کرلیتے ہیں اور ایک ایک لوڈر گاڑی یا جیپ پر پانچ چھے بائیک باندھ بوندھ کے لے جاتے ہیں۔ اُن کا تو دل کرتا ہے کہ وہ اپنی گاڑی کے اندر، اوپر، نیچے ، انجن پر اور پھر گاڑی کے چاروں جانب زیادہ سے زیادہ بائیکیں اُڑس کر لے جائیں۔ وہ تو بائیکس والے نہیں مانتے، اس لیے کہ اُنھیں ان کی قیمتی بائیکس پر خراشیں آ جانے سے اُن کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ورنہ وہ دس سے پندرہ بائیکس بھی تن تنا کے لے جائیں۔
ان لوڈر گاڑیوں پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ ایک بار ایک مقررہ تعداد سے زیادہ نہیں لے جا سکتے۔ ان کے لیے کھلی چھوٹ ہے۔ انھوں نے اپنی لوڈر گاڑی پر مضبوط رسے پہلے سے ہی رکھ چھوڑے ہیں، جوں ہی کوئی پارو قابو آتے ہیں، وہ ایسے ایسے طریقے سے بائیکس کو باندھتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ کچھ پوری گاڑی کے اندر تو کچھ آدھی گاڑی کے پیچھے لٹکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اُدھر بائیکرز کی بھی مجبوری ہوتی ہے، وہ ایک بائیک کے لیے ایک سالم گاڑی تو نہیں لے سکتے۔ کیوں کہ اس طرح اُنھیں بہت مہنگا پڑتا ہے۔ بائیک پر سفر کرنا گاڑی کی نسبت بہت سستا پڑتا ہے۔ وہ تو پہلے ہی اس لیے بائیک پر جاتے ہیں کہ ٹور پر ان کا خرچہ کم سے کم ہو۔ سانپ بھی مر جائے اور ڈنگوری بھی بچ جائے…… یعنی وہ ٹور کر کے اپنا شوق بھی پورا کر سکیں اور اُن کا خرچہ بھی کم سے کم آئے۔ لہٰذا وہ بھی ایک برداشت کی حد تک چپ چاپ اُن لوڈر گاڑیوں والوں کے بائیکس کو اپنی گاڑیوں پر لوڈ کرنے کے کرتب دیکھتے رہتے ہیں۔ جوں ہی پانی سر سے اوپر جا کر اُن کی برداشت سے باہر ہونے کو آتا ہے، تو وہ چیخ اٹھتے ہیں۔ ’’بس بھئی بس! اب اس سے زیادہ لوڈ نہ کریں۔‘‘
اس ٹنل میں سے بائیکس چلا کر نہ گزارنے دینے کی ایک وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہو سکتی ہے کہ ابھی شاید اس ٹنل میں ہوا کی آمد و رفت، نکاسی اور روشنی کا کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں۔ ہم اپنی گاڑی پر تھے۔ ہم جب اس ٹنل کے اندر داخل ہوئے، تو میرا دم تھوڑا گھٹتا تھا۔ جی متلاتا تھا۔ پتا نہیں اس ٹنل میں کیا خرابی ہے؟ کیوں کہ مَیں سوات موٹروے پر چکدرہ سے پہلے آنے والی ٹنلز کو کراس کرکے ہی یہاں تک پہنچا تھا۔ قراقرم ہائی وے پر وادئی ہنزہ میں کتنی ہی لمبی لمبی ٹنلز ہیں۔ وہ مَیں نے کئی بار کراس کی ہیں۔ کبھی کہیں میرا جی نہیں گھبرایا، تو مَیں سوچتا ہوں کہ یہاں کیوں میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ عجب حیرانم……!
ہندو کش کی بلند ترین چوٹی ترچ میر کے متعلق مقامی لوگوں کا تصور یقین کی حد تک پہنچا ہوا ہے کہ اس پر جنوں اور پریوں کا مسکن ہے، بل کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پریوں کے بادشاہ کا قلعہ بھی اسی چوٹی پر ہے۔ وہ چترال کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے شرارتی جنوں کا قید خانہ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس شریر جن نے حضرت سلیمان کی انگوٹھی چرائی تھی، وہ بھی ترچ میر پر موجود قلعے میں رہتا ہے۔ یہاں کے ماہر عملیات کا کہنا ہے کہ چترال کے پہاڑوں میں جنات کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے اور ہر پہاڑ پر کہیں نہ کہیں ان کا مسکن ہے۔ یہیں کہیں ان کے تعلیمی ادارے، مدرسے اور مسجدیں بھی ہیں۔
مَیں سوچتا ہوں کہ بائیکرز پر اپنی بائیکس چلا کر ٹنل کراس کرنے کی پابندی بھی کہیں اسی تناظر میں انھی کے ڈر سے نہ لگائی گئی ہو۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ کہیں ٹنل کے اندر کوئی اکیلا بائیکر اُن کے اُڑکے نہ چڑھ جائے اور وہ اُسے اِغوا کرکے ترچ میر کے اوپر اپنے قلعے میں نہ لے جائیں۔ وہاں لے جا کر وہ اُس کی بائیک کا فٹنس ٹیسٹ لیں اور اگر وہ بائیک اُن کے فٹنس کے معیار پر پوری نہ اُتری، تو وہ کہیں اُسے ترچ میر چوٹی پر بنی اپنی جیل میں نہ ڈال دیں…… یا پھر خدانہ خواستہ اس کی بائیک کے کاغذ چیک کرلیں اور اگر وہ پورے نہ نکلے یا، پھر دو نمبر ثابت ہوں، تو وہ اُس کی بائیک ضبط کرکے اُسے دو سال کے لیے اندر نہ کر دیں…… یا پھر جو مال پانی اُنھیں مل سکتا ہے، کہیں وہ جن بھیا نہ لینا شروع کر دیں۔ اس طرح تو پھر اُن کی دیہاڑی مر جائے گی۔
مَیں نے اس لواری پاس کو تین چار بار کراس کیا ہوا ہے۔ لواری پاس کراس کرنا آسان کام نہیں رہا۔ اس کے لیے ایک سے زیادہ دل گردے چاہئیں۔ چترال تک رسائی میں لواری پاس کی رُکاوٹ ہی سب سے بڑا مسئلہ، بل کہ ’’مسئلہ فیثاغورث‘‘ تھا۔ اسے کراس کرنے کے لیے مناسب وقت پہلے سے ہی طے کرنا پڑتا تھا۔ کیوں کہ یہ کھلتا بھی تو سال میں چار پانچ ماہ کے لیے تھا اور وہ بھی جب جی چاہا بند ہوجاتا تھا۔ جوں ہی برف باری شروع ہوتی یہ بند ہو جاتا، یا پھر کبھی تھوڑی زیادہ بارش ہوتی، تو بھی یہ بند ہو جانا مناسب سمجھتا۔ وہ اس لیے کہ اس پہاڑ میں مٹی کی ایک بڑی مقدار قدرتی طور پر شامل ہے۔ بڑا نازک مزاج پاس تھا بے چارہ۔ ٹنل بننے سے اس کے سارے ناز و نخرے ختم کر دیے گئے ہیں۔
دیر کی طرف سے تو خیر چڑھائیاں زیادہ خطرناک نہ تھیں، مگر 10 ہزار 5 سو فٹ اونچائی پر لواری پاس کے عین اوپر جاکر نیچے کی طرف ایک کے بعد ایک گھومتے ہوئے 54 کے قریب بڑے موڑ تھے، جن کی بھول بھلیوں میں گھومتے گھومتے چکر در چکر کاٹتے تقریباً اڑھائی سے 3 گھنٹے ابھی میں کھوکر لگ جاتے۔ 3 گھنٹے تک گاڑی اسی ایک پہاڑ پر ایک موڑ سے دوسرے موڑ تک چکر کاٹتی رہتی۔ آخری بار سنہ 2013ء میں، مَیں اپنے دس کے قریب ساتھیوں کے ساتھ اسے کراس کرکے چترال گیا تھا۔
بھوک زوروں پر تھی۔ لواری پاس سے اُترائی پر زیارت کے مقام پر دو تین چھپر ہوٹل ہوا کرتے تھے۔ زیادہ تر ویگنیں وہیں پر اُن میں سے کسی ایک پر رُک کر تھوڑا ریسٹ کیا کرتی تھیں اور پھر زیادہ تر لوگ انھی چھپر ہوٹلوں پر پیٹ پوجا بھی کرلیتے تھے۔ ہماری وین بھی ان میں سے ایک چھپر ہوٹل پر رُکی۔ پہلے یہاں پیشاب کرنے کے لیے کوئی سہولت نہ ہوا کرتی تھی، مگر اب اس سڑک کے کنارے ڈھلوان کی طرف ایک دو واش روم بھی بن گئے تھے۔ چناں چہ ہم نے بھی اُترتے ساتھ وہی کیا جو سفر کے دوران میں عام مسافر کرتے ہیں…… یعنی سیدھے پہلے باری باری واش روم گئے اور فراغت کے بعد اُن میں سے ایک ہوٹل پر کھانے کی نیت سے جا ڈیرے ڈالے۔ ہوٹل والے سے کھانے کا ریٹ پوچھا، تو اُس نے بڑے طمطراق سے 130روپے پر ہیڈ کہا۔ مَیں نے پھر سے اُس سے کنفرم کیا، تو کہنے لگا کہ چاہے کھانا جتنا جی چاہے کھاؤ اور جو جی چاہتا ہے کھا لو، مَیں آپ سے 130 روپے فی بندہ لوں گا۔
اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ ہم صبح کے بھوکے تھے اور تھے بھی اصلی والے تاتاری، جو ہر کھانا اپنا آخری کھانا سمجھ کر کھاتے تھے۔پھر اُس نے پکایا بھی پہاڑی بکرے کا شوربا تھا، جو پہاڑوں پر اُگی مختلف جڑی بوٹیاں کھا کھا کر پلا تھا۔ ہم دس بندے اور ایک بکرے کے شوربے والی سوادی دیگ تھی۔
ہم کھانے پہ آئیں، تو دیگیں بھی اُلٹا دیں
چڑیوں کی طرح ہم کو تو چگنا نہیں آتا
بیرہ کھانا لاتا گیا اور ہم کھاتے گئے۔ آخرِکار پہاڑی بکرے کے شوربے والی سوادیسٹ دیگ ختم ہوگئی، تو ہم نے بیرے سے پوچھا کہ اور کیا ہے؟ بولا، جی دال چنا ہے۔ کہا، لے آؤ۔ دال بھی فنش۔ پوچھا، اور کیا ہے؟ بولا، چاول پڑے ہیں۔ کہا، اچھا چاول لے آؤ۔ وہ بھی اینڈ ہوگئے، تو سبزیوں کی شامت آگئی۔ اسی اثنا میں ہوٹل مالک ہوٹل چھوڑ کر چپکے سے کہیں کھسک گیا۔ اب ہم آوازیں دے رہے ہیں اور وہاں کوئی ہماری آواز سننے والا نہ تھا۔ ہمارے دو مہا تاتاری اُٹھے اور بہ ذاتِ خود جا کر ہوٹل پر موجود سالن والے برتنوں کے ڈھکن اُٹھا اُٹھا کر چیک کیے۔ سب کے سب غریب کی جیب کی طرح خالی پڑے اُن کا منہ چڑا رہے تھے۔ ا ب ہوٹل مالک کی تلاش شروع کر دی گئی کہ اُسے ہم کھانے کا بِل تو دے سکیں۔ اِدھر اُدھر دیکھا۔ نہ وہ کہیں ہوٹل کے باہر نظر آیا اور نہ کہیں ہوٹل کے اندر ہی نظر آیا۔ چھوٹا سا چھپر ہوٹل تو تھا اور یہاں پر کون سا زیادہ رش ہوتا تھا۔
تھوڑے انتظار کے بعد مَیں ساتھ والے ہوٹل پر بیٹھے اُس کے مالک کے پاس گیا اور اُس سے اپنے والے ہوٹل کے مالک کے بارے میں پوچھا، تو وہ کہنے لگا کہ میرے ہوٹل کے پچھواڑے میں بنے ایک چھوٹے سے عارضی کمرے میں ہے۔ مَیں اُس کے پاس پہنچا۔ اُسے کہا کہ اللہ کے بندے، تو یہاں چھپ کے بیٹھا ہے اور ہم آپ کو آوازیں دے کر ڈھونڈ رہے ہیں۔ کھانا ختم ہو گیا ہے، تو کوئی بات نہیں۔ تم ہم سے اپنے کھانے کا بل تو لے لو…… مگر وہ انکاری ہوگیا۔ کہنے لگا کہ مَیں یہ بل لینے کا حق دار نہیں ہوں۔ پوچھا، کیوں جی؟ بولا، وہ اس لیے کہ مَیں آپ کو رجا نہیں سکا۔ مَیں 130 روپے فی بندہ رجانے کا لیتا ہوں۔ مَیں نے اُس سے کہا کہ یہ سب بورے والا کے تاتاری ہیں۔ انھیں سوائے اللہ پاک کے کوئی اور نہیں رجا سکتا۔ تم چنتا نہ کرو اور اپنے کھانے کے پیسے لو۔
مگر وہ سر جھکائے بیٹھا پیسے لینے سے انکاری رہا۔ کوئی ایکسٹرا شریف آدمی تھا۔ بڑی مشکلوں سے اُسے اس شرط پر پیسے لینے پر راضی کیا کہ وہ ہم سے فقط کھانے کے ہی پیسے لے گا، کولڈ ڈرنکس کے نہیں۔ اُس کے بہ قول کولڈ ڈرنکس اس کی طرف سے ہمارے لیے بہ طور تحفہ فری ہوں گی۔ ٹوٹل بِل پے کرنے کے بعد جب مَیں نے مزید کچھ رقم اُسے’’ٹپ‘‘ کے طور پر ادا کی، تو وہ بہت خوش ہوا۔ کیوں کہ مَیں نے اندازاً بہ ہرحال اُسے اتنی رقم دے دی تھی کہ منافع نہ بھی ہو، تو کم از کم اُس کا نقصان بھی تو نہ ہو۔ اب وہ کانوں تک خوش تھا۔ اس کے چہرے پر پھر سے رونق در کر آئی تھی۔ ہم نے اُس کے ساتھ تھوڑی گپ شپ لگائی۔ یہ جاننے کے لیے کہ کہیں اب بھی اُسے نقصان تو نہیں ہو رہا ہے، مگر وہ ہمیں بہت مطمئن نظر آیا۔ ہمارے دل کو تسلی بھی ہوگئی اور ہم واپس اپنی وین کی طرف لوٹ آئے۔
شمالی علاقے کے لوگ ہماری نسبت بہت سادہ اور بہت کم کھاتے ہیں۔ کھاتے بھی ہیں، تو بہت تھوڑا اور بہت سادہ سا۔ وہ ہوٹل مالک بھی اسی بھلیکھے میں مارا گیا۔ ہم جب جب بھی ایسے علاقوں میں جاتے اور اُن سے کھانا کھاتے ہیں، تو ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم اُنھیں ہمیں اُن کی طرف سے دیے گئے کھانے کے اُس سے زیادہ پیسے ادا کریں۔ ہم تو اُن علاقوں میں جاتے ہی پیسے خرچ کرنے ہیں۔ ہمارے لیے سو روپے کا نوٹ شاید اتنی اہمیت نہ رکھتا ہو، جتنا کہ ان کے لیے رکھتا ہے۔
’’وادئی خپلو‘‘ میں ایک بار مَیں اور میرے کچھ ساتھی چقچن مسجد دیکھنے گئے، تو وہاں پر ہمیں دیکھ کر کچھ مقامی بچے اور بچیاں بھی اکٹھی ہوگئیں۔ مَیں نے یوں ہی اُنھیں اپنے بیٹے اور اپنی بیٹیاں سمجھ کر سب کو دس دس روپے دے دیے۔ اُن کی خوشی کا عالم دیدنی تھا۔ اُن کی آنکھوں میں چمک در کر آئی تھی اور وہ اندر سے بہت خوش نظر آئیں۔ اتنے میں ایک مقامی ہمارے لیے کچھ کالے شہتوت توڑ کر اُن کی پلیٹیں بھر لایا۔ ہم نے بہ صد شکریہ اس سے لے کر کھالیں۔ پھر وہ ہمارے ساتھ چل پڑا۔ تھوڑی دور ہی اُس کا گھر تھا۔ ہمیں دیکھ کر اُس کے بچے گھر سے باہر نکل آئے۔ ہمارے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ بول اُٹھا کہ یہ میرے بچے ہیں۔ آپ انھیں بھی دس دس روپے دے دیں۔ یہ وہاں مسجد کے پاس آپ کی طرف جانا چاہتے تھے، مگر مَیں نے انھیں روک لیا تھا۔
مزید کہنے لگا کہ ہمارے لیے اور ہمارے بچوں کے لیے یہ دس روپے لاکھ روپوں کے برابر ہیں۔ ہمارے لیے یہ دس روپے بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے سو روپے کا ایک نوٹ بعض اوقات ہماری پوری فیملی کے لیے ایک پورے دن کا خرچہ ہوتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
